ابھی باضابطہ طور پر پارلیمانی اور ریاستی انتخابات کے وقت کا تعین ہونا باقی ہے البتہ ریاست بالخصوص وادی کشمیر میں سیاسی رنگوں کی برسات گویا شروع ہونے لگی ہے ۔جس سیاست کو شجر ممنوعہ بنانے میں حریت کانفرنس نے ہڑتالوں کے اٹھائیس سال وقف کردئے ،وہ سیاست جیسے باغ و بہار کے انداز لینے لگی ہے ۔آئی اے ایس ٹاپر شاہ فیصل کے بعد اب معروف ٹریڈ یونین لیڈر عبدالقیوم وانی نے بھی قبل از وقت ریٹائر منٹ لیکر سیدھے پی ڈی پی کے گول کے اندر اپنا پائوں داخل کردیا۔اس کے علاوہ بانڈی پورہ کے ایک عربی سکالر اور سمبل ڈگری کالج کے استاد نے بھی نوکری کو دو ہاتھوں سے سلام کرکے سیاست کے گانے بجانے کا اعلان کرہی دیا۔اس سے یہ عندیہ ملتا ہے کہ اور بھی بہت سارے یار ہیں جو سیاست کی زلف ِ ایاز کے گرویدہ ہوکر وقت کا ذرا ساانتظار کررہے ہیں۔تو اس کا مطلب کیا یہ ہوا کہ سیاسی بائیکاٹ اور الیکشن سے دوری کی مزاحمتی سیاست بے کار ثابت ہورہی ہے ؟۔ اس کا جواب ہاں بھی ہے اور نہیں بھی ۔پہلے نہیں کے مسئلہ کو ہی لیتے ہیں۔بائیکاٹ وغیرہ کی اپنی ایک وقتی افادیت ہوتی ہے اور تھی بھی ۔یہ نہ کوئی مستقل حل بذات خود تھا اور نہ کوئی حل فراہم کرسکاہے ۔ اگر آپ وہ سیاسی نظام ،جسے غلط طور پر مین سٹریم سیاست کہتے ہیں ،سے دوسروں کو روک رہے ہیں اور لوگوں کو بھی ووٹ کا بائیکاٹ کرنے کو کہتے ہیں تو اس کا لازمی مطلب یہ ہے کہ اس سیاسی نظام کے مقابلے میں ایک متبادل سیاسی نظام وجود میں لانا چاہئے ۔ اگر آپ ایک طرف کے سارے ٹریفک کو روک رہے ہیں تو دوسری طرف کے ٹریفک کے چلنے کیلئے راستہ ہموا رہونا چاہئے ۔ایسا تو نہیں کہ دونوں طرف کا راستہ جام کردیا۔اٹھائیس سال کے نہایت ہی طویل عرصہ میں متبادل سیاسی نظام وجودمیں نہیں لایا جاسکا ۔ریاست اور انتظامیہ چلتی رہی ۔اس دوران صرف باقی جو کچھ بچا ہے ،وہ محض بعض اوقات واویلا اور دشنام طرازی ہے ۔
شاہ فیصل کے مقا بلے میں عبدالقیوم وانی نے خوامخواہ کے مشوروں سے اپنے آپ کو پریشان کرنے اور سائبر جہادیوں کے ذریعے دشنام طرازی کا موقع نہیں دیا ،وہ سیدھے گول کے اندر گئے ۔وہ پہلے ہی سوچ کر آئے تھے کہ کیا کرنا ہے ۔اور یہ اس کی نیت اور ضمیر کا کام ہے کہ وہ کیوں گئے اور کیا کرنے والے ہیں البتہ اس کی پی ڈی پی میں شمولیت سے محبوبہ مفتی کی شکست خوردہ سیاسی کشتی کے بادبانوںمیں پھر سے ہوائوںکے جھونکے لگنے شروع ہونگے ۔بعض لوگ جو اس پارٹی سے جانے والے تھے ، اُن کے قدم رُک گئے اور مزید لوگوں کی رال ٹپکنے لگی ہے کہ وہ بھی اس میوہ ممنوعہ کی لذت کو چکھیں ۔قیوم وانی نے ٹریڈ یونین لیڈر کی حیثیت سے دہائیوں تک کام کیا ہے اور ا سکی پارٹی میں آمد سے یقینی طور پر پی ڈی پی میں حرارت آئے گی ۔
یہ بات کس قدر خوش آئند ہ ہی کہی جاسکتی ہے کہ حریت اور مزاحمتی حلقوں نے اس طرح کے اقدامات کو محض چند بیانات تک ہی محدود رکھ کر قدرے بالغ نظری کا ثبوت دیا ہے ورنہ ان کے بیانات سے نہ یہ لوگ رُکتے اور نہ ان کا کوئی بھلا ہوتا ،خوامخواہ وہ دشنام بازی کا نیا اور بے کار رائونڈشروع کرتے ۔البتہ اس بات میں کوئی شک نہیں ہے کہ گزشتہ 20سالہ بائیکاٹ سے سماج کے سارے حلقے نہ مطمئن ہیں اور نہ انہیں یہ متبادل فراہم کرسکا ہے ۔ایک دن کے بائیکاٹ کے بعد سارا کام ریاست اور اسمبلی کرتی ہے اور سارے شہری اس ریاست اور اسمبلی کے احکامات پر عمل کرتے ہیں ۔ محض ایک دن کسی کو روکنے سے ریاست کا کاروبار ِ حیات جام نہیں ہوا ہے ۔مزاحمتی قیادت کیلئے ضروری ہے کہ وہ اس ساری صورتحال پر بڑے گہرے غور و فکر سے کام لے اور اس حساب سے اپنی سیاست اور آئندہ کا لائحہ عمل ترتیب دے ورنہ محض ردعمل کے بیانات سے دنیا نہیں بدلتی ہے ۔
اسی طرح سے عسکری حلقوں کا بھی زیادہ ردعمل سامنے نہیں آیا ہے ۔شاہ فیصل کے حوالے سے حزب المجاہدین کے ایک معروف کمانڈرریاض احمد نائیکو کا بیان سوشل میڈیا پر وائرل ہوا ہے جو اگر چہ ناصحانہ ہے ،پھر اس کو کسی حد تک دھمکی آمیز قرار دیا جاسکتا ہے ۔اصولی طور پر عسکریت اور اس طرح کی سیاست کا کوئی میل نہیں ہے ۔اگر عسکری حلقے ا س میں بھی اپنی ناک رگڑ لیں گے تو اس سے شاید ان کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔انہیں گزشتہ اٹھائیس سال کی تاریخ سے اچھا خاصا سبق حاصل کرنا چاہئے کہ بے شمار اور بے معنی سیاسی قتل و غارت گری سے نہ سیاست کا پہیہ رُوکا جاسکا اور نہ ریاست کا۔بلکہ اس سے سیاست کو مزید نت نئے چہرے حاصل ہوتے رہے ۔بعض اوقات ایسا بھی ممکن ہے کہ عسکریت پسندوںکے دھمکی آمیز رجحان کی آڑمیں ڈیپ سٹیٹ خون آشام حرکات انجام دیتی ہے اور عوام اور میڈیا کی نظروں میں اس کے ذمہ دار عسکری حلقے گردانے جاتے ہیں۔اگر تاریخ کا کوئی ٹھوس سبق حاصل کیاجاسکتا ہے تو وہ یہی ہوگا کہ عسکریت پسندوں کونیاسیاسی رجحان خود اپنے لئے کسی نئی امکانی خون ریزی کا موقعہ ہرگز نہیں سمجھ لینا چاہئے کیونکہ کشمیر کی تاریخ اور سیاست نہایت ہی پیچیدہ رہی ہے ۔اس کو آج تک نہرو و عبداللہ کی سیاست سے لیکر فاروق اور مفتی کی سیاست تک نے حل نہیں کیااور نہ عسکریت و جوابی ریاستی دہشت گردی اس کا اختتام کرسکی ہے ۔اس لئے ہوسکتا ہے کہ خدا اس سیاست کے اندر بھی کچھ لوگوں سے کام لے سکے جس سے لوگوں کو سو فی صد نہ سہی ،محض چند فیصد راحت نصیب ہو۔یہ بات تو بالکل طے شدہ ہے کہ جو کوئی بھی سیاست میں داخل ہوتا ہے ،وہ یا تو اپنے حاصل کردہ مفادات کے تحفظ کیلئے ایسا کرتا ہے یا پھر اس سے کمائی کی ہریالی نظر آتی ہے ۔اس لئے اس کیلئے اپنے ہی مفادا ت عزیز تر ہیں۔آزمودہ را آزمودن خطا است کے مصداق اس سیاست کے ساتھ اپنے آپ کو رگڑنامزاحمت کے کسی بھی شعبے کیلئے اچھا نہیںہوگا۔اس سیاست میں بہت کچھ بالکل نہیں ، البتہ محض چند چنگاریاںروشن ضرور ہیں۔مثلاً یہ لوگ پاکستان کے خلاف بیان بازی سے احتراز کرکے اس کے ساتھ مذاکرات کا دم بھرتے ہیں۔اسی طرح سے کشمیر کی سب سے پرانی اور بڑی مقبول پارٹی نیشنل کانفرنس کافی ماڈریٹ سیاست کی ڈگر پر آچکی ہے ۔وہ اب پاکستان پر بمباری کی سیاست سے توبہ کرچکے ہیں۔
جدید سیاسی رجحان کشمیری سماج کو مزید تقسیم کرنے اور است تشدد زدہ بنانے کا ہرگز بھی سبب نہیں بننا چاہئے ۔اس کی ذمہ داری ان لوگوں اور حلقوں پر سب سے زیادہ عائد ہوتی ہے جو مزاحمت کے خیمے سے تعلق رکھتے ہیں۔بصورت دیگر ہمارے سماج کے اندر تشدد اور سماجی عدم استحکام کا نیا دور شروع ہوسکتا ہے ۔سبھی کو اپنی کمزوریوں اور غلطیوں کا احتساب کرکے عوام اور تحریک کے مفاد کیلئے کام کرنا چاہئے ۔اس کیلئے ضروری ہے کہ برداشت اور اعلیٰ شعور کا ثبوت دیا جائے ۔ سب سے زیادہ بہتر یہ ہوگا کہ اس نئے سیاسی رجحان کو تحریک کے کسی نہ کسی مفاد کیلئے استعمال کیاجائے ۔ایک بات تو ثابت شدہ ہے کہ یہ سیاست گزشتہ تین دہائیوں کے تشدد اور بائیکاٹ کے باوجود ختم نہیں کی جاسکی اور نہ ہوئی ۔اس لئے اگر ممکن ہو تو اس کو کسی امکانی حد تک عوام کے مفاد کیلئے استعمال میںلایا جائے ۔انجینئر رشید کی سیاست اس کی ایک عمومی مثال ہے ۔
شاہ فیصل اور عبدالقیوم وانی کے ا س سیاست میں داخلہ سے یہ صاف عندیہ ملتا ہے کہ یہ کاررواں دراز ہوسکتا ہے ۔اس لئے اس کے ساتھ کسی بھی طور پر الجھنے کی بجائے یا تو تماشائے اہل کرم کا رویہ اپنا یا جائے کہ جانے دو ،دیکھتے ہیں کہ یہ لوگ بھی کیا کرتے ہیں۔ورنہ غصہ اور طیش کی ردعمل والی سیاست میں کوئی کارِ جہانبانی نہیں ہوگا۔جہاں بینی کی باریک بینی سے ضرورت ہے اور اس میں سب کا مفاد بھی ہے ۔
ماخوذ: ہفت روزہ ’’ نوائے جہلم‘‘ سری نگر