اُتاولے پن میں پاکستان کے بالا کوٹ پر فضائی حملہ کرکے وزیراعظم نریندر مودی نے یک لخت اُس سب پر پانی پھیر دیا ہے جو گزشتہ حکومتیں، کئی دہائیوں سے تقریباً معجزاتی ڈھنگ سے حاصل کرنے میں کامیاب رہی تھیں۔ 1947 سے ہی حکومت بہند کشمیر تنازعے پر بین الاقوامی مداخلت کے ہر مشورے پر یہ کہہ کر پلہ جھاڑتی رہی تھی کہ یہ ہمارا ’’اندرونی معاملہ ‘‘ہے۔ پاکستان کو جوابی حملے کے لیے مشتعل کر کےاور اس طرح نیوکلیر طاقت رکھنے والے ہندوستان اور پاکستان کو تاریخ میں دو ایسے ممالک بنا کر جنہوں نے ایک دوسرے پر بمباری کی ہے، مودی نے کشمیر تنازعہ کو بین الاقوامی روپ دے دیا ہے۔ اس نے ساری دنیا کے سامنے یہ ظاہر کیا ہے کہ کشمیر روئے زمین کا شاید سب سے خطرناک مقام، نیوکلیر جنگ کا فلیش پوائنٹ ہے۔ اس سے ہر شخص، ملک اور تنظیم کو، جو نیوکلیر جنگ کے امکانات سے فطری طور مضطرب ہوتا ہے، اس مداخلت کا حق مل گیا ہے کہ وہ اسے روکنے کی ہر ممکن کوشش کرے14 فروری 2019 کو پلوامہ میں 2500 ؍نفوس پر مشتمل نیم فوجی دستوں کے ایک قافلے پر عادل احمد ڈار نامی بیس سالہ کشمیری نوجوان نے خود کش حملہ کیا۔اس بارے میں یہ اعلان کیا گیا کہ وہ پاکستان نشین عسکری تنظیم جیش محمد سے وابستہ تھا۔ یہ حملہ، جس میں 40 سے زیادہ لوگ ہلاک ہوئے، کشمیر کی کھلی ٹریجڈی میں ایک اور خوف ناک باب ہے۔ 1990 سے اب تک اس تصادم میں ستر ہزار سے زیادہ لوگ مارے جا چکے ہیں، ہزاروں زیر حراست لاپتہ ہو چکے ہیں، لاکھوں تشدد کا شکار بنائے گئے ہیں، اور سینکڑوں نوجوان پیلیٹ گنوں سے اپاہج اور اندھے بنائے جا چکے ہیں۔ گزشتہ بارہ مہینوں میں ہلاکتوں کی تعداد 2009 کے بعد سب سے زیادہ رہی ہے۔ ایسوسی ایٹیڈ پریس رپورٹ ہے کہ تقریباً 570 لوگوں نے اپنی جانیں گنوائی ہیں، جن میں سے 260 ملی ٹنٹ، 160 عام شہری، اور 150 ہندوستانی مسلح فوجی ہیں جو اپنی ڈیوٹی نبھاتے ہوئے مارے گئے۔اس تنازعے کو جن جن عینکوں سے دیکھا جاتا ہے، ان کی بنیاد پر باغی لڑاکوں کو ’’دہشت گرد، شدت پسند، یا مجاہد‘‘کہا جاتا ہے۔ بیشتر کشمیری خود کو ’’مجاہد‘‘ کہتے ہیںاور جب وہ مارے جاتے ہیں تو لوگ ہزاروں کی تعداد میں ان کا سوگ منانے اور ان کی دائمی رخصت کے لیے جنازوں میں شریک ہوتے ہیں ،—چاہے وہ ان کے طریقۂ کار سے متفق ہوں یا نہ ہوں۔ در حقیقت پچھلے ایک سال میں مارے گئے بیشتر عام شہری وہ تھے جو فوج کے ذریعے محصور شدت پسندوں کو بچ نکلنے کا موقع دینے کے لیے خود ڈھال بن کر کھڑے ہو جاتے تھے۔خون میں ڈوبی اس طویل داستان میں، پلوامہ کا بم دھماکہ سب سے خون ریز اور سب سے سنگین حملہ ہے۔ کشمیر وادی میں ہزاروں نہیں تو کم سے کم سینکڑوں عادل احمد ڈار جیسے نوجوان موجود ہیں جو عرصۂ جنگ میں پیدا ہوئےاور انہوں نے اتنی دہشت دیکھی کہ وہ خوف سے بے خوف ہو گئے ہیں اور آزادی کے لیے اپنی جانیں قربان کرنے کو تیار بیٹھے ہیں۔ کسی بھی دن کوئی اور حملہ ہو سکتا ہے، جو پلوامہ سے زیادہ خوفناک یا کم خوف ناک ہو سکتا ہے۔
کیا حکومت ِہند چاہتی ہے کہ وہ اس ملک کا اور سارے برصغیر کا مستقبل ان نوجوانوں کے اعمال کی تحویل میں جانے دے؟ ایک مہمل اور ڈرامائی انداز میں مودی نے جو رد عمل ظاہر کیا ہے ،وہ بالکل ایسا ہی ہے۔ اس نے فی الحقیقت اُن کے ہاتھ میں یہ طاقت تھما دی ہے کہ وہ ہمارے مستقبل کو کنٹرول کریں۔ پلوامہ کی بمباری کے ذمہ دار نوجوان کو اس سے زیادہ اور کیا چاہیے تھا! وہ بیش تر ہندوستانی جو برٹش راج سے آزادی پانے کی اپنی جنگ پر بہت نازاں رہتے ہیںاور جنگِ آزادی کے رہنماؤں کی واقعی پرستش کرتے ہیں، عجیب ڈھنگ سے ان کشمیریوں کے تئیں کدورت رکھتے ہیں جو اسی طرح کی ایک جدوجہد میں لگے ہیں۔ کشمیر میں جاری مسلح جدوجہد، جس کو وہ لوگ ’’ہندوستان کی حکمرانی‘‘ کے خلاف جدوجہد مانتے ہیں، تقریباً تیس برس پرانی ہو چکی ہے۔ یہ حقیقت کہ پاکستان نے اس سنگھرش کو ہتھیار، افراد اور حکمتِ عملی سے حمایت دی ہے (کسی زمانے میں سرکاری طور پر اور اب بیشتر غیر سرکاری کارکنوں کے ذریعے ) کوئی راز کی بات نہیں ہے۔یہ بھی کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں کہ اس میدانِ جنگ یعنی کشمیر میں کوئی شدت پسند سرگرم نہیں رہ سکتا اگر اسے مقامی لوگوں کی براہِ راست حمایت حاصل نہ ہو۔ کون ایسا صاحبِ دماغ انسان ہوگا جو یہ تصور کرے کہ بُری طرح اُلجھی، یہ جہنمی خوف ناک جنگ عجلت میں کی گئی ایک ڈرامائی یک طرفہ ’’سرجیکل اسٹرائک‘‘ سے حل ہو سکتی ہے یا اس میں تھوڑی تخفیف کی جا سکتی ہے، جو درحقیقت ایسی بھی سرجیکل نہیں نکلی؟ 2016 میں اُ وڑی میں ہندوستانی افواج کے کیمپ پر حملہ کے بعد اسی قسم کی ایک ’’اسٹرائک‘‘ کا کیا نتیجہ نکلا تھا، سوائے یہ کہ اس سے تحریک پا کر ایک بالی وُڈ ایکشن فلم بن گئی؟لگتا ہے بالا کوٹ اسٹرائیک کو اسی فلم سے تحریک ملی ہے اور اب میڈیا میں یہ خبریں آ رہی ہیں کہ بالی وُڈ فلم پروڈیوسروں نے اپنی اگلی فلم کے لیے بالا کوٹ نام کا کاپی رائٹ حاصل کرنے کے لیے قطار لگانی شروع کر دی ہے۔ مجموعی طور پر اتنا ہی کہا جا سکتا ہے کہ اس مہمل مہم میں سے ’’دفاع سے زیادہ چناوی سڑاند آ رہی ہے۔برصغیر میں یہ روز افزوں جدوجہد اتنی ہی مہلک ہے جتنی کہ نظر آ رہی ہے لیکن کیا یہ اتنی ہی سیدھی بھی ہے؟
تقریباً پانچ لاکھ ہندوستانی فوجیں کشمیر میں تعینات ہیں جس سے وہ دنیا میں سب سے بڑی فوجی طاقت کی موجودگی والا علاقہ بن گیا ہے۔ انٹیلی جنس بیورو، آراے ڈبلیو، نیشنل انٹیلی جینس ایجنسی، وردی پوش فوجیں — آرمی، بارڈر سیکورٹی فورس، سینٹرل ریزرو پولیس فورس (اور ظاہر ہے جموں و کشمیر پولیس بھی)— سب الگ الگ جاسوسیاں کراتے ہیں۔ لوگ مخبروں، ڈبل ایجنٹوں، ٹرپل ایجنٹوں کی دہشت کے سائے میں جیتے ہیں، جو حقیقتاً سکول کے زمانے کے پرانے دوستوں سے لے کر اہل ِخانہ میں سے کوئی بھی ہو سکتے ہیں۔ان حالات میں اتنا بڑا حملہ جیسا کہ پلوامہ میں ہوا، خوف ناک ہونے سے کہیں زیادہ سنگین ہے، جیسا کہ ٹویٹر پر کسی نے ایک پُرمغر بات لکھی کہ یہ کیونکر ممکن ہوا کہ بھاجپا 3 کلو بیف کا پتہ لگا سکتی ہے لیکن 350 کلو آر ڈی ایکس کا نہیں؟ (وہ شمالی ہند میں گئو کشی کے الزام میں مسلمانوں کو پکڑنے اور پیٹ پیٹ کر مار ڈالنے کے روز افزوں مقبولِ عام ہندو رواج کی طرف اشارہ کر رہی تھی)۔
کسے خبر ہے؟حملے کے بعدجموں و کشمیر کے گورنر نے اسے’’ انٹیلی جینس کی ناکامی ‘‘کا نتیجہ بتایا تھا۔ چند حوصلہ مند میڈیا پورٹلوں نے یہ حقیقت عیاں کی کہ جموں و کشمیر پولیس نے ممکنہ حملے کے بارے میں درحقیقت ارجنٹ الرٹ جاری کیا تھا۔ اب میڈیا میں کوئی اس کے لیے زیادہ فکرمند نظر نہیں آتا کہ آخر اس چیتاونی کو نظرانداز کیوں کر دیا گیا اور کمان میں کہاں رخنہ پڑا۔حملہ کتنا بھی افسوس ناک کیوں نہ ہو، نریندر مودی کے لیے یہ ایک شاندار سیاسی موقع تھا ایسا کچھ کرنے کا جس میں وہ ماہر ہے —شاندار نمائش۔ ہم میں سے بہت سے لوگوں نے مہینوں پہلے پیش گوئی کرکے آگاہ کر دیا تھا کہ بھاجپا، جس کے پیروں سے سیاسی زمین کھسک رہی ہے، انتخابات سے ٹھیک پہلے آسمان سے آگ کا گولہ اُتار لائے گی۔ ہم نے دہشت کے ساتھ دیکھا کہ ہماری پیش گوئی کتنی سچ ثابت ہوئی ہے اور ہم نے دیکھا کہ مقتدر پارٹی کتنی مہارت سے پلوامہ ٹریجڈی کو اپنے معمولی، سیاسی مفادات کے لیے استعمال کر رہی ہے۔
پلوامہ حملے کے فوراً بعد ہی غضب ناک ہجوم نے ان کشمیریوں پر حملے شروع کر دیے جو ہندوستان کے مرکزی علاقوں میں کام کرتے یا تعلیمی اداروں میں پڑھتے ہیں ۔ مودی نے اس پر بالکل چپی سادھ لی اور صرف تب اپنا نیم دلانہ رد عمل ظاہر کیا جب سپریم کورٹ نے کہا کہ انڈیا میں کشمیریوں کی حفاظت کرنا حکومت کا فرض ہے لیکن فضائی حملے کے بعد اس نے فی الفور ٹی وی پر نمودار ہوکر کریڈٹ لے لیا، دنیا کو ایسا تاثر دیا گویا اس نے خود ہی طیارہ اڑاکر بم برسائے ہوں۔ آناً فاناً ہندوستان کے کوئی چار سو 24 / 7 نیوز چینل، جن میں سے بیشتر پوری بے شرمی سے متعصب ہیں، اپنے نجی ’’اِن پٹ ‘‘کے ساتھ اس پُرفریب مظاہرے کو نشر کرنے والے بھونپو بن گئے۔پرانے ویڈیو اور جھوٹے حقائق پیش کرتے ہوئے اُن کے چیختے چلاتے اینکر، گویا مورچے کے کمانڈو وہی ہوں، ایک جنونی، ظفرمند راشٹرواد کا تانڈو رچنے لگے، جس میں انہوں نے دعویٰ کیا فضائی حملے میں جیشِ محمد کی ’’ٹیرر فیکٹری ‘‘کو نیست و نابود کر دیا گیا اور تین سو سے زیادہ ’’آتنک وادی‘‘ مار ڈالے گئے۔ اگلی صبح کے اخبار سنجیدہ ترین قومی اخبار بھی، ایسی ہی مضحکہ خیز، شرم ناک سرخیوں سے بھرے پڑے تھے۔ ’’انڈین ایکسپریس ‘‘نے لکھا: ’’دہشت گردوں پر ہندوستان کا حملہ، پاکستان کے اندرگھس کر‘‘۔اسی دوران رایٹرز (Reuters) نے اپنا ایک صحافی پاکستان میں اس جگہ بھیجا تھا جہاں بمباری ہوئی تھی، جس نے خبر دی کہ صرف درختوں اور چٹانوں کو نقصان پہنچا ہے اور ایک دیہاتی زخمی ہوا ہے۔ ایسوسی ایٹیڈ پریس نے بھی اسی قسم کی خبر دی۔ ’’نیویارک ٹائمز‘‘ نے لکھا’’ نئی دہلی میں تجزیہ کاروں اور سفارت کاروں نے بتایا، ہندوستانی فضائی حملے اپنے نشانے سے چوک گئے، کیونکہ سرحد کے قریب کام کرنے والے دہشت گرد گروہ پچھلے دنوں وہاں سے اس وقت ہٹ گئے ہوں گے جب ہندوستان کے وزیرِ اعظم نریندر مودی نے کشمیر پر حملے کا جواب دینے کا عزم ظاہر کیا تھا۔ ‘‘ہندوستان کی مین اسٹریم میڈیا نے رایٹرز کی رپورٹ کو کوئی جگہ نہیں دی۔ اس لئے ہندوستان کی ووٹ ڈالنے والی زیادہ تر لوگوںنے جو’’ نیویارک ٹائمز‘‘ نہیں پڑھتے، اس کے وزیر اعظم نے —اپنے مشہور 56 انچ کے سینے کے ساتھ— دہشت گردی کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے نابود کر ڈالا ہے۔وقتی طور پر ہی سہی لیکن ایسا محسوس ہوا کہ مودی نے اپنے سیاسی مخالفوں کو پوری طرح چت کر دیا ہے، جو ہندوستان کے بہادر پائلٹوں کی تعریف میں چہک رہے تھے، لیکن اس درمیان مودی اور اس کے آدمی انتخابی مہم پر نکل گئے۔ شک وشبہ اور بے اطمینانی ظاہر کرنے والوں کو ہندو ٹراؤل دہشت زدہ کر رہے تھے، ان پرغدار ہونے کے الزام لگائے جا رہے تھے، یا پھر وہ ایک آواز پر جمع ہوکر مارنے والی اس بھیڑ کے خوف میں مبتلا تھے، جو شمالی ہند کے ہر گلی کوچے میں منڈلاتی پھرتی ہےلیکن چیزیں ایک ہی دن میں بدل بھی سکتی ہیں۔ جھوٹی جیت کی چمک اس وقت ماند پڑ گئی، جب پاکستان نے جوابی حملہ کر دیا، ایک جنگی طیارہ مار گرایا اور ہندوستانی فضائیہ کے ایک پائلٹ، ونگ کمانڈر ابھی نندن ورتھامان کو حراست میں لے لیا۔ ایک بار پھر بھاجپا کے ڈانوا ڈول انتخابی امکانات واضح طور پر ذرا کم شاندار نظر آنے لگے۔
انتخابی سیاست کے کاروبار اور اس سوال کو درکنار کرتے ہوئے آئندہ کے انتخابات کون جیتے گا، کہنا چاہیے ، مودی کے کارنامے ناقابل ِمعافی ہیں۔ اس نے ایک بلین سے زیادہ لوگوں کی زندگیاں خطرے میں ڈال دی ہیں اور کشمیر کی جنگ کو عام ہندوستانیوں کی دہلیز پر لا کھڑا کیا ہے۔ٹیلیویژنوں پر پاگل پن، جو IV ڈرپ کی طرح، صبح شام اور رات دن رگوں میں اُتارا جا رہا ہے، لوگوں سے کہہ رہا ہے وہ اپنے دُکھ درد، اپنی بے روزگاری، اپنی بھوک، اپنے اُجڑتے ہوئے چھوٹے موٹے کاروبار، اپنے ہی گھروں سے بے دخل کئے جانے کے منڈلاتے ہوئے خطرے، ججوں کی پُراسرار موت اور اُس موضوع پر انکوائری کے مطالبات کو بھول جائیں جو ہندوستان کی تاریخ میں سب سے بڑی اور سب سے کورپٹ ڈیل جیسا لگ رہا ہے، اور اپنی اس تشویش کو بھی چھوڑ دیں کہ اگر وہ مسلم، دلت یا عیسائی ہیں تو اُن پر حملہ ہو سکتا ہے، یا وہ مارے جا سکتے ہیں — اور اس کے بجائے ’’راشٹریہ گورو‘‘ کے نام پر انہی لوگوں کو ووٹ دیں جو ان سب تباہیوں اور بربادیوں کے ذمہ دار ہیں۔اس سرکار نے ہندستان کی رُوح کو گہرائی تک زخمی کیا ہے۔ زخم بھرنے میں برسوں لگیں گے۔ یہ عمل کم ازکم شروع تو ہو، اس کے لیے ضروری ہے ہم اپنے ووٹ سے ان خطرناک، نمائش پسند ریاکاروں کو اقتدار سے نکال باہر کریں۔ہم ایسے وزیر اعظم کا اقتدار میں آنا برداشت نہیں کرسکیں گے، جس نے اپنی ترنگ میں سو کروڑ کی آبادی والے ملک کی معیشت کی کمر توڑ دی ہو، کسی سے مشورہ کیے بغیر راتوں رات یہ اعلان کرکے کہ ملک کی 80 فی صد سے زیادہ کرنسی اب قانونی نہیں رہی۔ تاریخ میں اور کس نے ایسا کام کیا ہے؟ ہم نیوکلیر طاقت والے ملک میں ایک ایسا وزیراعظم برداشت نہیں کر سکتے جو ایسے وقت میں جب کہ ملک پر ایک شدید مصیبت ٹوٹ پڑی ہے، نیشنل پارک میں اپنے اوپر بننے والی فلم کی شوٹنگ میں مصروف رہےاور پھر اوچھے پن سے اعلان کرے کہ اس نے یہ کام سیناپر چھوڑ دیا ہے کہ آگے کیا کیا جائے۔ تاریخ میں جمہوری طریقے سے منتخبہ کون سے لیڈر نے کبھی ایسا کیا ہے؟
مودی کو جانا ہوگا۔ ایک جھگڑتی، منقسم اورڈانواڈول گٹھ بندھن سرکار جو اُس کی جگہ لے سکتی ہے، کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ جمہوریت کا جوہر یہی تو ہے، وہ سرکار کہیں زیادہ سمجھ دار اور موجودہ سرکار سے بہت کم اجڑ ہوگی۔اب معاملہ گرفتار ہونے والے ونگ کمانڈر کا ہے۔( اب گرفتار شدہ بھارتی ہوا باز ابھی نندن خیر سے رہا کیا جا چکاہے۔ مدیر ) پاکستان کے وزیر اعظم، عمران خان کے بارے میں کسی کی رائے جو بھی ہو، اور کشمیر تنازعے میں پاکستان کا جو بھی رول رہا ہو، لیکن عمران نے اس ساری مصیبت کے دوران وقار اور بے تعصبی کا ثبوت دیا ہے۔ حکومت ہند کا یہ مطالبہ بالکل جائز تھا کہ ابھی نندن ورتھامان کو وہ تمام حقوق اور سہولیات فراہم ہوں جو ایک جنگی قیدی کو جینوا کنونشن نے تفویض کئے ہیں، اس کا یہ مطالبہ دُرست تھا کہ وہ جب تک پاکستان کی حراست میں رہے، ریڈ کراس کی بین الاقوامی کمیٹی تک رسائی ہو۔ عمران خان نے یہ اعلان کیا کہ سدبھاؤنا( حسنِ نیت ومیل موانست) کی علامت کے طور ونگ کمانڈر کو رہاکر دیا جائے گا،شاید ہندوستان بھی کشمیر میں اپنے سیاسی قیدیوں کے ساتھ ایسی ہی سدبھاؤنا کا سلوک کر سکتا ہے، جینوا کنونشن کے تحت محبوسین کے حقوق و سہولیات کا تحفظ کر کےاور ریڈ کراس کی بین الاقوامی کمیٹی کو ان تک رسائی دے کر۔ہم لوگ جس جنگ کے وسط میں کھڑےہیں، وہ ہندوستان اور پاکستان کی جنگ نہیں ہے، یہ ایسی جنگ ہے جو کشمیر میں لڑی جا رہی ہے اور جو پھیل کر ایک ہند پاک جنگ کا نقطۂ آغاز بن گئی ہے۔ کشمیر ایک ناقابلِ بیان تشدد اور اخلاقی زوال کا حقیقی تھیٹر ہے جو ہمیں خدانخواستہ کسی بھی لمحے تشدد اور نیوکلیائی جنگ میں دھکیل سکتا ہے۔ اس کو رونماہونے سے روکنے کے لیے کشمیر تنازعہ پر توجہ دینا ہوگی اور اسے حل کرنا ضروری ہوگا۔ ایسا تبھی ہو سکتا ہے جب کشمیریوں کو آزادی اور بے خوفی سے یہ بتانے کا موقع دیا جائے کہ وہ کس چیز کے لیے لڑ رہے ہیں اور فی الحقیقت کیا چاہتے ہیں۔تو پیارے دھرتی واسیو! کوئی راستہ تلاش کرو!۔