ماضی قریب تک کشمیر خنزیروں کی نسل سے بالکل نامانوس تھا اور یہاں خنزیروں کا نام و نشان تک نہیں تھا لیکن اب وہ صورتحال نہیں رہی ہے ۔اب کشمیر کے جنگلاتی علاقو ںمیں جنگلی سُوریا خنزیر بہتات میں پائے جارہے ہیں اور انہوںنے ان جنگلاتی علاقوں میں ادھم مچا کے رکھی ہے ۔گزشتہ دنوں سے شمالی کشمیر سے مسلسل خبریں آرہی ہیں کہ شمالی کشمیر کے کئی دیہات میں جنگلی خنزیروںکی بڑھتی ہوئی آبادی کسانوں کیلئے مسائل پیدا کر رہی ہے۔ انہوں نے متعلقہ حکام سے اس سلسلے میں مداخلت اور مدد کا مطالبہ کیا ہے۔ جنگلی سور یا خنزیر مقامی نسل نہیں ہیں۔ ماہرین کے مطابق یہ جانور مہاراجہ گلاب سنگھ کے دور میں یہاں لائے گئے تھے۔1980کی دہائی کے وسط میں یہ خیال کیا جا رہا تھا کہ وہ یہاں سے مکمل طور پر غائب ہو چکے ہیں۔ اس جانور کو 2013میں دوبارہ دیکھا گیا اور 2018سے ان کی آبادی میں زبردست اضافہ ہوا۔ بڑھتی ہوئی آبادی فصلوں کیلئے خطرہ بن رہی ہے اور کسانوں کو مشکل وقت کا سامنا ہے۔رپورٹس کے مطابق جنگلی خنزیروں کی بڑی تعداد میں موجودگی نے محکمہ وائلڈ لائف کو ان پر تحقیق کرنے پر مجبور کر دیا ہے تاکہ ان کے ماحولیات پر اثرات معلوم ہو سکیں۔ حکام کا کہنا ہے کہ ابھی تک جنگلی خنزیروں کی سرکاری طور پر مردم شماری نہیں کی گئی۔انہوں نے کہا کہ محکمہ ان کی موجودگی کا مطالعہ کرے گا اور ان کیلئے انتظامی منصوبہ بنائے گا۔ کسانوں کا کہنا ہے کہ جنگلی خنزیررات کے وقت فصلوں کو نقصان پہنچاتے ہیں۔جانور گروہوں میں حرکت کرتے ہیں اور کچھ ہی دیر میں فصلوں کو تباہ کر دیتے ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ 1980کی دہائی کے وسط میں ان کا ناپید ہونا شاید ان کیلئے کشمیر میں ناسازگار موسمی حالات کی وجہ سے تھا۔لیکن اب موسمیاتی تبدیلی ان کی واپسی کی ایک وجہ ہو سکتی ہے کیونکہ کشمیر میں گزشتہ کئی برسوںسے سردیوں کے دوران بھی قدرے گرم درجہ حرارت دیکھا جا رہا ہے۔ماہرین نے مزید کہا کہ شمالی کشمیر میں جنگلی سوروں کی آبادی میں اضافہ اس لئے بھی ہو سکتا ہے کہ یہ حدمتارکہ کے قریب واقع ہے۔بہر امر واقع یہ ہے کہ کشمیر میں جنگلی خنزیروں کی آبادی اب کوئی نئی بات نہیں ہے بلکہ اب یہاں آئے روز انہیں کسی نہ کسی علاقے میں دیکھا جاتا ہے جو زرعی سیزن میں فصلوں کے لئے بھی انتہائی نقصان دہ ثابت ہورہے ہیں ۔گزشتہ سال شمالی کشمیر میں انہوںنے فصلوں کا بے تحاشا نقصان کیا اور لوگوں کو انتہائی پریشان کرکے رکھا تھا ۔آج کل شمال سے ہی زیادہ خبریں آرہی ہیں کہ خنزیر آزاد دھوم رہے ہیں اور ان پر کسی کا کوئی کنٹرول نہیںہے ۔حکام کودیہات کے کسانوں کے ساتھ مشاورت سے جنگلی خنزیروں کے ذریعے فصلوں کو پہنچنے والے نقصان کو کم کرنے یا ختم کرنے کے طریقے تلاش کرنے چاہئیں۔ اس مسئلے کو جلد از جلد حل کرنے کی ضرورت ہے تاکہ یہ آنے والے وقت میں کوئی سنگین شکل اختیار نہ کرسکے اور لوگ راحت کی سانس لے سکیں۔نیز سائنسی بنیادوںپر اس کی تحقیق کی بھی ضرورت ہے کہ یہ خنزیر ہمارے ماحولیاتی نظام پر کس قدر اثر انداز ہوسکتے ہیں اور ان کی بڑھتی ہوئی آبادی ہمارے لئے کس قدر پریشانی کا باعث بن سکتی ہے کیونکہ جب ایک واضح بلیو پرنٹ سامنے ہو تو عملی اقدامات کرنے میں آسانی ہوتی ہے۔اس لئے امید یہی کی جانی چاہئے کہ محکمہ وائلڈ لائف سے جڑے حکام نہ صرف اولین فرصت میں کشمیر میں جنگلی خنزیروں کی کل آبادی کا پتہ چلائیں گے اور اس کیلئے باضابطہ سائنسی بنیادوںپر ایک سروے عمل میںلائیں گے ،نیز یہ بھی وجوہات تلاش کریں گے کہ آخر ایک ایسے خطے میں یہ جانور کس طرح پروان چڑھ رہے ہیں جہاں ان کی آبادی ماضی قریب میں ناکے برابر تھی ۔جب یہ تحقیق مکمل ہوگی تو اس موزی جانور کے تدارک کیلئے اقدامات کرنا آسان ہوگا۔