اُستاد محترم پروفیسر بانہالی صاحب ایک حساس شاعر، ایک دردمنداور ایک عالی ظرف انسان، بلند پایہ ادیب اور ایک اسلامی دانشور ہیں ۔ تو ازن اُن کی شخصیت کا ایک اہم جُز ہے ۔ آپ تقریباً تین دہائیوں تک جامعہ کشمیر کے شعبۂ کشمیری اور سنٹرل ایشن اسٹیڈیز میں کلیدی عہدوں پر فائزرہ کر علم و ادب کے گُل بوٹے کھلاتے رہے ۔ علاوہ ازیں کئی سال تک اقبال انسٹی ٹیوٹ آف کلچر اینڈ فلاسفی کشمیر یونیورسٹی میں جُز وقتی طور پر یہاں کے ایم۔فل اورپی ۔ ایچ۔ڈی سکالرس کو اقبال کا فارسی کلام بھی پڑھاتے رہے۔ اقبالیات میں پروفیسر مرغوب صاحب کو ایک مقام حاصل ہے۔انہوں نے اپنی تین مُستقل کتابوں کے ذریعہ علامہ کو خالص شاعرِ اسلام اور مفِکر ملّت کی حیثیت سے پیش کرنے کی ایک کامیاب علمی کوشش کی ہے۔ اب تک اُردو ،کشمیری ،انگریزی اور فارسی زبان وادب میں اُن کی درجنوں کتابیں،جرائد اور مضامین شائع ہو کر علمی وادبی حلقوں میں دادِ تحسین حاصل کر چکی ہیں۔
پروفیسر موصوف کی تصنیفات ،تحریرات اور تقاریر ومباحث میں ہمیں جابجا اعلیٰ علمی دلائل وبراہین کے ساتھ ساتھ اخلاقیات اور اسلامیات کے بلند اصول وضوابط نظر آتے ہیں ، بلکہ ’’اخلاقیاتِ مرغوب‘‘ کے نام سے انہوں نے مستقل طور پر ایک علحٰیدہ کتاب بھی ضبطِ تحریر میں لائی ہے جس میں انہوں نے اسلامی نقطۂ نظر پیش کیا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ فکرِ یات اسلامی سے لبریز ہر صاحب علم وبصیرت رکھنے والا انسان آپ کی تصانیف و تالیفات کا مطالعہ کر کے آپ کا گِرویدہ ہی نہیں بلکہ فدِوی بن جاتا ہے ۔
اب تک قریباً ڈھائی درجن سے زائد محققین نے آپ کی زیرتربیت مختلف عنوانات کے تحت پی۔ایچ ۔ڈی کے مقالات داخل کر کے کشمیر یونیورسٹی سے ڈاکٹر یٹ کی ڈگریاں حاصل کی ہیں۔
صوبۂ جموں اور صوبۂ کشمیر کی دونوں جامعات میں اب تک آپ کی شخصیت اور علم وفن پر دوپُر مغزمقالات سُپر وقلم کرنے کے نتیجے میں دو محققین کو ایم۔فل کی ڈگریاں تفویض کی جاچکی ہیں۔ کشمیری یونیورسٹی کے ایڈمنسٹریشن سے وابستہ ایک آفیسر ڈاکٹر پیر نصیر احمد عازمؔ(Dy.Registrar)نے اپنا مقالہ زیر عنوان ’’پروفیسر مرغوب بانہالی بحیثیت اقبال شناس‘‘شعبۂ اقبالیات کے سربراہ پروفیسر بشیر احمد نحویؔ کی زیر نگرانی پایۂ تکمیل تک پہنچا کر ایم۔فل کی ڈگری حاصل کی۔ نصیر عازمؔ صاحب کا یہ مقالہ چند سال پہلے کتابی صورت میں میزان پبلشرزبٹہ مالو سرینگر نے شائع کر کے منظر عام پر لایا ہے۔ موصوف کے اس شاندار اور پُر مغزمقالے کو اہل نظر حضرات کی طرف سے خوب پذیرائی حاصل ہوئی ۔ صاحب کتاب نے مذکورہ بالا مقالے میں عمدہ اور معروضی انداز سے پروفیسر مرغوب صاحب کی مفصل سوانح حیات رقم کرنے کے علاوہ اُن کی شخصیت کے نمایاں ادبی ،علمی اور فکر ی حوالے سے اقبال کے مختلف پہلوئوں کو نرالے انداز سے پیش کر نے کی ایک کامیاب کوشش کی ہے۔
دوسرا تحقیقی مقالہ جناب شبیر احمد بٹ صاحب نے جموں یونیورسٹی کے پروفیسر ضیاء الدین صاحب کی زیر نگرانی ۲۰۰۳ء میں داخل کر کے ایم ۔فل کی ڈگری حاصل کی ہے ۔ جناب شبیر احمد بٹ نے ’’پروفیسر مرغوب بانہالی کی اُردو ادبی خدمات ‘‘ کے زیر عنوان یہ مقالہ ترتیب دے کر جموں یونیورسٹی میں داخل کیا تھا۔اقبال شناسی کے حوالے سے اب تک اس باوقار درویش صفت دانشور کی تین تصانیف،’’ خزنیۂ امین‘‘ ’’،آدم گریٔ اقبال‘‘ اور’’ کلام اقبال کے روحانی فکری اور فنی سرچشمے‘‘ منظر عام پر آکر اہل علم خواتین وحضرات سے دادِ تحسین حاصل کر چکی ہیں۔ یقینا انھیں اقبالیات میں اپنا ایک مخصوص ومنفرد مقام حاصل ہے۔ آپ ابتدا ء سے تا یں دم اقبال کا نورِ بصیرت عام کرنے میں سرگرم عمل ہیں۔ اللہ تعالیٰ سے دُعا ہے کہ اُن کا سائیہ عاطفت ہم پر تاویرقائم رکھیں۔
راقم فکروفن اقبال کے حوالے سے یہاں اختصار کے ساتھ پروفیسر مرغوب بانہالی کی ایک اہم ترین کتاب بعنون ’’کلام اقبالؔ کے روحانی ،فکری اور فنی سرّچشمے ‘‘ پر ایک تبصرہ پیش کرنے کی حیارت کررہا ہے۔
زیر نظر کتاب اقبالیات کے حوالے سے بارہ اہم ترین فکری اور فنی مضامین پر مشتمل ہے۔ ایک سوچراسی صفحات پر مشتمل یہ کتاب یقینا فکریات اقبال کے حوالے سے غنچہ پیش بہا کی حیثیت رکھتی ہے۔قرآن حکیم اور رسول رحمت ﷺ کے حوالے سے اقبال کے فکری منابع کا ذکر کرتے ہوئے مرغوب صاحب اس کتاب کے ابتدائی مضامین میں اپنے مخصوص انداز سے تشریح و تعبیر کرتے ہیں۔دراصل مختصر مگر جامعیت کے ساتھ کلام اقبال (اردو فارسی) کی گر ہیں کھولنا اُنہی کا ایک خاص وصف ہے ۔وہ اقبال کے فارسی کلام اور اُن کی فکر پر پوری ایمانداری کے ساتھ اپنے فارسی شعر کی کلیدتک رسائل حاصل کرنا اور پھر قرآن حکیم اور سنت رسول مقدس ﷺ کی روشنی میں اُس کی توضیح کرنا مرغوب صاحب کا خاص وصف ہے۔مطالعہ کی گہرائی اور علمی سمجھ بوُجھ انھیں موضوع سے قطعاً بھٹکنے نہیں دیتا ہے۔ فکر اقبال کی عظمت اور انفرادیت کے سلسلے میں مرغوب صاحب ٹھوس دلائل کے ساتھ اِس کتاب واضح طور پر سامنے آئے ہیں۔وہ اقبال کے یہاں وحدت فکراور ذوق یقین کے ساتھ ساتھ قرآنی بصیرت اور رسول رحمتﷺکی سنت کو ایک اہم جُز کے طور پر پیش کر تے ہیں۔
مرغوب صاحب کے خیال میںاقبال مسلمانوں کو قرآن اور سنت پر کار بند دیکھنے سے پہلے ان میں وہ خودشناسی دیکھنا چاہتا ہے جو انھیں قرآن جیسی عظیم امانت کی امانتداری سے عہدہ برآہونا سکھاتے ہیںاُن کا یہ بجا شکواہ ہے کہ ؎
تمازو روزو قربانی و حج
یہ سب باقی ہیںمگر تُو باقی نہیں
علامہ اقبال نے بذات خوداس حقیقت کا اعتراف کیا ہے کہ اُن کی شاعری کی اساس قرآن وسنت پر مبنی ہے ۔ اس لئے مرغوب صاحب نے زیرِ نظر کتاب پر مشتمل مضامین میں بھی جابجا اقبال کی شاعری میں پوشیدہ اسلامی تعلیمات کو تلاش کر نے کی کوشش کرتے ہیں ۔ قرآن وحدیث کی باریک سے باریک نکتوں کو انھوں نے جس طرح کلام اقبال میں تلاش کرنے کی کامیاب کوشش کی ہے اور پھر اُن پر ناقدانہ اور محققانہ نگا ہ ڈالی ہے ۔دراصل وہ اُن کے عمیق مطالعہ اور مفکر انہ ذہن کے ساتھ ساتھ اُن کی قرآن فہمی کا غماز بھی ہے ۔ پروفیسر مرغوب صاب چونکہ یراہ راست فارسی کلام اقبال سے روشناس ہیں ۔ اس لئے آپ صحیح طور پر فکر وفن اقبال کی تشریح و تعبیر کے گرُ سے واقف ہیں۔اسی لئے معروف اقبال شناس پروفیسر بشیر احمد نحویؔ زیر تبصرہ کتاب کے ’’حرف تبریک‘‘ میں بجا طور پر فرماتے ہیں کہ’’جہاں تک راقم الحروف کے مطالعہ کا تعلق ہے ۔ ان موضوعات پر درجنوں ماہرین اقبالیات نے شرح و بسط کے ساتھ اپنے خیالات اور معلومات کا اظہار کیا ہے ۔ لیکن یہاں جو بات مرغوب صاحب کو ان ماہرین اِدب سے ممیز کرتی ہے وہ اُن کا علامہ اقبال کے فکری اور روحانی سرچشموں بالخصوص فارسی ادب سے اُن کی براہِ راست واقفیت ہے اور پھر عقیدت وارادت کے جذبات سے مُزینّ آپ کا اندازِ تحریر بھی مضامین کے حُسن کو دوبالا کرتا ہے‘‘۔(ص،۱)
مذکورہ کتاب کے پیش لفظ میں فاضلؔ مصنف نہایت جُرات مندی اور بے باکی سے اس حقیقت کی نقاب کُشائی کرتے ہیں کہ’’اقبال جیسے نابغہ ٔ عصر اور عہد ساز شاعر کی شخصیت کی مکمل تفہیم کا بنیادی تقاضا کلامِ اقبال کے رُوحانی فکری اور فنی سرچشموں کی تفہیم ہے۔ جب تک بیسویں صدی کے اِس عظیم خُدا آگاہ قلند راور خودی کے عظیم ترجمان کی شاعری کے سرچشموں تک رسائی حاصل نہ کی جائے گی، تب تک ہمارے ہر اقبال شناس کا دعویٰ معنوی سطح پر اُسی طرح کھو کھلا رہے گا جس طرح گذشتہ چھ صدیوں کے دوران برصغیر کی سب سے بڑی ثقافتی اہمیت کی زبان اور اقبال کا سب سے بڑا ذریعہ اظہار بنی ہو ئی زبان’’فارسی‘‘ سے نا آشنا کسی بھی شخص کی اقبال شناسی کا دعویٰ کھو کھلا قرار دیا جاسکتا ہے۔(ص۸)
فاضلؔ مصنف کی رائے راقم کے خیال میں صد فیصددُرست ہے۔ کسی بھی تہذیب ، تمدن اور شخصیت کر سمجھنے کے لئے بنیادی علم اور تحقیق لازمی ہے۔فکریات اقبال اسلامی تہذیب و تمدن ہی کی تشریح و توضیح ہے اس لئے فکرِ اقبال کو سمجھنے کے لئے قرآن و حدیث کے بعد فارسی اور اُردوزبان وادب کا علم لازمی قرار پاتا ہے۔ اس کے بعد فلسفۂ اور مغربی علوم سے بھی انسان کی شناسائی لازمی ہے۔برصغیر میں انیسویں صدی تک نظامِ تعلیم کی بنیاد عربی اور فارسی زبان و ادب ہی پر منحصرتھی۔تعلیمی اداروں کے علاوہ یہاں کی عدالتوں میں بھی فارسی زبان ہی کا چلن تھا۔ اسی لئے علمائے ہندنے اُن دنوں متجددین (Modernists)سے اختلاف کرتے ہو ئے واضح طور پر کہاکہ ہمارے نظام تعلیم کو نہ توڑاجائے اس کے برعکس بقول مرحوم سید مناظر احسن گیلانی ’’غریب مولویوں کو بدنام کیا گیا۔ اُن پرجھوٹے الزام تراشے گئے ، جن میں سب سے بڑا افترائی الزام انگریزی زبان کے سیکھنے کی حرمُت کا فتویٰ تھا‘‘۔
خود علامہ اقبال کا دعویٰ ہے کہ جہاں افرنگی حکماء اور علوم وفنون سے اُن کی عقل پرَوان چڑھی وہیں اسلامی رُوحانی وصوفی شخصیات اور علوم سے اُن کا سینہ روشن ہوا ؎
خرد افزودمرا درسِ حکیمانِ فرنگ
سینہ افروخت مراصحبتِ صاحب نظراں
حکمان ِ فرنگ میں گوئٹے ،نٹشے، برگساںؔ اور آئین سٹاین وغیرہ شامل ہیں جبکہ اسلامی روحانی وصوفی شخصیات میں سب سے پہلے محمد عربی ﷺ کی ذاتِ یا برکت شامل ہیں ۔ پھر صحابۂ کرام ؓ ،ان کے بعدبزدگانِ دین اور صوفیا ئے کرام جیسے رومیؒ ، سنائی ، سعدی،غزالیٰ ،حافظ شیرازی شاہ ھمدان ؒ اور غنی کشمیری وغیرہ شامل ہیں۔
ظاہر سی بات ہے کہ علامہ اقبال ؒ نے عربی ،فارسی اور اُردو زبان وادب میں مہارتِ تامہ حاصل ہونے ہی کی وجہ سے مذکورہ بالا اولوالعزم ہستیوں سے گوناگون فیض حاصل کیا ہے اور اللہ کے فضل کرم سے اُستاد ِ مکرم پروفیسر مرغوب صاحب (فاضل مصنف) کو اسی لئے اقبالیات میں ایک اختصاص (Specialization) حاصل ہے کیونکہ انھیں فکریاتِ اقبال کے منابع یعنی قرآن ، حدیث، سیرت رسولﷺ اور صی بہ کرامؓ کی تعلیمات کے علاوہ فارسی زبان وادب پر عبورومرورُ حاصل ہے جبھی تو انھوں زیرِنظر تبصرہ کتاب میں درج ذیل عناوین پر یوں باقی ابواب ضبط تحریر میں لائے ہیں:۔
۱۔ فارسی نعتیہ ادب ،اقبالؒکو حجازی لے سے نوازنے والے سوزوساز کا ممتاز سرچشمہ۔
۲۔ اقبال اور مولانا رومیؒ۔
۳۔ اقبال اور سعدی ؒ۔
۴۔ اقبال اور امام عزالیؒ۔
۵۔ اقبال اور حافظ شیرازیؒ۔
۶۔ اقبال اور شاہ ہمدانؒ۔
۷۔ اقبال اور غنی کشمیری۔
۸۔ اقبال اور مرزا غالبؔ۔
۹۔ اقبال کے ایک ایزانی عاشق ۔علی شریعتی۔
۱۰۔ اقبال کے ایک کشمیری عاشق کا حاصل مطالعہ۔
کتاب میںشامل مذکورہ بالا پرُ مغز مقالات کا عکسِ جمیل اُبھارنے کے لئے یقینا ایک بھرپُور کتاب کی ضخامت کے برابرتبصرہ ہو سکتا ہے جسکا بہر حال یہ مختصرمضمون متحمل نہیں ہے۔
مختصراًء عرض یوں ہے کہ اُستاد محترم پروفیسر مرغوب بانہالی ؔصاحب کی زیر نظر تصنیف کے علاوہ اُن کی دیگر کتُب وجرائد کو دیکھ کرراقم کو یہ کہنے میں کوئی باک نہیں ہے کہ وہ اس صدی کے ایک زندہ جاوید درویش خدامست یعنی Living Legendaryہیں ،اللہ تعالیٰ نے شاید علم وادب کی آبیاری کرنے کے لئے ہی پیدا کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ سے دُعا ہے کہ وہ اسی طرح تادیر زئدہ جاوید رہ کر علم وادب کی شمع فروزاں کرتے رہیں۔
ایں دُعا از من
واز جُملہ جہاں آمین باد
رابطہ :کارڈنیٹراقبال انسٹی ٹیوٹ آف کلچر اینڈ فلاسفی کشمیر یونیورسٹی