آج کے اس ماڈرن دور میںہمارے یہاں کےمسلم معاشرےکو جہاں بے جا رسم و رواج اور جہیز کے لین دین نےگمراہ بنادیا ہے وہیں معاشرے کےغریب ونادار اور متوسط طبقے کے لوگوں کی زندگی کو اجیرن بنا کر رکھا ہے ۔ معاشرے میں اس وقت جہیز نہ تو سنت سمجھ کر دیا جاتا ہے اور نہ ہی سنت سمجھ کر اسے قبول کیا جاتا ہےبلکہ اس ترقی یافتہ دور میں جہیز کی نوعیت یہ ہے کہ لڑکا یا لڑکےوالے، لڑکی یالڑکی والوں سے مجبوراً یا جبراً قیمتی سامان لے ہی لیتے ہیں۔ حد تو یہ ہے کہ دلہن کی ضرورت کو جہیز کی ضرورت کا تابع سمجھا جاتا ہے۔ستم کا عالم یہ ہے کہ لڑکے والےیہ نہیں دیکھتے کہ اُن کے گھر آنے والی بہو کے والدین اس کے اہل ہیں یا نہیں۔گویا کسی نہ کسی صورت میں جہیز کوحصول مال کا ذریعہ بنایا دیاگیا ہے ۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ لڑکی والوں سے زبردستی اور اُن کو مجبور کرکے جہیز وصول کیا جارہا ہے، ایسا جہیز جو زبردستی کے ساتھ وصول کیا جائے، وہ سنت نہیں لعنت ہے ۔ہاں! اگر لڑکی والا اپنی حیثیت کے مطابق خوشی سے اپنی لڑکی کو دے رہا ہے تو اُسے قبول کیاجائے، اُسی میں ثواب اور طریقہ سنت ہے۔ شادی کے دن اپنی لڑکی کو بوقت رخصتی کچھ ضرورت کے سامان بخوشی و شادمانی دینا نبی کریمؐ کی سنت ہے۔ مگر اس فعل کو فرض یا واجب کے درجے میں رکھنا یا پھر سنت مؤکدہ سمجھ کر کر اِسےسنت رسولؐ کی ادائیگی سمجھنا سراسر خلافِ سنت اور حدودِ شرع سے متضاد ہے۔ ہم ضرور دعویٰ کرتے ہیں کہ جہیز سنت ہے مگر اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ لڑکی والوں کو تنگ کیا جائے ، انہیں دست درازی اور قرض لینے پر مجبور کیا جائے۔ کسی پر ظلم و ستم کرنا الله رب العزت کے نزدیک انتہائی ناپسندیدہ اور مکروہ فعل ہےاور جو لوگ جہیز مانگ کر لیتے ہیں ،اپنی رفیقہ حیات اور ان کے والدین کو تنگ کرتے ہیں وہ کبھی الله کی رحمت کے مستحق نہیں ہوسکتے۔ حالات شاہد ہیں کہ جہیز کے معاملے میں ظلم و استبداد کرنے والے دنیا ہی میں بُری طرح تباہ و برباد اور ذلیل وخوار ہوگئے ہیںاور کئی تو اپنا چہرہ دکھانے کے لائق نہیں رہےہیں۔یہ جہیز وصول کرنے کا ہی نتیجہ ہے کہ آج خواتین اپنے شوہر کی خدمت و اطاعت سے گریزاں اور ان کا احترام و اکرام بجالانے سے لاشعور ہیں۔ جہیز کے معاملے میں قصوروار صرف لڑکے والے ہی نہیں بلکہ خود لڑکی والے بھی شامل ہیں اور یہ وہ دولت و ثروت والے لوگ ہیں جو ناموری اور نمائش کے نشے میں لاکھوں کی اشیاء جہیز میں دیتے ہیں۔ یہ نمائش ایک غریب اور متوسط طبقے کے آدمی کو یہ سوچنے پر مجبور کر دیتی ہے کہ وہ اپنی لڑکی کی شادی میں اگر زیادہ سے زیادہ سامان نہ دے گا تو معاشرے اور برادری میں اس کی ناک کا کیا ہوگااور یہی سوچ لوگوں کو رسمی نمائش کے کارناموں پر اُبھارتی ہے، جس کے نتیجے میں بعض لوگ حیثیت نہ رکھنے کے باوجود جہیز کا قیمتی سامان فراہم کرنے کے لئے مجبور ہوجاتے ہیں۔ پیغمبر اسلام ؐ کا فرمان ہے کہ جس نکاح میں جتنا کم خرچ کیا جائے، وہ اُتنا ہی خیر و برکت کا باعث ہوگا۔ اب وہ حضرات جو اپنی شان وشوکت اور عظمت و برتری کے لئے بےجا فضول اہتمام اور تزک و احتشام کے ساتھ نازیبا حرکات انجام دیتے ہیں ،خود سوچیں اور ٹھنڈے دل و دماغ سے فیصلہ کریں کہ وہ یہ سب نمائش اور فضول خرچی کرکے اجر و ثواب کے مستحق بن رہے ہیں یا عتاب و عقاب کے۔ وہ اپنی لڑکی کے نکاح کو خیر و برکت کا باعث بنا رہے ہیں یا ہلاکت خیزی و بربادی کا۔ حق تو یہ بھی ہے کہ جہیز لینے اور دینے کے اسی طرز فکر نے اَن گنت گھروں کا چین و سکون چھین رکھا ہے۔ بےشمار خواتین کو جہیز کی خاطر لوگوں نےیہ دنیا جہنم زار بنادی ہے،وہ اپنے والدین کی دہلیز پر اپنے شباب کو لئے بہاروں کی منتظر ہیں مگر حالات کی ستم ظریفی نے پژمردگی، مایوسی اور خزاں کو اُن کا مقدر بنا دیا ہے۔جہیز کے اس غلط اور خلافِ سنت ماحول سے آج ہمارے معاشرتی و معاشی نظام میں مختلف خرابیاں داخل ہو گئی ہیں، جس کی وجہ سے معاشرہ مزید پستی کی جانب بڑھتا چلا جارہا ہے۔اس لئے کہ اگر جہیز کے اس غلط لین دین کا سد باب نہ ہوا تو یقیناً یہ چنگاری شعلہ بن کر اُبھرے گی۔ دانشوروں،سیاستدانوں بلکہ ہر فرد کو اس بیماری کے دور کرنے کے لئے غور وفکر کرنے کی ضرورت ہے۔اشد ضرورت ہے اس بات کی کہ معاشرے سے جہیز کی ہلاکت خیز آفرینوں کو جڑ سے اُکھاڑ پھینکا جائے اور جس نکاح میںجہیز کی مانگ ہوجائے،اُس نکاح سے ہی دور رہا جائے۔