Facebook Twitter Youtube
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے
Kashmir Uzma
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے

Kashmir Uzma

Latest Kashmir News | Kashmir Urdu News | Politics, India, International, Opinion

Font ResizerAa
Search
Follow US
مضامین

جوائنٹ فیملی سسٹم اور ہمارا معاشرہ فکر انگیز

Towseef
Last updated: March 6, 2024 11:32 pm
Towseef
Share
8 Min Read
SHARE

حمیراعلیم

ایشیاء کے چند ممالک میں جوائنٹ فیملی سسٹم کا رواج ہے، والدین اور شادی شدہ بچے ایک ہی گھر میں رہتے ہیں۔جہاں اس سسٹم کے کچھ فوائد ہیں وہیں بہت سے نقصانات بھی ہیں۔اگر خاندان کے بزرگ سمجھ دار ہوں اور بچوں کو جوڑ کر رکھنے کی صلاحیت رکھتے ہوں تو مسائل کم ہوتے ہیں۔جوائنٹ فیملی میں گھر کے کام بانٹ کر کئے جاتے ہیں، یوں خواتین اور مردوں پر کام کا بوجھ کم ہو جاتا ہے، ایسے ہی اخراجات بھی کم ہوتے ہیں ۔بڑوں کی موجودگی میں بچوں کی تعلیم و تربیت میں آسانی ہوتی ہے۔ کام کرنے والے والدین بچوں کو رشتے داروں کے پاس چھوڑ کر بے فکری سے جاب کر سکتے ہیں، ڈے کیئر کا خرچہ بھی بچ جاتا ہے۔لیکن جہاں خاندان کے بزرگ نا سمجھی سے کام لیتے ہیں ،گھر سازشوں کی آماجگاہ بن جاتے ہیں۔بچے کسی قسم کی تربیت کی بجائے غلط اقدار و افعال سیکھنے لگتے ہیں۔اخراجات اور ذمہ داریوں کی مناسب اور منصفانہ تقسیم نہ ہونے کے باعث لڑائی جھگڑے بڑھتے ہیںاور سب سے بڑی بات بچے کسی قریبی رشتے دار کے جسمانی استحصال کا شکار ہو کر کئی قسم کے کمپلیکسز کا شکار ہو جاتے ہیں۔

چونکہ ایک مسلمان کے لیے اسلام نے ہر کام میں رہنمائی کر دی ہے اور ہمارا یقین ہے کہ اسلامی طرز زندگی میں ہی ہماری بقاء و آسانی ہے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے شوہر کے ان رشتہ داروں سے تنبیہ کی ہے جو بیوی کے لئے نا محرم ہیں۔عورت کے لئے اپنے سسرال میں سے کسی کے ساتھ تنہا رہنا جائز نہیں سوائے ان کے جو اس قدر کم عمر ہوں کہ اس کو اس بات کا خوف نہ ہو کہ وہ اس کو فتنہ میں ڈالیں گے یا اس کے لالچ میں آئیں گے۔شوہر کو اپنی بیوی کو ایسی رہائش فراہم کرنا چاہیے، جو اسے نا محرم کی نظروں چھپائے جہاں وہ خود مختار ہو،جو اسے گرم سرد موسم سے بچائے۔شوہر کی استطاعت کے مطابقت یہ کرائے کا یا خریدا گیا ایک کمرے ، کچن باتھ روم کا اپارٹمنٹ بھی ہو سکتا ہے اور گھر بھی الا یہ کہ بیوی نے نکاح نامے میں کسی بڑے گھر کی شرط لکھوائی ہو جس پر مرد راضی ہو چکا ہو۔ مرد کو یہ حق حاصل نہیں کہ وہ اسے اپنے گھر والوں کے ساتھ رہنے یا کھانے پینے پر مجبور کرے۔اگر مطلقہ بیوی کے لیے قیام و طعام واجب ہے تو اس سے بھی زیادہ مناسب ہے کہ شادی شدہ کے لیے رہائش فراہم کی جائے۔اس بنا پر شوہر کے لیے جائز ہے کہ وہ بیوی کو گھر کے کسی ایسے کمرے میں ٹھہرائے جس کی اپنی سہولتیں ہوں، بشرطیکہ بلوغت کو پہنچنے والے کسی غیر محرم کے ساتھ فتنہ یا خلوت نہ ہو۔ شوہر یہ حق نہیں ہے کہ وہ بیوی کو گھر میں ان کے لیے کام کرنے یا ان کے ساتھ کھانے پینے پر مجبور کرے۔ اگر وہ اسے اپنے خاندان سے بالکل الگ رہائش فراہم کرنے کے قابل ہے تو یہ بہتر ہوگا، لیکن اگر اس کے والدین بوڑھے ہیں اور انہیں اس کی ضرورت ہے اور ان کے پاس ان کی خدمت کرنے کے لیے کوئی اور نہیں ہے اور وہ واحد طریقہ ہے کہ وہ خدمت کرسکتا ہے۔ وہ ان کے ساتھ ر ہے،اس صورت میں بیوی صبر سے کام لیں اور اپنے شوہر کو خوش کرنے کی کوشش کریں اور اس کی عزت اور اس کے خاندان کے ساتھ حسن سلوک کرنے میں حتی الامکان مدد کریں۔شوہر کے بارے میں ضروری ہے کہ وہ ان امور میں اس کی اطاعت کرے جو صحیح اور مناسب ہوں۔ سسرال میں سے کسی کے لیے بہو کی اجازت کے بغیر اس کے کے کمرے میں داخل ہونا جائز نہیںسوائے شوہر کے۔نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اس قول کے بارے میں کہ ’’دیور موت ہے‘‘، اس کا مطلب یہ ہے کہ دیور جیٹھ کے بارے میں کسی اور سے زیادہ خوف ہے اور اس سے برائی کی توقع کی جا سکتی ہے اور فتنہ زیادہ ہے۔انہیں یہ حق حاصل نہیں ہے کہ وہ بہو کو ان چیزوں میں سے کوئی بھی کرنے پر مجبور کریں جیسے کہ کھانا پکانا، کس طرح کپڑے پہننا یا دوسری چیزیں جیسے کام کرنا اور پڑھانا وغیرہ، جب تک کہ وہ مشورے اور حسن سلوک سے نہ ہو۔ سسرال کے لیے اس میں دخل اندازی جائز نہیں۔شوہر کی اپنے والدین سے ملاقاتیں ضرورت کی بنیاد پر ہونی چاہئیں۔ اس کے والدین کے ساتھ کچھ ایسا ہو سکتا ہے جس کی وجہ سے ان کے بیٹے کو ان کی عیادت کرنے کی ضرورت ہوتی ہے، جیسے کہ بیماری وغیرہ شوہر کو اس پر توجہ دینا ہوگی۔ان کے لیے بیوی اور شوہر کے نجی معاملات میں دخل اندازی کرنا جائز نہیں ہے، لیکن اگر وہ شوہر کو اس بات پر راضی کریں کہ وہ سیر پر نہ نکلیں اور وہ بیوی کو گھر میں رہنے کو کہے تو اپنے شوہر کی بات مانیں، صبر سے کام لیں اور ثواب حاصل کریں۔

بیوی کو اپنے خاندان سے ملنے کے لیے ان میں سے کسی سے اجازت لینے کی ضرورت نہیں ہے، یہ ان کا حق نہیں ہے۔ اسے صرف اپنے شوہر سے اجازت لینا ہوگی، اور اگر وہ بیوی کو اجازت دے تو سسرال میں سے کسی سے اجازت لینے کی ضرورت نہیں ہے۔

دوسری طرف اگر ہم والدین کی خدمت کے حوالے سے اسلام کے احکام کا جائزہ لیں تو یہ بات واضح ہوتی ہے کہ شریعت نے والدین کی خدمت میں بیٹے اور بیٹی کی کوئی تخصیص نہیں رکھی یا کوئی ایسا حکم موجود ہو کہ شادی شدہ بیٹی کے اوپر سے والدین کی خدمت ساقط ہو جاتی ہے۔جیسا یہ فرض بیٹے پر عائد ہے ویسا ہی بیٹی پر بھی خواہ وہ شادی شدہ ہو ۔یہ اور بات ہے کہ بیٹی اور بیٹے کے حالات ایک جیسے نہیں ہوتے،بیٹے کے پاس اس سعادت کو حاصل کرنے کے مواقع بیٹی کے مقابلے میں کہیں زیادہ ہوتے ہیں کیونکہ بیٹی شادی کے بعد اپنے شوہر کی اور اپنے گھریلو حالات کی پابند ہوتی ہےاور شریعت میں اس کا لحاظ رکھا گیا ہے۔یہ خدمت ہر عورت اپنے اپنے حالات کے مطابق کرے گی ۔اگرتو وہ دوسرے ملک یا شہر میں رہتی ہے تو اس کے لیے روز روز آنا ممکن نہیں ہو گا ،وہ اپنے والدین کو فون کر سکتی ہے،اگر وہ ضرورت مندہیں تو ان کی مالی مدد کر سکتی ہے۔ اور یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ والدین کو عموماً بیٹوں کے مقابلے میں بیٹیوں سے زیادہ جذباتی وابستگی محسوس ہوتی ہے۔تو بیٹیوں کو اپنے گھریلو حالات کو مدِّ نظر رکھتے ہوئےاس حوالے سے اپنی ذمہ داری یاد رکھنا چاہیے۔

Share This Article
Facebook Twitter Whatsapp Whatsapp Copy Link Print
رام بن میں دریائے چناب کی سطح آب بڑھ گئی لوگوں کو خطرے کے نشان سے اوپر بہہ رہے چناب سے دور رہنے کی تلقین
خطہ چناب
بانہال حادثہ میں ٹرک کا ڈرائیور اور کنڈیکٹر لقمہ اجل
خطہ چناب
عمر عبداللہ حکومت نوجوانوں کی بہبود اور بااختیار بنانے کیلئے پُرعزم | جموں خطے کو مساوی نمائندگی ملی نوجوان معاشرے کی ریڑھ کی ہڈی ، سیاسی اور سماجی تبدیلی میں اہم کردار ادا کرنا ہوگا:جاوید ڈار
جموں
ایرانی فوجی کمانڈروں اور ایٹمی سائنس دانوں کی تدفین
بین الاقوامی

Related

کالممضامین

’’چاند کو گواہ‘‘ رکھنے والاشاعر غلام نبی شاہد ایک جائزہ

June 27, 2025
کالممضامین

نور شاہ کی تصنیف ’’کیسا ہے یہ جنون ‘‘ تبصرہ

June 27, 2025
کالممضامین

علامہ اقبالؔ کی سائنسی فکر

June 27, 2025
کالممضامین

بسوہلی ۔ انصاف، ترقی اور وقار کی پُکار تلخ حقائق

June 27, 2025

ملک و جہان کی خبروں سے رہیں اپڈیٹ

نیوز لیڑ ای میل پر پائیں

پالیسی

  • ڈیٹا پالیسی
  • پرائیویسی پالیسی
  • استعمال کرنے کی شرائط
  • ڈیٹا پالیسی
  • پرائیویسی پالیسی
  • استعمال کرنے کی شرائط

سیکشن.

  • اداریہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • تعلیم و ثقافت
  • اداریہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • تعلیم و ثقافت

مزید جانیں

  • ہمارے بارے میں
  • رابطہ
  • فیڈ بیک
  • اشتہارات
  • ہمارے بارے میں
  • رابطہ
  • فیڈ بیک
  • اشتہارات
Facebook

Facebook

Twitter

Twitter

Youtube

YouTube

Instagram

Instagram

روزنامہ کشمیر عظمیٰ کی  ویب سائٹ  خبروں اور حالات حاضرہ کے حوالے سے جموں وکشمیر کی  اردو زبان کی سب سے بڑی نیوز ویب سائٹ ہے۔ .. مزید جانیں

© GK Communications Pvt. Ltd.. All Rights Reserved.
Welcome Back!

Sign in to your account

Username or Email Address
Password

Lost your password?