ریحانہ کوثر ۔منڈی،پونچھ
انسان اور جنگلی جانوروں کے درمیان تصادم کوئی نئی بات نہیں ہے۔ اکثر جنگل کے قریب علاقوں میں جنگلی جانوروں کا داخل ہونا یا راستے سے گزر رہے لوگوں پر حملہ کرانہیں جان سے مار دینا یا شدید زخمی کر دینا عام بات ہونے لگی ہے۔جموں کشمیر کے بہت سے علاقے ایسے ہیں جہاں انسانوں اورجنگلی جانوروں کا سامنا ہوتا رہتا ہے۔سرحدی ضلع پونچھ کے دورافتادہ بایلا علاقہ میں بھی ریچھ کے حملوں نے بہت ساری قیمتی جانیں لی ہیں۔ مقامی محمد رشیدکے مطابق علاقہ بائیلہؔ میں ریچھ کے حملے میں ولی محمد ولد سلطان نامی ایک شخص شدید زخمی ہوگیا تھاکو سب ضلع ہسپتال منڈی لایا گیاتھا،جہاںسے اُسے جموں میڈیکل کالج ریفر کر دیا گیا تھا جہاں اس کی موت ہوئی۔ اسی طرح مختلف علاقوںمیں آئے روز جنگلی جانور وں کے حملوں میںانسانی جانوں کا زیاں ہورہا ہے۔جس کے نتیجے میں علاقہ کے لوگوں بالخصوص اسکولی بچوں میں ڈر و خوف کا ماحول پیدا ہوا ہے۔
ایک مقامی خاتون فریزا بیگم نے بتایا کہ کچھ ماہ قبل ان کے علاقہ کے ایک شخص ولی محمد،عمر پچاس سال، وہ صبح اپنے گھر سے کسی ضروری کام کے لیے نکلے تھے کہ اچانک راستے میں ریچھ نے ان پر حملہ کردیا اور ریچھ نے نہ صرف اس کی دونوں ٹانگیں بری طرح متاثرکردی تھی بلکہ اس کا پوراچہرا کھا لیا تھا۔ انہیں جموں ریفر کر دیا گیا،جہاں اُنکی موت واقع ہو گئی۔ دو سال گزرنے کے بعد بھی یہاں پر جنگلی جانوروں کے حملوں کا سلسلہ رُکتا نہیں۔انہوں نے مزید بتایا کہ ریچھ ہماری فصلوں کو بھی بہت زیا نقصان پہنچاتے ہیں۔ ہم غریب لوگوں کا انہیں فصلوں پر ساراگذارا ہوتا ہے،جس سے ہم محروم ہورہے ہیں۔ فریزا بیگم بتاتی ہیں کہ اس سلسلے میں مقامی باشندوں نے وائلڈ لائف والوں سے بھی بات کی اور ان سے اس کی وجہ جاننی چاہی تو وائلڈ لائف کے افسران نے بتایا کہ انسانوں اور جانوروں کے درمیان تصادم آرائی اُس وقت پیش آتی ہے جب جنگلی حیات کی ضروریات انسانی آبادی سے پوری ہوتی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ جنگلات اور باغات کے درمیان خالی علاقہ نہ ہونا اور زرعی زمین کے استعمال کی تبدیلی، دیہی اور نیم شہری علاقوں میں روایتی فصلوں (دھان) باغبانی (میوہ، زیادہ تر سیب) میں تبدیل ہونا شامل ہیں کیونکہ یہ ریچھوں کو اپنی طرف راغب کرتا ہے، جن کو جنگل کے بجائے باغات میں اچھے معیار اور بڑی مقدار میں کھانا ملتا ہے۔اس کے علاوہ ان جنگلی جانوروں کو شہروں کے قریب آوارہ کتوں کی شکل میں آسان غذا میسر ہو جاتی ہے۔ اس لیے وہ بستیوں کا رخ کرتے ہیں۔
ایک اور خاتون تصویر جان نے بات کرتے ہوئے کہا کہ یہاں پر ریچھ کے علاوہ جنگلی سوربھی آتے ہیں، جو ریچھ سے زیادہ فصلوں کو نقصان پہونچاتے ہیں۔ کوئی مکی کا ٹانڈا نہیں چھوڑتے۔ وہ کہہ رہی تھی کہ کل بھی ہمارے گھر کے آگے سے دن میں سور(پِگ) گزرے، بچے باہر کھیل رہے تھے ان کو دیکھ کر بچے بھاگے، جس کی وجہ سے ان چوٹیںبھی آئیں۔ یہ جنگلی جانور یہاں فصلوں کی تباہی کرتے ہیں اور لوگوں کی جانیں بھی لیتے ہیں۔ آخر یہاں پر ان کی روک تھام کے لئے کوئی انتظام کیوں نہیں کیا جاتاہے؟کب تک ہم ڈر کے مارے جیتے رہیں گے؟ وہ بتاتی ہیں کہ گاؤں میں باتھ روم بھی گھر سے باہربنے ہوتے ہیں۔ ایسے میں عورتیں، بچے،بزرگوں کو باتھروم جانے میں بھی دشواریاں پیش آتی ہیں۔بائیلا علاقے کے مقامی صحافی اور سماجی کارکن یوسف جمیل بتاتے ہیں کہ ایک عمر رسیدہ خاتون سال 2021 میں ایک دن کسی ضروری کام سے اپنے گھر سے باہر جا رہی تھی کہ اچانک ریچھ نے ان پر حملہ کر دیا، جس سے وہ بری طرح سے زخمی ہو گئی تھی۔اُنکی آنکھ، بازو، ٹانگ اور چہرا پوری طرح سے ریچھ نے زخمی کر دیا تھا۔انہیں فوری طور پر سب ہسپتال منڈی لے جایا گیا ، پھر انہیں پونچھ ہسپتال منتقل کیا گیا جہاں انکا علاج ہوا، لیکن آج بھی وہ اچھی طرح سے چل پھِرنہیں پاتی ہیں۔یوسف کہتے ہیں کہ ہم انتظامیہ اور وائلڈ لائف والوں کو یہ اپیل کرتے ہیں کہ انکی روک تھام کے لیے بہتراقدامات کیے ہیں۔
اسی طرح سے علاقہ آڈائی جو بائلہ گاؤں کے بالکل قریب ہے ،کے باشندے محمد راشد بتاتے ہیں کہ ان کے پڑوسی محمد بشیر ولد محمد اسلم ایک صبح فجرکی نماز کے لیے وضو کرنے اپنے گھر سے باہر نکلے تو اچانک ان پر ایک ریچھ نے حملہ کر دیا۔جس سے وہ شدید زخمی ہو گئے۔ منڈی کے گگرنڑیاں علاقے کی رہنے والی ایک عورت جنکا نام حنیفہ بی ہے، انہوں نے خود بات کرتے ہوئے کہا کہ میں ایک صبح اپنے مویشیوں کو چرانے گئی ہوئی تھی کہ اچانک ریچھ نے مجھ پر حملہ کر دیا۔جسکے سبب میں شدید زخمی ہو گئی۔ بعد از میں نے بہت شور مچایا۔ جس سے ریچھ بھاگ گیا۔ لیکن مجھے بری طرح سے چوٹ پہنچا گیا۔ میرا علاج و معالجہ پونچھ ہسپتال میں اچھی طرح سے ہوا، لیکن اب لوگوں میں یہ خوف پیدا ہوا ہے کہ کہیں ہم بھی اسکے حملے کا شکار نہ ہو جائیں۔بچے اسکے ڈر خوف سے سکول نہیں جاتے ہیں۔بہرحالہمارے یہاں انسانوں اور جنگلی جانوروں کے درمیان تصادم آرائی میں ریچھ کے حملے زیادہ ہورہے ہیں۔
جس کے بعد تیندوا جبکہ بندر اور سرخ لومڑی کے حملے بھی کم و بیش آتے رہے ہیں۔ان میں سب سے بڑی وجہ خود ہم انسان ہیں۔ جس نے ترقی کے نام پر جنگلوں کو کاٹنا شروع کر دیا ہےاور یہ بھی بھول گئے کہ جنگل ان جانوروں کا گھر ہوتا ہے۔ حالانکہ اس سلسلے میں محکمہ وائلڈ لائف کو اپنا کلیدی کردار ادا کرنا چاہئے تاکہ انسانی جانوں کا مزید ضیاع نہ ہواور جنگلی جانوروں کے لئے بھی جنگل میں تمام ضروری کھانا اور گھر دستیاب ہو ں،لیکن کیا ایسا ہونا ممکن ہے۔؟(چرخہ فیچرس)