جنگ عظیم کے بعد معاشیات کو عالمی حیثیت میسر آ سکی نہ عالمی معاشی نظام مربوط ہو سکا۔ روس جو کبھی اشتراکی نظام معیشت کا دعویدار تھا، مغرب سے معیشت کی بقا کا طلبگار ہے۔ لاطینی امریکہ کو امریکہ کا سہارا لینا پڑا۔ جنوب مشرقی ایشیائی ممالک جس کی معیشت کبھی قابل رشک تھی اور ’’ایشیائی شیر‘‘ کہلاتے تھے، منہ کے بل گرے۔ یورپی ممالک کی یونین نے ایک نئی کرنسی یعنی ’’یورو‘‘ کا نظام نافذ کر لیا اور امریکہ نے NAFTA میں شمولیت اختیار کر لی۔ اس پورے ماحول کا جائزہ لیا جائے تو نظر آتا ہے کہ ایک بار پھر قومیت نہیں تو علاقائیت سراٹھا رہی ہے۔ امریکی سابق صدر ولیم جے کلنٹن، نے عالمی بنک اور آئی ایم ایف کے ایک گزشتہ اجلاس میں کہا تھا ’’یورپ کو چاہیے کہ وہ ایسی اقتصادی پالیسیاں اپنائے جو معاشی ترقی میں معاون ہوں اور وہ اپنی مارکیٹ کو بھی آزاد رکھ سکے۔ جاپان، جو اقتصادی طور پر عظیم ملک ہے اسے بھی عظمت دکھانا ہو گی۔ ایشیا بلکہ ساری دنیا کی معاشی صحت کا دارو مدار جاپان پر ہے۔ امریکہ نے خسارے کے بجٹ اور بھاری شرح سود سے نجات حاصل کی ہے۔ اگرچہ اس میں کئی سال لگ گئے ہیں لیکن اسی طرح جاپان کو بھی سخت اقدام اٹھانا ہوں گے۔ جاپان کے موجودہ مسائل کو مد نظر رکھتے ہوئے عالمی معاشی ترقی کو ایک نئے ولولے کے ساتھ آگے بڑھنا ہو گا۔ فقط اسی طرح سے منجملہ سرمایہ کاری نئے عزم سے جاری رہ سکے گی‘‘۔
علاقائی اتحاد:۔ آئی ایم ایف اور عالمی بینک کے مذکورہ بالا اجلاس میں یہ تجویز بھی رکھی گئی کہ یورپی یونین یورپ کی معیشت کو سنبھالے۔ جرمنی روس کا ملحوظ خاطر ہو، امریکہ لاطینی امریکہ کی مدد کرے اور جاپان ایشیا میں یہی کردار ادا کرے۔ برطانیہ اپنی روایتی مارکیٹ یعنی ایشیاء کا نگہبان ہوا! یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ ایشیا ایک ملک، ایک تہذیب یا ایک ثقافت نہیں بلکہ ایشیاء سیاسی، معاشی اور سماجی نشیب و فراز کا مرقع ہے۔ اس کا منفرد تاریخی پس منظر ہے یہ ایک وسیع خطہ ہے جو خصوصی تہذیب و اقدار کا حامل اور کئی مذاہب اور ثقافتوں پر مشتمل ہے۔ سیاسی، معاشی اور سماجی اقدار کے حوالے سے اس کی ہر سمت ایک دوسرے سے مختلف ہے مثلاً مشرقی ایشیاء مغربی ایشیاء سے مختلف ہے اور مغربی ایشیا جنوبی ایشیا سے، جنوبی ایشیا میں سات ممالک ہیں:انڈیا، پاکستان، سری لنکا، بنگلہ دیش، مالدیپ، نیپال اور بھوٹان۔ بھارت سیاسی، سماجی اور معاشی اور وسعت رقبہ کی برتری کی وجہ سے ان سب ممالک میں ممتاز حیثیت رکھتا ہے۔ اس کا رقبہ 3.29 ملین مربع کلو میٹر ہے اور آبادی 0.95 بلین افراد سے زائد۔ اس کی سالانہ مجموعی قومی آمدنی 225.4 بلین ڈالر ہے۔ اس کے بعد پاکستان ہے جس کی سالانہ مجموعی قومی آمدنی 42 بلین ڈالر ہے۔ بنگلہ دیش کی سالانہ مجموعی قومی آمدنی 24 بلین ڈالر ہے۔ بقیہ ممالک رقبہ اور آبادی کے اعتبار سے اور بھی کم ہیں۔ مجموعی طور پر اس خطے کے مختلف تاریخی پس منظر ہیں۔ مثلاً 68سال پہلے پاکستان، انڈیا کی تراش خراش سے وجود میں آیا۔ اس میں وہ علاقے شامل تھے جہاں مسلمانوں کی اکثریت تھی۔ مشرق میں بنگال اور مغرب میں پنجاب، صوبہ سرحد، سندھ اور بلوچستان، 24 سال بعد معاشی اور ثقافتی بناء پر مشرقی پاکستان اور مغربی پاکستان نے علیحدگی اختیار کر لی اور اس طرح 1971ء میں بنگلہ دیش وجود میں آیا۔ ان تینوں ممالک میں شروع ہی سے سیاسی، سماجی اور معاشی اختلافات ہیں جنہیںحل کرنے کی شدید ضرورت ہے۔ دوسری طرف سری لنکا اور نیپال کو بھی گاہے گاہے انڈیا سے شکایت رہی ہے۔ اصل میں انڈیا اپنی افرادی، معاشی، فوجی قوت اور سائنس ٹیکنالوجی کے شعبوںمیں خطے میں فوقیت حاصل ہے ۔ ان حقائق کے تناظر میں جنوبی ایشیا کے ممالک کی آبادی، رقبہ، حدود اربعہ، مجموعی سالانہ پیداوار، شرح نمو، فی کس آمدنی اور اہم صنعتوں کا جائزہ لیں تو نظر آتا ہے کہ اس خطے کا ہر ملک اپنی سیاسی، سماجی اور معاشی یکتائیت رکھتا ہے۔ دوسری طرف ہمیں بیشتر مسائل ایسے نظر آتے ہیں جو ان ساتوں ممالک میں مشترک ہیں:مثلاً بے روزگاری، افراط زر، خسارے کی سرمایہ کاری اور تجارت میں عدم توازن۔ بے روزگاری کے خاتمے کیلئے ان سب ممالک کا انحصار اپنی اپنی صنعتوں پر ہے۔ بیشتر ممالک اقتصادی طور پر ایک دوسرے کی مدد کرنے کی بجائے آپس میں مقابلہ آراء ہیں۔ دوسری طرف خطے کی اقتصادی ترقی کا دارومدار باہمی خوشگوار تعلقات پر منحصر ہے جس سے نہ صرف امن قائم ہو گا بلکہ اس خطے کے عوام بھی خوشحال ہوں گے۔ ایسی صورت میں جب کہ نیفٹا NAFTAاور یورپی یونین اپنے مقاصد کیلئے سرگرم عمل ہیں، جنوب ایشیائی ممالک کیلئے بھی ضروری ہو گیا ہے کہ وہ آپس میں ایک دوسرے کےساتھ تعاون کریں۔
قومی ترجیحات:۔ اس صورت حال میں ہمیں کیا کرنا چاہیے؟ گو کہ ان حالات میں سیاسی، سماجی اور معاشی تعاون کی ضرورت ہے لیکن اس سے پہلے یہ ضروری ہے کہ نیپال، سری لنکا، بھوٹان، انڈیا، بنگلہ دیش اور پاکستان اپنے اختلافات، خواہ وہ سیاسی ہوں یا معاشی، ختم کر دیں اور امن شانتی سے تمام بنیادی مسائل کو بات چیت کے ذریعے حل کرنے کی کوشش کریں۔ پاکستان اور انڈیا کے درمیان سب سے بڑا مسئلہ کشمیرکا ہے جس کیلئے ان دونوں ممالک میں تین چار بار جنگ ہو چکی ہے۔ دونوں اس کو حل کرنے کی کوشش میں دفاعی صلاحیتوں کو ترجیح دے رہے ہیں۔ دفاعی طاقت کے اظہار کیلئے انڈیا نے 11مئی 1998ء کو جوہری دھماکہ کیا جواباً پاکستان نے بھی 28مئی 1998ء کو جوہری دھماکہ کیا۔ نتیجتاً اقوام متحدہ نے دونوں ممالک پر معاشی پابندیاں عائد کر دیں تاکہ جوہری توانائی کا فروغ نہ ہونے پائے۔ ایسی صورت میں عالمی امن کو خطرہ ہے۔ لہٰذا ضرورت ہے کہ یہ دونوں ممالک سیاسی اختلافات کو خواہ وہ کسی بھی نوعیت کے ہوں، ختم کریں۔ بعد ازاں باہمی مفاد کیلئے ان ممالک کے معاشی نظام کی تشکیل نو کی جائے۔ اب اُمید یہ کی جارہی ہے کہ پاکستان کے نئے ممکنہ وزیراعظم اور بھارت کے پر دھان منتری نریند مودی انڈو پاک تعلقات میں بہتری لانے کے لئے مثبت سوچ سے کام لیں گے۔
مثلاً انڈیا کو لے لیں
جنوب ایشیائی ممالک کی معیشت میں اکثر مقابلہ آرائی ہے۔ بہر حا ل ضرورت اس بات کی ہے کہ یہ ممالک جہاں جہاں ایک دوسرے سے تعاون کر سکتے ہیں، ضرور کریں۔ مثلاً بنگلہ دیش پٹ سن کی پیداوار میں پہلے نمبر پر ہے جب کہ پاکستان توانائی، گیس اور ایندھن میں خود کفیل ہورہا ہے اور جغرافیائی طور پر وسط ایشیائی ریاستوں کی پیداوار کی کھپت کیلئے معاون بھی۔ انڈیا فولاد اور انجینئرنگ میں امتیازی مقام رکھتا ہے۔ ان ممالک نے آپس کی معاشی خوبیوں سے کوئی فائدہ نہیں اٹھایا اور سیاسی و جغرافیائی جھگڑوں میں الجھے رہے ہیں۔ بے شک معاشی غیر ہم آہنگی اور غیر متوازن مقابلہ آرائی سے انڈیا کی پوزیشن کو بہتر مقام حاصل ہے۔ اے پی پی کی 24؍اکتوبر 1998ء کی رپورٹ کے مطابق انڈیا کے اس وقت کے وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی نے کہا تھا’’ہر ملک کو چاہیے کہ اپنا الگ معاشی نظام اپنی مقامی ترجیحات کی بنیاد پر تشکیل دے۔ علاقائی عصبیت نے سخت بحران پیدا کیا ہے، جیسا کہ جنوبی ایشیا میں دیکھا گیا ہے۔ تاہم کوئی بھی ملک تن تنہا ترقی نہیں کرسکتا‘‘۔ امرتا سین نے جنہیں 1991ء میں قحط و غربت کے گہرے مطالعہ کرنے پر معاشیات میں نوبل انعام ملا، کہتے ہیں کہ گلوبلائزیشن صرف اسی صورت میں کامیاب ہو سکتی ہے جب سماجی اور معاشی اقدار مضبوط ہوں ۔بہرحال سوشل سیفٹی نیٹ Social Safety Nets ہونا ضروری ہیں‘۔
ویلیوڈیشن:۔دوسری طرف سارک ممالک میں فی کس آمدنی کی شرح کم سے کم 180 ڈالر اور زیادہ سے زیادہ 600ڈالر ہے جو بالترتیب بھوٹان اور سری لنکا میں ہے۔ بیشتر ممالک میں صنعت و حرفت میں معقول اضافے کے باوجود زراعت پر زور ہے ،جس کا حصہ قومی مجموعی پیداوار میں 25فیصد سے زیادہ ہے اور ان ممالک میں بھی جہاں پر قومی مجموعی پیداوار زیادہ تر مینوفیکچرنگ پر منحصر ہے وہاں پر بھی اکثر فوڈ اور ٹیکسٹائل کا خاطر خواہ حصہ ہے۔ اسی لیے ان ممالک کی بیشتر برآمدات میں بنیادی اشیاء اور کم لاگت والی ٹیکسٹائل کی مصنوعات شامل ہیں جب کہ سارک ممالک کی درآمدات میں زیادہ تر مشینری، خوراک اور دیگر مینوفیکچر شدہ اشیاء شامل ہیں۔ تاہم انڈیا اور پاکستان نے اس خطے میں اپنی پیداوار اور تجارت میں کافی تبدیلی کی ہے۔
جنوبی ایشیاء کا معاشی اتحاد
سارک ممالک کے مابین سرمایہ کاری اور صنعت و حرفت ہر ملک کی معیشت کے حجم کے مطابق مختلف ہے مثلاً سری لنکا میں تجارت پر انحصار ہے جہاں اس کی مجموعی اور قومی پیداوار میں تجارت کا حصہ ستر فیصد ہے جب کہ انڈیا میں مجموعی پیداوار میں تجارت کا حصہ صرف بیس فیصد ہے۔ پاکستان میں نسبتاً آزاد معیشت ہے سارک کے بیشتر ممالک میں ادائیگیوں کا عدم توازن ہے جو اکثر و بیشتر ترقی یافتہ ممالک کی امداد سے پورا کیا جاتا ہے چونکہ اس قسم کی امداد کے کچھ تقاضے ہوتے ہیں اس لیے ترقی یافتہ ممالک کی طرف سے تجارت کو اس خطے میں منتقل کرنا کافی مشکل ہے۔ لہٰذا اس خطے میں سرمایہ کاری اور صنعت و حرفت کی منصوبہ بندی کرنے کیلئے ان رکاوٹوں کو مد نظر رکھنے کی ضرورت ہے۔یہاں پر مقامی معاشی پالیسیاں اکثر درست بھی ہیں ،عوامی اداروں کی مداخلت کم سے کم ہے اور مشرقی ایشیاء میں خصوصاً صحت اور تعلیم و تربیت پر بھی خاصی توجہ دی جاتی ہے لیکن جس چیز کی یہاں ضرورت ہے وہ ہے جنوبی ایشیاء کے اندر مصنوعات اور خدمات کی روانی میں جو رکاوٹیں درپیش ہیں ،انہیں جلد سے جلد دور کیا جائے جو کہ سارک اورSAPTA کا بنیادی مقصد بھی ہے۔ امرتا سین نے اس امر کو Social Safety Net ( سماجی حفاظتی حدود) قرار دیا ہے جب کہ وزیر اعظم ہند نے اسے ’’قومی ترجیحات‘‘ کا نام دیا ہے، تاہم غیر ملکی سرمایہ کاری سے جو کہ مقامی سرمایہ کاروں کے ساتھ مل کر کی جائے، مطلوبہ نتائج حاصل کیے جا سکتے ہیں مثلاً ہر ملک کیلئے پیداوار کی کھپت کیلئے مارکیٹیں وسیع ہوں تاکہ علاقائی ترقی تیز رفتار ہو۔ سارک اور سیپٹا کے مقاصد کو اسی وقت تقویت مل سکتی ہے جب دو ممالک باہمی دلچسپی کے معاشی امور پر گفت و شنید کریں اور کوئی حل نکالیں تاکہ مقامی مارکیٹ میں توسیع ہو۔یہ صرف اسی وقت ممکن ہے جب خطے کو درپیش تمام سیاسی، سماجی اور تجارتی رکاوٹیں دور کر دی جائیں۔ ان حالات میں جنوب ایشیائی ممالک کے پرائیویٹ سیکٹر پر زیادہ ذمہ داری آتی ہے کہ وہ اپنی اپنی حکومتوں کو علاقائی تعاون کے فوائد سے آگاہ کریں ۔اس کے نتیجے میں کاروباری مواقع بڑھیں گے بلکہ مقامی مارکیٹ بھی وسیع تر ہو گی۔ کچھ ممالک میں گو کہ تجارتی آزادی ہے لیکن وہاں پر بھی درآمدات پر پابندیاں ہیں ، چونکہ ان ممالک میں پابندیاں ایک جیسی ہیں اس لیے جنوبی ایشیا میں تجارت کا فروغ مشکل ہے۔ اس خطے کی تجارت اس کی برآمدات کا 3.1 فیصد اور درآمدات کا 1.7 فیصد ہے اور یہ علاقائی تجارت عرصے سے تنزلی کا شکار بھی ہے۔
عالمی مربوطگی: دوسری طرف W.T.O کا مقصد عالمی تجارت کو مضبوط کرنا، عالمی معیشت میں ربط پیدا کرنا اور ’’یورو گری رائونڈ‘ ‘معاہدے پر عملدرآمد کرانا ہے۔ اس خطے میں کسی سرمایہ کاری سے گریز بھی اس کے مقاصد میں شامل ہے خواہ اس میں ہائی ٹیک انڈسٹری ہی کیوں نہ شامل ہو۔ W.T.O کے اغراض و مقاصد میں یہ بھی دیکھنا شامل ہے کہ تمام ممالک، خواہ وہ غریب ہوں یا امیر، ان کو یکساں درجہ دیا جائے۔ یہ تنظیم بشمول دیگر امور کے عالمی تجارت کو آزاد کرنے کیلئے کوشش کر رہی ہے۔ ان کوششوں میں درآمدی ڈیوٹی میں کمی، برآمدات کیلئے Subsidy کا خاتمہ اور کوٹے کا خاتمہ شامل ہیںجب کہ ان تمام کوششوں سے، مشرق ہو یا مغرب، ترقی پذیر ممالک کو نقصان ہی پہنچا ہے۔ ڈبلیو ٹی او کے تحت، تجارتی معاہدوں کیلئے ایسی پابندیاں شامل ہیں جن سے ترقی یافتہ ممالک میں اشیائ، سروسز، سرمایہ، ٹیکنالوجی اور افرادی قوت کیلئے راہ ہموار کی جائے اور ان کے کاروبار کو نقصان بھی نہ پہنچے۔ڈبلیو ٹی او کی وجہ سے مزید پابندیاں جو عائد ہو رہی ہیں ان میں ایک مثال ترقی یافتہ ممالک کا کوٹہ سسٹم ہے اس کے مطابق ٹیکسٹائل کی مصنوعات برآمد کرنے والے ترقی پذیر ممالک کا کوٹہ ختم کر دیا جائے اور دوسری جانب صنعتی ممالک اپنی اشیاء ان ترقی پذیر ممالک میں بلا روک ٹوک برآمد کریں۔ پس ترقی پذیر ممالک کو امریکہ سے گارمنٹس کی درآمد پر سے پابندیوں میں نرمی کرنا ہو گی، نتیجتاً ترقی پذیر ممالک اور خاص طور پر جنوب ایشیا کے ممالک کی ٹیکسٹائل کی صنعت تباہ ہو جائے گی۔ ایسی صورت میں صرف صنعتی ممالک اور ان کے کثیر القومی اداروں کو ہی فائدہ ہو گا۔ اس لیے یہی سارک ملکوں کیلئے بہتر ہو گا کہ وہ آپس میں سرمایہ کاری اور صنعت و حرفت کو فروغ دیں۔ بلاشبہ خطے کے لئے ضروری ہے کہ یہ ’’قومی ترجیحات‘‘ اور ’’سیفٹی نیٹ‘‘ میں رہتے ہوئے از خود ایک دوسرے کی یکساں بھلائی کیلئے تجارت کریں نہ کہ کسی اور کے کہنے پر!
براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری: جنوبی ایشیا میں سرمایہ اور ٹیکنالوجی کی شدید کمی ہے جو براہ راست سرمایہ کاری سے پوری ہو سکتی ہے ۔اس سرمایہ کاری سے نہ صرف روزگار کے مواقع میں اضافہ ہو گا بلکہ برآمدات کے ذریعے زر مبادلہ بھی کمایا جا سکے گا اور جدید ٹیکنالوجی بھی حاصل کی جا سکے گی اور صنعتی ترقی کے لئے بیرونی سرمایہ کاری سے ان ممالک کے انفراسٹرکچر میں اضافہ ہو گا اور سپلائرز اور تقسیم کنندگان کا دائرہ کار بھی وسیع ہوگا ۔ اس خطے کے ہر ملک میں مختلف صنعتی یونٹ سرگرم ہیں، ایک ملک کے پرائیویٹ سیکٹر کی پیداواری اشیاء کو دسرے ملک کی مارکیٹ تک رسائی ہونی چاہیے۔ ایسی صورت میں بہتر اشیاء دوسرے ممالک میں اپنی جگہ خود بنا لیں گی یعنی جو ملک بہتر اور سستی اشیاء بنا سکے گا وہی کامیاب رہے گا اور ایک دوسرے ملک کی ویلیوڈیشن اور ٹیکنالوجی کے تبادلے میں اپنا کردار ادا کر سکے گا۔اس کے نتیجے میں روزگار کے مواقع مزید ہوں گے اور عام آدمی کو فائدہ پہنچے گا۔ لہٰذا اس خطے کے ممالک کو اپنی ترقی کیلئے اپنی اپنی صلاحیتوں کی نشاندہی کرنا چاہیے تاکہ ان ممالک کی حکومت پرائیویٹ سیکٹر کی مدد سے غیر ملکی سرمایہ کار کو راغب کرنے میں معاون ثابت ہو۔ مثلاً بنگلہ دیش میں پٹ سن، سری لنکا میں چائے، انڈیا میں دھات اور پاکستان میں فیول پاور، ٹیکسٹائل، سیمنٹ اور شوگر جیسے شعبوں میں بیرونی سرمایہ کاری کی جا سکتی ہے جس سے نہ صرف اس خطے کی ضروریات پوری ہوں گی بلکہ یہ ممالک اپنی مصنوعات دنیا بھی میں برآمد بھی کر سکیں گے۔ جن ممالک میں زیادہ پیداواری گنجائش موجود ہے وہاں پر بیرونی سرمایہ کاری اور تبادلہ ٹیکنالوجی کا زیادہ فائد ہو گا۔ کاروباری طبقے پر بھی ذمہ داری آتی ہے کہ وہ اس خطے میں پیداوار بڑھانے کیلئے بھرپور تعاون کریں، کچھ ممالک میں برآمدات کیلئے معقول سہولیات میسر نہیں باہمی تعاون سے ان کی بھی مدد کی جا سکتی ہے۔سارک کی مصنوعات دنیا بھر میں مارکیٹ کی جا سکتی ہیں۔ ان کی فروخت پر منافع میں ہر ملک کا حصہ اس کی اپنی ویلیوڈیشن کے مطابق ہو سکتا ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ویلیوڈیشن کر نے والے ملک کو سہولت اور رغبت ہو یعنی ایک ملک شے کی قیمت میں جتنا اضافہ کرے اتنا ہی اسے ٹیرف کی پابندیوں سے چھوٹ دے دی جائے۔ جس کے نتیجے میں وہ اشیاء جن میں علاقائی ویلیوڈیشن زیادہ ہو گی اس کی مقامی مارکیٹ میں رسائی آسان ہو گی۔ ایسا کرنے سے دنیا بھر میں کسی ایک ملک کی بجائے جنوبی ایشیا کی مصنوعات کو فروغ دیا جا سکے گا۔
ذرائع نقل و حمل و مواصلات: کسی بھی ملک کی پیداواری صلاحیتوں میں اضافے اور صنعت و حرفت اور سرمایہ کاری میں فروغ کیلئے ایک اچھے انفراسٹرکچر یعنی ذرائع نقل و حمل اور مواصلات کی ضرورت ہوتی ہے۔ پرائیویٹ سیکٹر اچھے انفراسٹرکچر کے قیام میں بھی بھرپور کروار ادا کر سکتے ہیں۔ لہٰذا پرائیویٹ اداروں کو ہی یہ ذمہ داری سونپ دی جائے۔ وہ بڑے بڑے پروجیکٹس پر کام شروع کریں، تعمیر کریں اور پھر انہیں خود چلائیں یا کسی اور کو منتقل کر دیں۔اس خطے میں سرمایہ کاری کے فروغ کیلئے موثر وسائل کی ضرورت ہے۔ خاص طور پر جب ویت نام، کمبوڈیا، میانمار اور لائوس سرمایہ کاروں کی توجہ کا مرکز بنے ہوئے ہیں۔ ویت نام، ASEAN کا ممبر بن چکا ہے اور برما بھی مبصر کی حیثیت سے شامل ہے۔ کساد بازاری کی صورت میں ترقی پذیر ممالک کے صنعت کار اپنا دائرہ کار مغرب سے مشرق کی طرف منتقل کر دیتے ہیں۔ جنوبی ایشیا کے ممالک کو ایسے صنعت کاروں کی توجہ اپنی طرف مبذول کروانی چاہیے تاکہ اس خطے کی بھلائی ہو۔ جیسا شروع میں کہا گیا ہے معاشیات کو عالی حیثیت دئے جانے کے خاطر خواہ نتائج برآمد نہیں ہوئے بلکہ علاقائیت کا تاثر جنم لے رہا ہے۔ یورپی یونین اور نیفٹا کا کردار وسیع ہو رہا ہے، ادھر APEC ، ASEANS ، بھی علاقائی تعاون میں اپنا کردار ادا کر رہے ہیں لیکن یہاں پر چند ممالک کے درمیان سیاسی اختلافات کی وجہ سے علاقائی ترقی محدود ہو گئی ہے۔ لہٰذا ضروری ہے کہ متعلقہ ممالک باہمی گفت و شنید، صلح سمجھوتے اور خوش اسلوبی سے اپنے اختلافات دور کر کے سیاسی مسائل کو حل کریں تاکہ اس خطے میں سرمایہ کاری اور صنعت و حرفت میں ترقی ہو اور اس خطے کے باشندے، جو دنیا بھر میں آبادی کا 20 فیصد ہیں، غربت، ناخواندگی اوربیماری کے چنگل سے نکل کر خوشحالی کے دن دیکھ سکے ؎
مژدہ رسید کہ غم نخواہد ماند
چناں نماند چنینں ہم نہ خواہد ماند