سرینگر// ریاستی پولیس سربراہ ڈاکٹر ایس پی وید نے کہا کہ جھڑپوں کے مقامات کے نزدیک ہلاکتوں کیلئے شہریوں کو ذمہ دار قرار دیتے ہوئے ایک مرتبہ پھر دہرایا کہ وہ جائے جھڑپوں سے دور رہیںکشمیر تنازعہ کو پیچیدہ قرار دیتے ہوئے ڈاکٹر وید نے کہا ’ میں خواہش کرتا ہوں کہ تنازعہ کشمیر اتنا آسان ہوتا کہ میں اس کا جواب ایک ہی بات میں دیتا۔ڈائریکٹر جنرل نے جموں کشمیر پولیس کے رسمی ٹیوٹر ہینڈل پر پہلی مرتبہ براہ راست لوگوں کے سوالات کا جواب دیتے ہوئے شہریوں پر ہی انکی ہلاکتوں کا الزام عائد کرتے ہوئے کہا’’ ان کاجائے جھڑپوں پر کوئی بھی کام نہیں ہے‘‘۔انہوںنے آن لائن جواب دیتے ہوئے کہا’’وہاں پر کسی بھی جنگجو کی شادی نہیں ہوتی ہے،اور گولی کا اپنا گزر گاہ ہوتا ہے،یہ نشانہ بناتی ہے،اور فورسز،سنگباز اور لڑکوں میں کوئی بھی امتیاز نہیں کرتی‘‘۔انہوں نے کہا’’میں لوگوں سے پھر کہتا ہوں کہ وہ جھڑپوں کی جگہ سے دوری بنائے رکھیں‘‘۔ڈاکٹر وید نے مسلح تصادموں کے دوران کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال کی افواہوں کو یکسر مسترد کرتے ہوئے کہا کہ اپنے لوگوں کے خلاف اس طرح کے ہتھیاروں کے استعمال کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ انہوں نے کہا کہ کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال سے متعلق افواہیں پاکستان کی طرف سے پھیلائی جارہی ہیں۔ ڈائریکٹر جنرل سے مسئلہ کشمیر کو حل کرنے کیلئے تجاوئز بھی مانگی گئی۔ڈاکٹروید نے کہا’’ میں خواہش کرتا ہوں کہ تنازعہ کشمیر اتنا آسان ہوتا کہ میں اس کا جواب ایک ہی بات میں دیتا۔اس کے حل کیلئے کئی دہائیوں سے کئی دماغ کام کر رہے ہیں،یہ آسان مسئلہ نہیں ہے‘‘۔انہوں نے کہا’’میری ذاتی رائے یہ ہے کہ بندوق اس مسئلے کا حل نہیں،ہر ایک فریق،حتیٰ کہ ہمارا ہمسایہ ایک جگہ بیٹھ کر،اور اس پر بات کریں‘‘،کیونکہ تشدد حل نہیں ہے‘‘۔ا ٓصفہ آبروریزی اور قتل کیس اور کچھ لوگوں کی طرف سے اس کیس کو سی بی آئی کو منتقل کرنے سے متعلق پوچھے گئے سوال کا جواب دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اگر سی بی آئی اس کیس کی تحقیقات کریں تو ہمیں کوئی بھی اعتراض نہیں ہے،تاہم’’اگر ریاستی پولیس سنگبازوں اور جنگجوئوں کے ساتھ نپٹ سکتی ہے،تو وہ اس کیس سے کیوں نہیں نپٹ سکتی‘‘۔ انہوں نے مزید کہا کہ2016میں حزب المجاہدین کے سابق کمانڈر برہان وانی کی ہلاکت کے بعد مشکل صورتحال پیدا ہوئی۔انہوں نے کہا’’ برہان کے مابعد صورتحال بہت پیچیدہ تھی،جب مجھے امن و قانون کے خصوصی ڈائریکٹر جنرل آف پولیس کا چارج سونپا گیا۔ریاست میں داعش کی موجودگی پر پوچھے گئے سوال کا جواب دیتے ہوئے ریاستی پولیس سربراہ نے کہا’’ میری صرف یہ آرزو ہے کہ وہ یہاں نہیں آئیے‘‘۔انہوں نے کہا ’ داعش ایک نظریہ ہے، پوری دنیا میں کچھ لوگ اس سے متاثر ہورہے ہیں، کشمیر بھی دنیا کا ہی حصہ ہے۔انہوں نے کہا کشمیر میں بھی کچھ لوگ اس نظریہ سے متاثر ہورہے ہیں،اور یہ ایک شدت پسندانہ نظریہ ہے جو جموں وکشمیر کے لئے بہت خطرناک ہے۔ ڈاکٹر وید نے کہا کہ وہ وادی میں ذاتی طور پر انٹرنیٹ خدمات کی معطلی کے حق میں نہیں ہیں۔ انہوں نے کہا ’میری ہمیشہ کوشش ہوتی ہے کہ انٹرنیٹ خدمات بند نہ ہوں۔ میں انٹرنیٹ بند کرنے کے بالکل خلاف ہوں۔ لیکن کچھ شرارتی عناصر انٹرنیٹ کا غلط استعمال کرتے ہیں۔ وہ نفرتیں پھیلاتے ہیں، منفی پروپیگنڈہ کرتے ہیں۔ نوجوانوں کو اکساتے ہیں، جس کو روکنے کے لئے ہمیں مجبوراً انٹرنیٹ بند کرنا پڑتا ہے‘۔ پولیس سربراہ نے قومی میڈیا کی منفی کشمیر پالیسی سے متعلق ایک سوال کے جواب میں کہا ’میں اتفاق کرتا ہوں،قومی میڈیا ایک مثبت اور تعمیری کردار ادا نہیں کررہا ہے،ہم ان کو مشورہ دیتے آئے ہیں کہ وہ کشمیر کی اس طرح سے عکاسی نہ کریں جس سے کشمیری عوام کے جذبات کو ٹھیس پہنچے‘۔ ڈاکٹر وید نے کہا کہ پہلی بار سنگ بازی کے مرتکب ہوئے نوجوانوں کو ’عام معافی‘ دینے کے زیر التواء کیسوں کا جلد نپٹارا کیا جائے گا۔ انہوں نے کہا’ہم نے عام معافی کی سفارش عدالتوں کو بھیج دی ہے۔ کچھ کیسوں میں والدین کو پولیس سے رجوع ہوکر تحریری ضمانت دینی تھی۔انہوں نے کہا ایسے کیسوں کو بھی تحریری ضمانت کے بعد عدالتوں کو بھیجا جائے گا‘۔ ایس پی وید نے ریاستی پولیس کی طرف سے مبینہ طور پر نوجوانوں کو سنگ بازی کے جھوٹے کیسوں میں پھنسانے اور پھر ان کے والدین سے تاوان طلب کرنے سے متعلق ایک شکایت کے بارے میں کہا’میرے پاس بھی ایسی شکایات آئی ہیں، ان میں سے بیشتر شکایات من گھڑت ثابت ہوتی ہیں،اور اگر کسی کو کوئی شکایت ہے تو وہ مجھ سے یا میرے افسروں سے رجوع کریں،اور ملوث پائے جانے والوں کے خلاف سخت کارروائی کی جائے گی‘‘۔