قیصر محمود عراقی
دور ِ حاضر میں جہیز مسلم معاشرے کے لئے وہ ناسور بن چکا ہے جس کی گر فت سے خلاصی ممکن نظر نہیں آ تی بلکہ یوں کہا جا ئے کہ معاشرے کا ایک بڑا طبقہ اسے اپنے لئے باعثِ افتخار سمجھتا ہے اور اس لعنت سے خود کو آزاد نہیں کرا نا چاہتا ۔ جہیز جیسی غیر اسلامی اور غیر انسانی رسم و رواج کی وجہ سے غریب کی نیک پارسا بیٹیا ں بے بسی اور بے چارگی کی چادر اوڑھے ، حجاب و حیا کی چار دیواری میں بیٹھے بیٹھے بوڑھی ہو جا تی ہیں ۔ والدین اپنی غربت ، افلاس اور غیر اسلامی رسم و رواج کی وجہ سے ان کی شادی خانہ آبادی کا اہتما م نہیں کر سکتے اور اگر کوئی بغیر جہیز کہ اپنی بیٹی کے ہاتھ پیلے کر بھی دے تو خانہ آبادی نہیں بلکہ خانہ بر بادی بن جا تی ہے ، اپنے بیگانے اور بیگانے دیوانے ہو جا تے ہیں ۔ پہلے تو بیٹی کے سسرا ل والے بہو کو بیٹی کہتے تھکتے نہیںمگر معمولی جہیز دیکھ کر نہ بہو نہ بیٹی با لکل بدل جا تے ہیں اور ایک ہی چہرے پر کئی چہرے سجا لیتے ہیں ۔ ہمارے بڑے بڑے مذہبی رہنما اور افسران بالا غریب پر ور غریبوں کے غم گسار گمراہ ہو گئے ہیں اور مال و زر کے حریص یہ لوگ بڑی ستم ظریفی سے جہیز کی بھیک مانگتے ہیں اور رشتہ منہ مانگے جہیز کی شرط پر طے کر تے ہیں ، بعض اوقات سب کچھ طے ہو جا نے کے بعد جب شادی کے کارڈ چھپ جاتے ہیں تو اپنے مطابات سامنے رکھ دیئے جا تے ہیں ، ایسے لوگوں کے معیار دہرے ہو تے ہیں ، اگر ان کی اپنی بیٹی کی شادی ہو تو وہ توقع کر تے ہیں کہ ان سے کم کم سے جہیز کا مطالبہ کیا جا ئے اور وہ جہیز کو کھلے عام لعن طعن کرتے نظر آتے ہیں مگر بات جب اپنے بیٹے کی ہو تو دوسروں کی بیٹی کو اپنی بیٹی نہیں سمجھتے ۔ اس سے بڑی جہالت اور غفلت کیا ہو گی کہ ہماری معصوم اور بے زبان بیٹیاں اپنے ارمانوں سمیت بوڑھی ہو رہی ہیں مگر کر تا دھرتا لوگ اس معاملے میں اندھے ، بہرے ، گونگے اور پتھر دل بن کر تماشہ دیکھ رہے ہیں ۔ جب سے جہیز کی لعنت معاشرے میں سمائی ہے اور نکاح دنیا کا سب سے مشکل تر ین کام بن گیا ہے تب سے بُرائیاں اور خرابیاں عام ہو گئی ہیں ۔ غربت و افلا س کی زنجیروں میں قید ایک باپ جب بر وقت اپنی جوان بیٹی کو نکاح کے مقدس رشتے میں باندھنے سے عاجز ہو جا تا ہے تو یہ ظالم معاشرہ ہر طرح کی الزام ترا شیاں شرو ع کر دیتا ہے ، کبھی لڑکی کو منحوس قرار دیا جا تا ہے تو کبھی اس پر شناسا کے ساتھ ملنے کا بہتان لگایا جا تا ہے ، نتیجتاً حوا کی پاک باز بیٹی کے قدم ڈگمگاتے ہیں اور وہ گناہوں کے دلدل دھنستی چلی جا تی ہیں۔ بر وقت نکاح کے مقدس رشتے ہیں نا بندھنے کی وجہ سے بچوں اور بچیوں کا گھر سے فرار ہو کر شادی کر نے کا سلسلہ معمول بن رہا ہے ۔ وہ مسلم قوم جس کے شب و روز کا ہر عمل ، زبان کا ہر ایک قول ، زندگی کا ہر معمول سنت ِ رسول ؐ کے سانچے میں ڈھلا ہوا تھا، آج وہ جاہلانہ رسم و رواج کے گر ویدہ بن چکے ہیں ۔ سنت نبوی ؐ کو یکسر فراموش کر چکے ہیں ، جہیز جیسے ناسو ر کو اپنی زندگی کا حصہ بنا چکے ہیں ، پھر بھی عشق و محبت کا دم بھرتے ہیں ، خود کو عاشق رسولؐ کا محسن انسانیت کا گرویدہ سمجھتے ہیں ۔ حالانکہ اتباع رسولؐ کے بغیر نبی کا دم بھر نا عشق و عبدیت کی تو ہین اور منافقت نہیں تو اور کیا ہے ؟ آج ہمارے معاشرے میں جہیز کی لعنت عام ہے جس کی وجہ سے روز کسی نہ کسی بنت حوا کے جلنے ،دریا برد ہونےاور زہر خوری سےہلاک ہونے کی خبریں آتی ہیں ۔ کیا یہی عشق ِرسولؐ ہے کہ ہم نبی کریمؐ جنہوں نے اپنی بیٹیوں کو اتنی اہمیت دی اور ان کے اُمّتی آج اپنے اُمّت کی بیٹیوں کو جہیز کے نام پر زندہ درگور کر رہے ہیں ۔ یہ اسلامی شعار نہیں ہے ، یہ محض غیر اسلامی رسم ہے ۔ اگر ہمارے نوجوان شادی کر تے وقت یہ کہہ دیں کہ ہمیں کچھ نہیں چاہے، لڑکی والوں سے تو اس رسم کو ختم کر نے کی امید کی جا سکتی ہے ۔ ویسے بھی اس مہنگائی کے دور میں جتنی جلد ہو سکے جہیز کی لعنت کو ختم کر دینا چاہئے،جو کہ معاشرے کے لئے ایک بد نما داغ ہے۔
رابطہ۔6291697668