ڈاکٹر عبدالمجید بھدرواہی
اوشا کی عمرتقریبا تیس سال کے قریب تھی لیکن دیکھنے میں وہ صرف سترہ یا اٹھارہ برس کی ایک حسینہ معلوم ہوتی تھی ۔ بلا کا حسن اور مچلتی ہوئی جوانی۔ جب وہ چلنے لگتی تو دیکھنے والے دیکھتے ہی رہ جاتے ۔ ان کی نگا ہیں اس کے گلابی گالوں پر پھسل کر رہ جاتیں۔ رخسار گویا کشمیر کے عنبریں سیب اور ہونٹ گویا دہکتے انگارے۔ اس کی ریشمی زلفیں جب اس کے چہرے پر بکھرنے لگتیں تو یوں محسوس ہونے لگتا کہ اللہ میاں نے دن رات کی گردش گویا اس کے قدموں میں ڈال کر رکھ دی ہے ۔ ستم ظریفی دیکھئے! کہ اس کا خاوند گھنشام جذام کے موزی مرض کا شکار تھا۔ اس کی شکل بگڑ چکی تھی۔ بہت ہی بھدی اور گھناونی ۔ ناک پچک چکی تھی اور انگلیاں مرض کی وجہ سے آدھی سے زیادہ گھل کر گر چکی تھیں ۔ کسی کسی انگلی پر پٹی بندھی ہوئی تھی اور پاؤں کے زخموں سے پیپ رس رہا تھا۔ چہرے پر بھی زخموں کے گھاؤ Nodules تھے۔ مشکل سے اب لاٹھی کے سہارے چل سکتا تھا۔ اللہ کی مرضی ! جس کو جس طرح چاہتا ہے ، رکھتا ہے۔! یہاں ایک طرف سے حسن اور وفاداری کا مجسمہ اور دوسری طرف سے ایک ایسا بھدا اور بدصورت شخص جس کو دیکھ کر گھن آتی ہے۔ مرض میں مبتلا ہونے سے پہلے گھنشام بھی تو ایک خوش وضع سجیلا اور حسین جوان تھا لیکن بیماری اب انہیں مایوسی اور افلاس کے گھڑے کی طرف دھکیلتی جارہی تھی ۔ دونوں میاں بیوی در در کی ٹھوکریں کھاتے ہوئے زندگی کی ٹوٹی ہوئی نیا کو کھینچتے جارہے تھے۔ مشکل سے جسم و جان کا رشتہ قائم تھا اور ایک آدھ دن کی روٹی مشکل سے نصیب ہو جاتی تھی۔ تن ڈھاپنے کو کپڑا بھی میسر نہ تھا۔ نامساعد حالات سے نبرد آزما ہوتے وقت کبھی کبھی اوشا کو اپنی عزت خطرے میں محسوس ہونے لگتی ۔ دونوں اس بیماری کا علاج کروانے کی خاطر ایک شہر سے دوسرے شہر ڈاکٹروں اور حکیموں کے پاس جاتے لیکن جب وہ کسی ڈاکٹر یا حکیم کے پاس جاتے تو وہ گھنشام کا علاج کرنے کے بجائے اوشا کی طرف ہی زیادہ متوجہ ہو جاتے اور اس کے چھریرے جسم کی بناوٹ، نشیب و فراز اور خدو خال میں کھو جاتے، ایسے موقعوں پر اکثر اوشا کا تن بدن کانپنے لگتا۔ وہ جب بھی ڈاکٹروں کے پاس جاتی اس کو اسی طرح کے رویہ کا سامنا کرنا پڑتا۔ حالات سے تنگ آکر او شانے ایک رات اپنے ہی آپ ایک فیصلہ لیا۔ دوسری صبح کو وہ اٹھ کر اس موذی مرض کے ایک ایسے ماہر ڈاکٹر کے پاس پہنچی جو چند ہی روز سے اس شہر میں آیا ہوا تھا۔ وہ ڈاکٹر بہت ہی حقیقت پسند تھا لیکن کچھ لوگ اسے سنکی سمجھتے تھے۔ کیونکہ حقیقت پسندی اور سچائی ہمیشہ کڑوی ہوتی ہے۔ جو اس دور میں ہر ایسے آدمی کو سنکی بنا دیتی ہے۔ اوشا ڈاکٹر کے پاس جاکر اسے ہاتھ جوڑ کر کہنے لگی! ڈاکٹر صاحب کیا آپ کے پاس ایسی کوئی دوائی…… ہاں بیٹی، ڈاکٹر نے بات کاٹتے ہوئے کہا اور گھنشام پر نظر ڈالی۔ کیوں نہیں؟ نئی نئی دوائیاں ہیں۔ گھبرانے کی کوئی ضرورت……… نہیں نہیں ڈاکٹر صاحب! اوشا نے کہا! میں ان کا،اپنے خاوند کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ، علاج نہیں کروانا چاہتی ہوں۔ میں ایسی دوائیوں کی تلاش میں ہوں جس سے مجھے بھی یہ بیماری لگ جائے ۔ تا کہ دنیا والوں کی بھوکی نظریں مجھ پر نہ اٹھیں ۔ جن میں آپ سبھی لوگ شامل ہیں! اوشا کے یہ الفاظ کانٹے کی طرح ڈاکٹر کے کلیجے میں چبھنے لگے۔ اسے یوں محسوس ہونے لگا، گویا کلینک کی چاروں دیواریں آپس میں مل گئی ہیں اور وہ درمیان میں پھنس کر رہ گیا ہو!
���
جموں، موبائل نمبر؛8825051001