معراج زرگر
“”کیا اسے بلڈ پریشر زیادہ رہتا تھا۔۔؟” ڈاکٹر نے محمد امین سے پوچھا۔
جی ۔۔۔۔۔۔ڈاکٹر صاحب۔۔۔۔ رہتا تھا۔۔۔۔۔۔۔”محمد امین نے پریشانی کے عالم میں ڈاکٹر خالد کو جواب دیا۔
“کب سے رہتا تھا۔۔۔۔۔۔۔؟ اور۔۔۔۔۔ کیا کسی ڈاکٹر کا علاج رہتا تھا۔۔۔۔۔۔؟” ڈاکٹر خالد نے محمد امین کی بیوی فاطمہ کی نبض وغیرہ ملاحظہ کرتے ہوئے پوچھا۔
“بس دو سال پہلے اچانک ساگ زار میں کام کرتے وقت چکر سا آیا اور وہیں گلی میں ایک میڈیکل کی دکان ہے وہاں پتا چلا کہ اس کا بلڈ پریشر زیادہ ہے۔ پھر اسی میڈیکل والے نے دوائی دی۔ کچھ وقت تک وہی دوائی کھائی اور پھر ایک دن پھر سے چکر آیا اور پھر ہم یہیں مارکیٹ میں ڈاکٹر صاحب کے پاس گئے۔ اس نے کچھ ٹیسٹ کرائے اور پھر اسی کا علاج رہا تب سے۔۔۔۔۔مگر۔۔۔۔۔ڈاکٹر صاحب۔۔۔۔۔۔۔۔!” اتنا کہہ کر محمد امین نے اپنی بیوی کی طرف دیکھا اور پھر سر جھکایا۔
” مگر کیا۔۔۔۔۔؟” ڈاکٹر خالد نے سرسری معائینہ کے بعد سیدھے کھڑے ہوکر محمد امین سے پوچھا۔
” جناب۔۔۔۔۔۔یہ پرہیز نہیں کرتی۔۔۔۔۔نمک اور کھانڈ بالکل نہیں چھوڑتی۔۔۔۔۔اور جناب۔۔۔۔۔ہمیشہ غصہ کرتی ہے۔۔۔معمولی باتوں پہ آسمان سر پہ اٹھاتی ہے۔۔۔” محمد امین یہ کہہ رہا تھا مگر اس کی آنکھوں میں ایک درد تھا۔ اپنے ہم سفر کی خراب حالت کی وجہ سے اس کے چہرے سے بے قراری عیاں تھی۔
” اسے بلڈ پریشر بہت زہادہ ہونے کی وجہ سے شاید ہلکا سا اسٹروک ہوا ہے۔ جلدی سے ایک ای۔سی۔جی۔ کراؤ اور۔۔۔۔کیا تمہارے ساتھ کوئی اور ہے۔۔۔۔۔؟” ڈاکٹر خالد نے محمد امین سے پوچھا۔
جی۔۔۔۔ڈاکٹر صاحب۔۔۔۔۔ابھی کراتا ہوں۔۔۔۔۔اور میں اپنے بیٹے کو بھی فون کرتا ہوں۔ میں جلدی میں اکیلا یہاں آیا تھا۔” محمد امین نے جواب دیا اور پریشانی کے عالم میں او۔پی۔ڈی۔ کمرے کی ایک جانب اپنے بیٹے شاہد کو فون کرنے لگا۔ شاہد نے فون نہیں اٹھایا۔ اتنے میں ایک نرسنگ آرڈرلی نے محمد امین کی پریشانی اور اس کی بیوی کی حالت دیکھ کر ایک اسٹریچر جلدی سے لایا اور فاطمہ کو اس پر بٹھاکر ای۔سی۔جی کروائی۔ ڈاکٹر خالد نے ای۔سی۔جی۔ دیکھ کر اور مریضہ کی حالت دیکھ کر محمد امین سے کہا کہ مریضہ کو فوراََ سری نگر صدر اسپتال لے جانا ہوگا۔ ڈاکٹر خالد نے روانگی کا پرچہ بنایا اور مریضہ کو فرسٹ ایڈ دیکر باقی مریضوں کو دیکھنے نکلا۔
محمد امین نے پھر سے اپنے بیٹے شاہد کو فون کیا۔ فون کسی دوسرے لڑکے نے اٹھایا اور کہا کہ شاہد کا آج کرکٹ کا فائنل میچ ہے اور ابھی دس منٹ میں ختم ہورہا ہے۔ محمد امین نے اسے کہا کہ شاہد کی ماں بہت بیمار ہےاور اسے سری نگر روانہ کیا گیا ہے۔ شاہد کے دوست نے فون کاٹ کر سوئچ آف کردیا۔ محمد امین نے فاطمہ کو اسپتال عملے کی مدد سے ایمبولینس میں رکھا اور اگلی سیٹ پر بیٹھ کر فاطمہ کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لیا اور اس کے ڈوبتے ہوئے چہرے کو تکنے لگا۔ فاطمہ کا دائیں طرف کا جسم تھوڑا بے حس ہوچکا تھا اور بائیں طرف کا جسم اچھی خاصی حرکت کر رہا تھا۔ فاطمہ بیچ بیچ میں اپنے دائیں بازو میں درد کی شکایت کر رہی تھی اور محمد امین اسے دلاسا دے رہا تھا۔
صدر اسپتال پہنچنے میں ایمبولینس کو ایک گھنٹہ لگا۔ اور اس ایک گھنٹے کے دواران فاطمہ کے چہرے کا رنگ سفید پڑنے لگا ۔ اس دوران شاہد نے فون کیا اور کہا کہ وہ بھی ایک دوست کے ساتھ سری نگر آرہا ہے۔ محمد امین نے صدر اسپتال میں موجود تیمارداروں کی مدد سے فاطمہ کو ایمرجنسی میں پہنچایا۔ جہاں ڈاکٹروں نے سی۔ٹی۔اسکین اور کچھ اور ٹیسٹ کرائے۔ اس بیچ شاہد اپنے دوست کے ساتھ اسپتال پہنچ گیا۔ فاطمہ کورات گئے ایمرجنسی سے میڈیسن وارڑ میں داخل کرایا گیا۔
فاطمہ کی حالت آہستہ آہستہ بگڑ رہی تھی اور محمد امین کا دل بھی دھیرے دھیرے ڈوب رہا تھا۔ وارڈ کی ایک جانب ایک مریض کے بیڈ کے پاس اُس کا تیماردار ایران اور اسرائیل کے جنگ کی تازہ ترین صورت حال دوسرے اُن تیمارداروں کو سنا رہا ہے، جن کے بیمار قدرے اچھی حالت میں تھے۔ محمد امین اپنی بیوی کے پاس بیٹھا اپنے اندر کی جنگ سے نبرد آزما ہے۔ اتنے میں شاہد اور اس کا دوست نعمان ہاتھوں میں موبائل لے کر بیڈ کے قریب آئے اور محمد امین کو کھانا کھانے کا کہا۔ خود وہ دونوں کھانا کھاکر آئے تھے۔ محمد امین کا دل نہیں چاہتا تھا کہ کھانا کھائے مگر شاہد کے دوست نے زبردستی بیڈ سے اٹھایا اور وارڑ سے باہر لے جاکرکینٹین سے کھانا کھلوایا۔ شاہد ماں کے پاس موبائل دیکھنے میں محو ہوگیا۔
شاہد ایک لا اُبالی لڑکا تھا اور سنجیدگی اس کے در پہ نہیں ٹکتی تھی۔ جوان ہوکر بھی اس کی سمجھ میں کبھی یہ نہیں آیا کہ سنجیدگی سے پڑھنا کس کو کہتے ہیں۔۔۔؟
والدین کی قدر و قیمت کیا ہے۔۔۔؟
گھر کی ذمہ داری کیا ہوتی ہے۔۔۔؟
یہ سب اس کے سیلیبس میں ہی نہیں تھا۔ وہ ایک خود سر اور بہکا ہوا جوان تھا۔ جس کا معمول کرکٹ کھیلنا، جِم جاکر کثرت کرنا، شام کے وقت بس اسٹینڈ میں دوستوں کے ساتھ فاسٹ فوڈ کھانا، چائے پینا اور گھر آکر والدین سے جھگڑا کرنا تھا۔ اپنے کمرے میں جاکر رات رات بھر موبائل پر فلمیں اور دوستوں کے ساتھ چیٹ کرنا اس کے شبانہ مشغلے تھے۔ اپنی ماں کی حالت دیکھ کر بھی اسے ابھی احساس نہیں ہورہا تھا اور وہ پاس والے تیمارداروں کے ساتھ ایران اور اسرائیل کی جنگ پر تبصرے میں شامل ہو گیا۔
جب محمد امین کھانا کھا کر واپس آیا تو فاطمہ کا بازو ایک طرف ڈھلک گیا تھا اور ڈِرپ کی سوئی بھی نکل چکی تھی۔ محمد امین نے غصے کو قابو میں کیا اور اپنے بیٹے کو ترش روی سے مخاطب ہوکر کہا کہ تمہیں اندازہ بھی ہے کہ تمہاری ماں کس حال میں ہے اور تم ادھر جنگی کہانیاں سنا رہے ہو۔ شاہد نے اپنی غلطی کو بھانپ کر بھی باپ کی طرف غضبناک انداز میں دیکھا اور وارڈ سے باہر آیا۔ اس کا دوست اس کے پیچھے پیچھے آیا اور دونوں نے آدھی رات تک اسپتال کی ایک عقبی دیوار کے پاس بیٹھ کر خوب سگریٹ پھونکے۔
لمبے میڈیسن وارڈ میں روشنیاں تقریبا ساری گل کردی گئی تھی۔ کچھ مدہم روشنی کے بلب مریضوں کے چہروں کو اور بھی زردی مائل کر رہے تھے۔ کہیں کسی بیڈ سے سسکنے یا وائے وائے کی آواز خاموشی کوتوڑرہی تھی۔ عجیب غمناک ماحول تھا۔ وارڑ کے باہر کہیں کسی درخت پربیٹھے الـو بول رہے تھےاورماحول کو اور بھی بھیانک بنا رہے تھے۔ کچھ تیماردار اب بھی ایران اسرائیل جنگ کی خبریں موبائل پر دیکھ رہے تھے۔
محمد امین فاطمہ کے پاس بیٹھا اپنے پروردگار سے دعاوں میں مصروف تھا کہ فاطمہ نے ہلکی سی کروٹ لی اور ٹکٹکی باندھے اپنے شوہر کو دیکھنے لگی۔ اس کی آنکھوں میں خواب مر رہے تھے اور جینے کی رمق جیسے ماند پڑ رہی تھی۔ محمد امین اس کا ہاتھ تھامے ہوئے تھا۔ فاطمہ نے ادھر اُدھر نظر دوڑائی اور ایک گہری اور تھکی ہوئی آواز میں کچھ بڑبڑائی۔ اس کے ہونٹ سوکھ چکے تھے۔ محمد امین نے گلیسرین بھری روئی سے اس کے ہونٹ تر کئے اور فاطمہ نے زیر لب پھر کچھ بڑبڑایا۔ محمد امین نے اندازہ لگایا کہ وہ اپنے بیٹے کا پوچھ رہی ہے۔
محمد امین نے تسلی دی کہ اور کان کے قریب جاکر کہا کہ وہ ابھی تک یہیں تھا اور اب اپنے دوست کے ساتھ باہر گیا ہے۔ فاطمہ نے غیر ارادی طور بیٹے کی محبت میں وارڑ کے دروازے کی طرف دیکھا، جہاں سے نرسنگ اسٹاف کا ایک جوان ہاتھ میں کچھ ادویات لے کر اندر آرہا تھا۔ فاطمہ کو ایسے لگا جیسے اس کا شاہد آرہا ہے۔ اس کے ہونٹوں پر ایک ہلکی مسکراہٹ نمودارا ہوئی۔ جب وہ جوان ملازم فاطمہ کے قریب سے گذر کر ساتھ والے بیڈ تک آیا، فاطمہ کے مرجھائے ہوئے ہونٹوں سے ہلکی مسکراہٹ غائب ہوئی اور وہ چھت کو تکنے لگی جہاں ایک مکڑی نائٹ لیمپ کے پاس ایک پروانے کو نگلنے میں اپنے زور لگارہی تھی۔ فاطمہ کو ایسے لگا جیسے اُسے بھی ملک الموت نگلنے کی کوشش میں ہے۔ اس نے نم اور وحشتناک ڈوبتی آنکھوں سے اپنے شوہر کی طرف دیکھا جس کی آنکھوں سے آنسو ٹِپ ٹِپ گر رہے تھے۔ اُس نے زور سے فاطمہ کا ہاتھ اپنے سینے کے ساتھ چمٹایا اور اُسے چومنے لگا۔ رات کا پاگل پن اور وحشت دو دلوں کو اپنے مہیب سایوں میں لے رہا تھا۔ چھت پر بڑی مکڑی نے چھوٹے سے پروانے کو نگل لیا تھا۔
شہر کی مسجدوں سے ہونے والی صُبح کی اذان نےصدر اسپتال کے وارڈوں میں بھی جھانکا۔ کئی تیماردار وقفے وقفے سے نماز کے لئے باہر نکلے۔ کچھ لوگ سو چکے تھے۔ کچھ وہیں نیم غنودگی میں ادھر اُدھر گرے پڑے تھے۔ محمد امین مگر جاگ رہا تھا۔ اُس کی آنکھیں بیداری سے سرخ ہو چکی تھی۔ وہ فاطمہ کے خراٹے سن رہا تھا، جو معمول کے خراٹوں سے مختلف تھے۔ محمد امین کو جیسے حضرت ہاتف نے دل میں القاء کیا تھا کہ اس کی شریک حیات اور ہمراز فاطمہ اسے داغ مفارفقت دینے والی ہے۔ اس نے ایک لمبی آہ بھری اور زمین و آسمان کے خدا سے رجوع کیا۔ اس کے سینے میں جیسے دھونک بج رہی تھی۔ اور سرخ آنکھوں سے خون جاری تھا۔ شاہد اور اس کا دوست کینٹین کی راہداری میں ایک جگہ بے سدھ پڑے ہوئے تھے۔
نو بجے کے قریب راونڈ سے پہلے فاطمہ کی حالت بالکل خراب ہونے لگی۔ ایک ریذیڈنٹ ڈاکٹر نے فاطمہ کا بغور جائزہ لیا اور محمد امین کی طرف مایوسی سے دیکھا۔ محمد امین نے بے بسی سے ڈاکٹر کی طرف دیکھا۔ ڈاکٹر نے اُس کا شانہ تھپتھپایا اور کہا کہ ابھی دس بجے سینئر ڈاکٹروں کا رائونڈ ہوگا اور اللہ سب ٹھیک ہی کرے گا۔ ڈاکٹر نے اُس سے یہ بھی پوچھا کہ تمہارے ساتھ کوئی اور بھی ہے کیا۔ اُس نے سر کے ہلکے اثبات کے ساتھ نظریں فاطمہ کے چہرے کی طرف مرکوز کیں، جو تقریباََ اپنی رونق کھو چکا تھا۔ محمد امین بیڈ کے پاس پھر سے بیٹھ گیا۔
اتنے میں شاہد اور نعمان بھی بیڈ کے پاس آکر کھڑے ہوگئے۔ شاہد نے ماں کی طرف دیکھا اور اسے پہلی بار لگا کہ اس کی ماں ٹھیک نہیں ہے۔ وہ بُت بنا کچھ سوچ ہی رہا تھا کہ وارڑ کے اسٹاف نے سب لوگوں کو باہر نکالنا شروع کیا اور صرف ایک ایک تیماردار کو بیمار کے پاس رہنے کی تاکید کی۔ شاہد نے اپنے باپ کی طرف دیکھا مگر وہ ایک ہارے ہوئے انسان کی طرح اپنی بیوی کے نیم مردہ چہرے پر نظریں جمائے ہوئے مغموم تھا۔
رائونڈ شروع ہوا اور ڈاکٹروں کی ایک ٹولی سیدھے پہلے فاطمہ کے بیڈ کے پاس گئی اور ریزیڈینٹ ڈاکٹر سے سوال کرنے لگے۔ ابھی وہ کچھ سوالوں کے جواب دے ہی رہا تھا کہ اچانک سے فاطمہ نے ایک گہری ہچکی لی اور اس کا سر ایک جانب ڈھلک گیا۔ ڈاکٹروں نے جب جسمانی علامات کو پوری طرح چیک کیا تو فاطمہ مر چکی تھی۔ ڈاکٹروں نے محمد امین کو باہر لے جانے کا کہا اور فاطمہ کے کاغذات مکمل کرنے لگے۔
محمد امین نے دونوں ہاتھوں سے اپنا سر پکڑا اور ایک دوسرا تیماردار اُسے وارڑ سے باہرلے آیا ۔ وارڈ کے باہر اس کا بیٹا تیمارداروں کے ایک مجمع کو بتا رہا تھا کہ اسرائیل اور ایران کے درمیان جنگ بندی ہوگئی ہے اور اپنے فون پر انہیں کسی معتبرچینل کی خبر دکھا رہا تھا۔ محمد امین آنسوں بھرے چہرے کے ساتھ اپنے بیٹے کو یہ سب بتاتے ہوئے ذرا دور کسی اجنبی کی طرح اُسے دیکھ رہا تھا۔ اُس نے تیمار دار کے سہارے اپنے بیٹے کے قریب جاکر اُس کی طرف ایک عجیب نگاہ کی اور کہا،
“شاہد۔۔۔۔ تمہاری ماں اور تمہارا باپ زندگی کی جنگ ہار چکی ہیں۔ تمہاری ماں مرگئی ہے ۔۔۔۔جائو۔۔۔۔ اب تمہاری مرضی ہے۔۔۔۔۔ جو کرنا ہے وہ کرو”
شاہد ایک دم سناٹے میں آگیا۔ اُس کا موبائل فون اس کے ہاتھ سے چھوٹا اور وہ خود دھڑام سے اسپتال کی راہداری پہ گر کر بے ہوش ہو گیا۔ اُس کی زندگی کی اپنی جنگ اب شروع ہوچکی تھی۔
���
ترال پلوامہ،کشمیر
موبائل نمبر؛9906830807