لیاقت عباس
جنگلات کو سر سبز سونا کہا جاتا ہے۔ کیونکہ اس کے انگنت فائدے ہیں۔ جنگلات کی ہریالی، خوبصورتی، صاف اور تازہ ہوا، مختلف قسم کے پیڑ پودے، جنگلی میوے، مختلف قسم کی جھاڑیاں، ہرا بھرا گاس اس کی خوبصورتی کو دوبالا کرتے ہیں۔ جنگلات جنگلی جانوروں اور پرندوں کی آماجگاہ ہے۔ انسان نے اپنی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے جنگلات کا بے دریغ کٹاؤ کیا۔ جس کے سبب جنگلی جانوروں نے بستیوں کا رخ کرنا شروع کیا۔ آئے دن ہم بنی نو انسان اور جنگلی جانوروں کے درمیان آپسی تصادم کو ہوتا دیکھتے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ جنگلی پرندوں کی تعداد میں بھی کمی دیکھنے کو مل رہی ہے۔ سردیوں کے موسم میں لوگ جنگلی پرندوں کا شکار کرتے ہیں۔ ہم جنگلات سے بالن، تعمیرات کے لیے لکڑی، گھاس وغیرہ لاتے ہیں۔ یہ صرف حکومت کی ہی ذمہ داری نہیں بلکہ جنگلات کا تحفظ کرنا ہر بنی نو انسان کی اولین ذمہ داری ہے۔
ہندوستان دنیا کے ان دس بڑے ممالک میں سے ایک ہے۔ جہاں جنگلات کی بڑی تعداد پائی جاتی ہے۔ 2010ء میں اقوام متحدہ کی تنظیم برائے خوراک و زراعت کے مطابق بھارت کے جنگلات 68 ملین ہیکٹر پر محیط ہیں۔ جو پورے ملک کا 24 فیصد رقبہ ہے۔ جنگلات کا یہ علاقہ 17 فیصد انسانوں اور 18 فیصد مویشیوں کی ضرورتوں کو پورا کرتا ہے۔ لیکن اب اس کا رقبہ دن بدن کم ہوتا جا رہا ہے۔
جموں و کشمیر کو خوبصورتی کے لحاظ سے کرہ ارض پر جنت کہا جاتا ہے۔ اس کے فلک بوس پہاڑ، سر سبز میدان ہرے بھرے جنگلات اس کی خوبصورتی کو دوبالاکرتے ہیں۔ لیکن بنی نو انسان نے قدرتی وسائل سے چھیڑ چھاڑ کی۔ جنگلات کے بے دریغ کٹاؤ کی وجہ سے اب جنگلات کی شرح آہستہ آہستہ کم ہوتی جا رہی ہے۔ اس کی بنیادی وجہ انسانی مداخلت ہے۔
ایک تحقیق کے مطابق جموں و کشمیر میں 42822 مربع کلومیٹر جنگلاتی رقبہ انتہائی خطرے میں ہے۔ پچھلے چند برسوں میں 186 ہیکٹر پر محیط جنگلات کو آتش زدگی کی وجہ سے نقصان ہوا ہے۔ پچھلے 20 برسوں کے دوران 900 سے زائد ہیکٹر پر آتش زدگی کی وارداتیں رونما ہوئی ہیں۔ مختلف تعمیراتی کاموں کے لیے جنگلات کی لکڑی کا استعمال کیا جاتا ہے لیکن اس کی آڑ میں جنگلات کا صفایا کیا جا رہا ہے لیکن عوام بے حس اور خواب غفلت میں ہے۔
جموں کشمیر میں زیادہ آبادی دیہات میں رہتی ہے۔ مال مویشی پال کر لوگ گزارا کرتے ہیں۔ ان کا چارہ، گھاس، پتے وغیرہ جنگل سے لا کر ان کی پرورش کی جاتی ہے۔ آج لوگوں کے پاس مال مویشی تو نہیں، اگر ہے بھی تو بہت کم۔ لیکن پھر بھی سرسبز جنگلات کا صفایا کیا جا رہا ہے۔ اب تو جنگلی جانوروں نے بھی بستیوں کا رخ کرنا شروع کر دیا ہے۔ گھاس کاٹنے کی رسم اب ختم ہوتی جا رہی ہے۔ محکمہ جنگلات کے اہلکار اس کی دیکھ بھال تو کرتے ہیں لیکن آپسی ملی بھگت اور افرادی قوت کی کمی بھی اس کی ایک بڑی وجہ ہے۔ محکمے کے پاس اس جدید دور میں بھی کوئی جدید سہولت دستیاب نہیں اور تو اور پانی کا بندوبست بھی نہیں کیا جا سکتا۔ اس سال طویل مدت سے خشک سالی کی وجہ سے طرح طرح کی بیماریاں جنم لے رہی ہیں۔ ساتھ ہی ساتھ پانی کے ذخائر بھی ختم ہوتے جا رہے ہیں۔ برف پگلتی جا رہی ہے۔ زمینیں بالکل خشک ہو چکی ہیں۔ آج سردیوں کے موسم میں درختوں پر پتے بھی نہیں ہیں۔ گھاس، چھوٹی چھوٹی جھاڑیاں اور درخت بھی بالکل سوکھ چکے ہیں۔
آئے روز کہیں نہ کہیں آگ کی وارداتیں رونما ہوتی رہتی ہیں۔ خاص کر پہاڑی اور دور دراز علاقوں میں۔ پچھلے سال بھی اس کی وجہ سے کروڑوں روپیوں کا نقصان ہوا۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ لوگ سوکھے گاس کو آگ لگا دیتے ہیں جس سے یہ آگ دور دور تک پھیل جاتی ہے۔ اس کی وجہ سے چھوٹے چھوٹے کیڑے مکوڑے، پرندے، جانور، جھاڑیاں حتی کہ بڑے بڑے درخت بھی اس کی لپیٹ میں آ کر جل کر راکھ ہو جاتے ہیں۔ اس طرح سر سبز سونا مٹی کے ڈھیر میں تبدیل ہوتا جا رہا ہے۔ لیکن عوام الناس کو اس کی بالکل بھی فکر نہیں۔ پونچھ، راجوری، کپواڑہ، بانڈی پورہ، گاندر بل کے ساتھ ساتھ کرناہ اور اوڑی کے جنگلات میں اس وقت اس قدر بھیانک آگ نمودار ہوئی ہے جس پر قابو پانا اب ناممکن سا لگ رہا ہے۔ لوگ کوشش تو کر رہے ہیں لیکن کوشش ناکام ہوتی دکھائی دے رہی ہے۔ محکمہ جنگلات کے اہلکار اور کچھ رضاکار اس کوشش میں لگے ہیں کہ اور زیادہ جنگلات کو نقصان نہ ہو۔ لیکن خشک سالی کی وجہ سے اس پر قابو پانا اب ناممکن سا لگ رہا ہے۔ ایک طرف بلند بانگ دعوے کیے جا رہے ہیں لیکن ان دعؤوں کی کلی کھل ہی گئی۔ لوگ اپنے مفاد کو مدنظر رکھتے ہوئے آگ تو لگا دیتے ہیں جس سے سر سبز سونا مٹی کے ڈھیر میں تبدیل ہوتا جا رہا ہے۔ محکمہ جنگلات کے اہلکار، محکمہ پولیس، محکمہ مال کے اہلکار اور رضاکار اس کام میں سرگرم ہیں۔ لیکن اب تک کامیابی نہیں مل سکی ہے۔ ایسے واقعات کی روک تھام کے لیے عوام الناس کو حکومت کے ساتھ قدم بقدم چلنا ہوگا۔ قصور واروں کی نشاندہی کر کے انہیں سخت سے سخت سزا دی جائے۔ اس پر فوری کاروائی کی ضرورت ہے۔ اس سے ماحولیات کی نظام پر بھی برا اثر پڑ رہا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ ماحولیاتی توازن مزید مستحکم ہوتا جائے گا۔ اگر ایسے جرائم کے خلاف فوری روک تھام کے لیے ضروری اقدامات نہیں کیے گئے تو آنے والی نسلوں کو بھی اس کا خمیازہ بھگتنا پڑے گا۔ اس لیے سخت اقدامات کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ انفرادی و اجتماعی کوششوں کے نتیجے سے ہی ہم کامیاب ہو سکتے ہیں۔ یہ اسی وجہ سے ممکن ہو پاتا ہے کہ کچھ شر پسند عناصر اپنے مفاد کی خاطر جنگلات میں آگ لگا دیتے ہیں۔ جس سے وقتی طور ان کو فائدہ تو ہوتا ہے لیکن جنگلات کی ہر جاندار چیز کو نقصان سے دوچار ہونا پڑتا ہے۔ اس لیے نگرانی کی ضرورت ہے۔ ایسا کرنے سے ہرگز اجتناب کیا جائے۔ قانون نافذ کرنے والی ایجنسیوں کو متحرک ہونا ہوگا۔ ساتھ ہی ساتھ عام لوگ بھی حکومت کا ساتھ دیں تبھی اس سرسبز سونے کو بچایا جا سکتا ہے۔ ہر سال لاکھوں ٹن لکڑی جنگلات سے لائی جاتی ہے۔ جو لوگوں کی ضرورتوں کو پورا کرتی ہے۔ ہم درخت تو کاٹتے ہیں لیکن درخت لگاتے نہیں۔ اگر ہم اسی طرح خواب غفلت میں رہے تو آنے والے برسوں میں اس سے کیا نقصانات مرتب ہوں گے یہ ہم سب دیکھ ہی رہے ہیں اور آگے بھی دیکھ ہی لیں گے۔ اس لیے یہ ہم سب کی اولین ذمہ داری ہے کہ ہم سب اپنے ارد گرد کے ماحول کو صاف رکھنے کے ساتھ ساتھ جنگلات کی حفاظت بھی خود ہی کریں۔ اپنے مفاد کی خاطر دوسروں کی زندگی میں دشواریاں پیدا نہ کریں۔ ہر خاص و عام کے لئےیہی ہماری التجاءہے ۔
رابطہ۔ 9697052804
پتہ۔ایشم اوڑی،بارہمولہ کشمیر
(نوٹ۔ اس مضمون میں ظاہر کی گئی آراء مضمون نگار کی خالصتاً اپنی ہیں اور انہیں کسی بھی طور کشمیر عظمیٰ سے منسوب نہیں کیاجاناچاہئے۔)