حمیراعلیم
ایشیاء کے چند ممالک میں جوائنٹ فیملی سسٹم کا رواج ہے، والدین اور شادی شدہ بچے ایک ہی گھر میں رہتے ہیں۔جہاں اس سسٹم کے کچھ فوائد ہیں وہیں بہت سے نقصانات بھی ہیں۔اگر خاندان کے بزرگ سمجھ دار ہوں اور بچوں کو جوڑ کر رکھنے کی صلاحیت رکھتے ہوں تو مسائل کم ہوتے ہیں۔جوائنٹ فیملی میں گھر کے کام بانٹ کر کئے جاتے ہیں، یوں خواتین اور مردوں پر کام کا بوجھ کم ہو جاتا ہے، ایسے ہی اخراجات بھی کم ہوتے ہیں ۔بڑوں کی موجودگی میں بچوں کی تعلیم و تربیت میں آسانی ہوتی ہے۔ کام کرنے والے والدین بچوں کو رشتے داروں کے پاس چھوڑ کر بے فکری سے جاب کر سکتے ہیں، ڈے کیئر کا خرچہ بھی بچ جاتا ہے۔لیکن جہاں خاندان کے بزرگ نا سمجھی سے کام لیتے ہیں ،گھر سازشوں کی آماجگاہ بن جاتے ہیں۔بچے کسی قسم کی تربیت کی بجائے غلط اقدار و افعال سیکھنے لگتے ہیں۔اخراجات اور ذمہ داریوں کی مناسب اور منصفانہ تقسیم نہ ہونے کے باعث لڑائی جھگڑے بڑھتے ہیںاور سب سے بڑی بات بچے کسی قریبی رشتے دار کے جسمانی استحصال کا شکار ہو کر کئی قسم کے کمپلیکسز کا شکار ہو جاتے ہیں۔
چونکہ ایک مسلمان کے لیے اسلام نے ہر کام میں رہنمائی کر دی ہے اور ہمارا یقین ہے کہ اسلامی طرز زندگی میں ہی ہماری بقاء و آسانی ہے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے شوہر کے ان رشتہ داروں سے تنبیہ کی ہے جو بیوی کے لئے نا محرم ہیں۔عورت کے لئے اپنے سسرال میں سے کسی کے ساتھ تنہا رہنا جائز نہیں سوائے ان کے جو اس قدر کم عمر ہوں کہ اس کو اس بات کا خوف نہ ہو کہ وہ اس کو فتنہ میں ڈالیں گے یا اس کے لالچ میں آئیں گے۔شوہر کو اپنی بیوی کو ایسی رہائش فراہم کرنا چاہیے، جو اسے نا محرم کی نظروں چھپائے جہاں وہ خود مختار ہو،جو اسے گرم سرد موسم سے بچائے۔شوہر کی استطاعت کے مطابقت یہ کرائے کا یا خریدا گیا ایک کمرے ، کچن باتھ روم کا اپارٹمنٹ بھی ہو سکتا ہے اور گھر بھی الا یہ کہ بیوی نے نکاح نامے میں کسی بڑے گھر کی شرط لکھوائی ہو جس پر مرد راضی ہو چکا ہو۔ مرد کو یہ حق حاصل نہیں کہ وہ اسے اپنے گھر والوں کے ساتھ رہنے یا کھانے پینے پر مجبور کرے۔اگر مطلقہ بیوی کے لیے قیام و طعام واجب ہے تو اس سے بھی زیادہ مناسب ہے کہ شادی شدہ کے لیے رہائش فراہم کی جائے۔اس بنا پر شوہر کے لیے جائز ہے کہ وہ بیوی کو گھر کے کسی ایسے کمرے میں ٹھہرائے جس کی اپنی سہولتیں ہوں، بشرطیکہ بلوغت کو پہنچنے والے کسی غیر محرم کے ساتھ فتنہ یا خلوت نہ ہو۔ شوہر یہ حق نہیں ہے کہ وہ بیوی کو گھر میں ان کے لیے کام کرنے یا ان کے ساتھ کھانے پینے پر مجبور کرے۔ اگر وہ اسے اپنے خاندان سے بالکل الگ رہائش فراہم کرنے کے قابل ہے تو یہ بہتر ہوگا، لیکن اگر اس کے والدین بوڑھے ہیں اور انہیں اس کی ضرورت ہے اور ان کے پاس ان کی خدمت کرنے کے لیے کوئی اور نہیں ہے اور وہ واحد طریقہ ہے کہ وہ خدمت کرسکتا ہے۔ وہ ان کے ساتھ ر ہے،اس صورت میں بیوی صبر سے کام لیں اور اپنے شوہر کو خوش کرنے کی کوشش کریں اور اس کی عزت اور اس کے خاندان کے ساتھ حسن سلوک کرنے میں حتی الامکان مدد کریں۔شوہر کے بارے میں ضروری ہے کہ وہ ان امور میں اس کی اطاعت کرے جو صحیح اور مناسب ہوں۔ سسرال میں سے کسی کے لیے بہو کی اجازت کے بغیر اس کے کے کمرے میں داخل ہونا جائز نہیںسوائے شوہر کے۔نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اس قول کے بارے میں کہ ’’دیور موت ہے‘‘، اس کا مطلب یہ ہے کہ دیور جیٹھ کے بارے میں کسی اور سے زیادہ خوف ہے اور اس سے برائی کی توقع کی جا سکتی ہے اور فتنہ زیادہ ہے۔انہیں یہ حق حاصل نہیں ہے کہ وہ بہو کو ان چیزوں میں سے کوئی بھی کرنے پر مجبور کریں جیسے کہ کھانا پکانا، کس طرح کپڑے پہننا یا دوسری چیزیں جیسے کام کرنا اور پڑھانا وغیرہ، جب تک کہ وہ مشورے اور حسن سلوک سے نہ ہو۔ سسرال کے لیے اس میں دخل اندازی جائز نہیں۔شوہر کی اپنے والدین سے ملاقاتیں ضرورت کی بنیاد پر ہونی چاہئیں۔ اس کے والدین کے ساتھ کچھ ایسا ہو سکتا ہے جس کی وجہ سے ان کے بیٹے کو ان کی عیادت کرنے کی ضرورت ہوتی ہے، جیسے کہ بیماری وغیرہ شوہر کو اس پر توجہ دینا ہوگی۔ان کے لیے بیوی اور شوہر کے نجی معاملات میں دخل اندازی کرنا جائز نہیں ہے، لیکن اگر وہ شوہر کو اس بات پر راضی کریں کہ وہ سیر پر نہ نکلیں اور وہ بیوی کو گھر میں رہنے کو کہے تو اپنے شوہر کی بات مانیں، صبر سے کام لیں اور ثواب حاصل کریں۔
بیوی کو اپنے خاندان سے ملنے کے لیے ان میں سے کسی سے اجازت لینے کی ضرورت نہیں ہے، یہ ان کا حق نہیں ہے۔ اسے صرف اپنے شوہر سے اجازت لینا ہوگی، اور اگر وہ بیوی کو اجازت دے تو سسرال میں سے کسی سے اجازت لینے کی ضرورت نہیں ہے۔
دوسری طرف اگر ہم والدین کی خدمت کے حوالے سے اسلام کے احکام کا جائزہ لیں تو یہ بات واضح ہوتی ہے کہ شریعت نے والدین کی خدمت میں بیٹے اور بیٹی کی کوئی تخصیص نہیں رکھی یا کوئی ایسا حکم موجود ہو کہ شادی شدہ بیٹی کے اوپر سے والدین کی خدمت ساقط ہو جاتی ہے۔جیسا یہ فرض بیٹے پر عائد ہے ویسا ہی بیٹی پر بھی خواہ وہ شادی شدہ ہو ۔یہ اور بات ہے کہ بیٹی اور بیٹے کے حالات ایک جیسے نہیں ہوتے،بیٹے کے پاس اس سعادت کو حاصل کرنے کے مواقع بیٹی کے مقابلے میں کہیں زیادہ ہوتے ہیں کیونکہ بیٹی شادی کے بعد اپنے شوہر کی اور اپنے گھریلو حالات کی پابند ہوتی ہےاور شریعت میں اس کا لحاظ رکھا گیا ہے۔یہ خدمت ہر عورت اپنے اپنے حالات کے مطابق کرے گی ۔اگرتو وہ دوسرے ملک یا شہر میں رہتی ہے تو اس کے لیے روز روز آنا ممکن نہیں ہو گا ،وہ اپنے والدین کو فون کر سکتی ہے،اگر وہ ضرورت مندہیں تو ان کی مالی مدد کر سکتی ہے۔ اور یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ والدین کو عموماً بیٹوں کے مقابلے میں بیٹیوں سے زیادہ جذباتی وابستگی محسوس ہوتی ہے۔تو بیٹیوں کو اپنے گھریلو حالات کو مدِّ نظر رکھتے ہوئےاس حوالے سے اپنی ذمہ داری یاد رکھنا چاہیے۔