جنت کا حقدار افسانہ

ڈاکٹر عبدالمجید بھدرواہی

ڈاکٹر وسیم ایک قابل معالج کے ساتھ ساتھ ایک پاکباز اور نیک سیرت انسان بھی تھا وہ صوم و صلوٰۃ کا پابند تھا۔ اسے صدقات و خیرات دینے سے دلی سکون ملتا تھا اور غریب مسکین ، نادار اور یتیم بچوں کی امداد کے لئے ہر وقت تیار رہتا تھا۔ وہ فلاحی کام کرنے کو ہمیشہ ہی ترجیح دیتا تھا۔ اسی لئے اس نے پندرہ سال کی نوکری مکمل کرنے کے بعد ہی والنٹری ریٹائرمنٹ لینے کا فیصلہ لیا۔ اب وہ ہفتہ میں دوبار مقامی اولڈ ایج ہوم میں مریضوں کے علاج معالجہ کے لئے جاتا تھا۔ تمام افراد کو، جو بھی اس اولڈ ایج ہوم میں رہائش پذیر تھے، ڈاکٹر وسیم کے آنے کا بڑی بے صبری کے ساتھ انتظار رہتا تھا۔ علاج کے علاوہ وہ ان افراد کو ہمدردی کے بول بول کر خوش کرتا تھا۔ ان کو نفسیاتی طور پر بھی صحت مند کر دیتا تھا۔ وہ دو تین مہینوں سے ایک بڑھیا کو دیکھتا تھا جو ایک کونے میں ہر وقت گم سم رہتی تھی۔ اکثر چپکے چپکے آنسو بہاتی رہتی تھی ۔ کسی سے کچھ نہ کہتی تھی۔
بس خاموشی سے اپنے دن گزارتی ۔ ڈاکٹر وسیم اس بڑھیا کی یہ حالت دیکھ کر مجبور ہوا کہ وہ اس سے اتنا مغموم اور افسردہ رہنے کی وجہ دریافت کرے ۔ ویسے تو یہاں کے سارے ہی رہنے والے پریشان حال ہوتے ہیں مگر اس خاتون کی حالت کچھ زیادہ ہی رحم طلب تھی۔پہلے تو بڑھیا نے کچھ کہنے سے ٹال مٹول ہی کیا مگر پھر ڈاکٹر صاحب کی ہمدردانہ گفتگو نے اسے اپنی پوری کہانی کہنے پر مجبور کر دیا۔ بڑھیا روتی جاتی اور اپنی روداد سناتی جاتی ۔ ڈاکٹر لگا تار تسلی دیتا جاتا اور وہ بڑے انہماک کے ساتھ اس کی کہانی سنتا رہتا۔
بڑھیا نے بتایا میری شادی محمد رجب اللہ صاحب سے ہوئی وہ بہت ہی نیک اور صالح شخص تھا۔ ہماری شادی کے پانچ سال تک کوئی بچہ نہ ہوا، ہم دونوں نے کوئی پیر فقیر، درگاہ اور ہسپتال نہ چھوڑا جہاں ہم نہ گئے ۔ ہر قسم کا علاج کردیا مگر سب بے سود۔ آخر کار ہم دونوں حج کو گئے ۔ وہاں حرمین شریفین میں خوب گڑگڑا کر دعائیں مانگیں ۔ اللہ تعالیٰ کا کرم ہوا۔ میں حاملہ ہوگئی۔ ٹیسٹ کروانے پر ہسپتال والوں نے کہا کہ دو بچے ہیں۔ ہم نے یہ پوچھنے کی ضرورت ہی نہ سمجھی کہ لڑکا ہے یا لڑکی یا دونوں ۔ ہم تو شکر کرتے کرتے ہی نہ تھکتے تھے اور بڑی بے صبری سے ان کی پیدائش کا انتظار کر رہے تھے۔خیر ! دونوں لڑکے پیدا ہوئے ۔ ہم بہت خوش ہو گئے ۔ مگر ساتھ ہی مجھے کچھ خون کی پرانی بیماری ظاہر ہوئی۔ بہت خون خارج ہواجو تھمنے کا نام ہی نہ لیتا تھا۔ کافی خون کی بوتلیں چڑھائی گئیں مگر پھر بھی کوئی افاقہ نہ ہوا۔ مجھے انتہائی نگہداشت کے کمرے (ICU) میں داخل کیا گیا۔ ہمارے پاس جتنا روپیہ پیسہ تھا سب ختم ہو گیا ۔ تھوڑی سی زمین تھی وہ بھی بیچ ڈالی ۔ میرے میاں کے ایک دوست تھے جو روزانہ نظر دینے آتے تھے۔ ان سے بھی قرضہ لیا۔بچنے کی کوئی امید نہ تھی ۔ ڈاکٹر بھی اب نا امید تھے ۔ ہم نے دونوں بچوں میں سے ایک کو میری ہمشیرہ کو پالنے اور دودھ پلانے کے لئے دیا اور دوسرا شوہر نے اپنے دوست کو دیا جن کا اپنا کوئی بچہ نہ تھا ۔اس نے بچے کو خوشی خوشی لیا مگر اس شرط کے ساتھ کہ وہ بچہ کسی بھی صورت میں واپس نہیں دے گا ،بھابی چاہے صحت یاب ہو یا خدانخواستہ کوئی اور بات ہو ۔ میرے میاں نے مان لیا۔ دوسری بات ان کے دوست نے کہی کہ یہ راز مرتے دم تک کوئی بھی کسی سے یا اس لڑکے سے نہ کہے گا۔ ڈاکٹروں کی بڑی تندہی سے علاج کے نتیجے میں ، دوماہ کے بعد میں صحت یاب ہوئی۔ جولڑ کا میری ہمشیرہ کے پاس تھا وہ اس نے میرے حوالے کیا اور میںاس کو دیکھ دیکھ کر رجتی نہ تھی۔
دوسرا بیٹا میرے میاں نے کس کو دیا تھا یہ انہوں نے بالکل نہ بتایا ۔ بڑی مشکل سے بڑے تردد کے بعد صرف اتنا کہا کہ سمجھو کہ وہ تمہارا تھا ہی نہیں۔ ان کی بات نے مجھے یہ سمجھنے پر مجبور کیا کہ شاید وہ خدانخواستہ مر گیا ہے۔ ہم دونوں نے اس معاملہ میں پھر کبھی کوئی بات نہ کی ۔ اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرنے کے لئے ہم دونوں عمرہ کو گئے ۔ شکرانہ کے نوافل ادا کرنے کے ساتھ ساتھ ہم نے اپنے لڑکے کے کاروبار کے لئے ڈھیر ساری دعائیں مانگیں۔ ہماری دعائیں قبول ہو گئیں ۔ اس کو نوکری بھی مل گئی۔ دن دوگنی رات چوگنی ترقی کرتا گیا ۔ اس نے مکان دوکان بنائے ۔ گاڑیاں خریدیں۔ وہ جتنی جتنی ترقی کرتا گیا ، اتنا اتنا ہی وہ میرا کم خیال رکھنے لگا۔ کبھی میں بیمار پڑتی تو وہ مجھے ہسپتال بھی نہیں لے جاتا جس سے میرا حال روز بروز بد سے بدتر ہوتا گیا۔ مجھے سمجھ نہیں آرہا تھا کہ کیا کروں۔
ایک دن بیٹے نے مجھ سے کہا۔ اماں! میرا تبادلہ دوسرے شہر میں ہونے والا ہے ۔ میں اور نازیہ ایک دو روز تک وہاں جائیں گے ۔ نازیہ مجھے وہاں مکان، جو ہم کرایہ پرلیں گے، سیٹ کروادے گی ۔ کھانے پینے کا معقول انتظام کروا کر وہ واپس آئے گی۔ اس ایک دو مہینے میں ہم آپ کو ہوٹل میں رکھیں گے ۔ وہاں آپ کو کھانا، پینا، وغیرہ سب کچھ ملے گا۔ پھر جب نازیہ واپس آئے گی قریب ایک دو ماہ بعد تو پھر ادھر ہی لے جائیں گے۔
میں نے یہ سن کر ہاں کہہ دی۔اصل میں اس کا تبادلہ نہیں ہوا تھا وہ میری خلاصی کروانا چاہتا تھا۔ اس مقصد کے لئے اس نے ایک تجویز نکالی ۔ تبادلہ کا بہانہ بنایا ۔ وہ دونوں کچھ دنوں کیلئے نازیہ کے میکے گئے مگر مجھے کہا کہ دوسرے شہر میں تبادلہ ہوا ہے۔ یہ راز تب کھلا جب ان سے ملنے کوئی ان کا دوست آیا ۔ جس نے مجھ سے کہا کہ ماں جی ! وہ تو دفتر میں بیٹھے کام کر رہے ہیں۔ کس نے کہا کہ ان کا تبادلہ دوسرے شہر میں ہوا ہے۔ تبھی میرا ماتھا ٹھنکا کہ مجھ سے جھوٹ کہا گیا ہے۔
کچھ دنوں بعد مجھے پتہ چلا کہ جہاں میں ہوں، وہ ہوٹل نہیں بلکہ لاوارث شخاص کا مرکز ہے۔ یہ دیکھ کے مجھے اور بھی زیادہ افسوس ہوا۔ میں کیا کر سکتی تھی؟ مجھے تو معلوم ہی نہ تھا کہ ہوٹل اور اولڈ ایج ہوم میں کیا فرق ہے۔
جوں جوں دن گزرتے گئے مجھے پتہ لگتا گیا کہ یہاں پر اور بھی بے سہارا اور غریب لا چار مرد اور عورتیں رہتی ہیں جن کو مفت کھانا پینا دیا جاتا ہے اور علاج بھی کروایا جاتا ہے۔
مرنے سے پہلے میرے خاوند نے مجھ سے معافی مانگتے ہوئے کہا کہ مجھے معاف کرنا ۔ میں نے آج تک آپ سے ایک بات چھپائی ہے جس کا میں نے کسی کو وعدہ دیا تھا کہ وہ یہ راز کسی کونہ بتائے گا ۔ وہ بات یہ ہے کہ جب تم شدید بیمار ہوئی اور بچنے کی کوئی امید نہ رہی تب میں نے اپنا ایک لڑکا تیری ہمشیرہ کو پرورش کرنے کے لئے دیا اور دوسرا لڑکا میں نے اپنے دوست محمد رمضان کو دیا تھا۔
ہمشیرہ کو تو کہا کہ جب میں ٹھیک ہو جاؤں تب یہ لڑکا واپس دے گی۔ مگر ان کے دوست نے کہا کہ میں اس کی پوری پرورش کروں گا ۔ شرط یہ ہے کہ یہ بات راز میں ہی رکھی جائے تا کہ کسی کو بھی پتہ نہ چلے۔ محمد رمضان تو میرے والد کا نام تھا۔ ڈاکٹر وسیم سکتے میں آیا ۔ وہ یہ کیا سن رہا ہے۔
اچھا تو ۔ آپ محمد رمضان کے بیٹے ہو۔ ماں جی بولی اور اماں! آپ میری ماں ہو۔ میرے ان دونوں والد صاحبان نے یہ بات راز میں ہی رکھی تھی۔
سنو بیٹا ! ہسپتال میں نرس نے مجھ سے کہا تھا کہ ماں جی! آپ کے دو بیٹے پیدا ہوئے اور دونوں کے دائیں گال پر کالاتل تھا۔ بالکل سچ میں نے کہا۔
اس کے بھی گال پر تل ہے اور آپ کے گال پر بھی۔ دوسرے دن ڈاکٹر وسیم اپنی والدہ کو اولڈ ایج ہوم سے باہر نکال کر اپنے گھر لے آیا مگر راستے میں اپنی کار کو ایک دفتر کے سامنے کھڑا کیا اور خود اندر چلا گیا۔
السلام علیکم ۔ وسیم بولا
بیٹھو وسیم۔ محمد شفیع بولا۔
نہیں ! آؤ میں آپ کو اپنی ماں سے ملاؤں ۔ وہ باہر کار میں بیٹھی ہوئی ہے۔
وسیم اور شفیع دونوں باہر کار کے پاس رُکے۔
شفیع صاحب ملو میری ماں سے۔ ارے وسیم ۔ یہ تو میری ماں ہے
ماں جی اگر یہ آپ کا بیٹا ہے تو میں بھی آپ کا اپنا بیٹا ہوں ۔ وسیم بولا محمد رمضان میری پرورش کرنے والے والد کا نام ہے جو میرے اصلی و الد کے دوست تھے ۔
شفیع شرم کے مارے پانی پانی ہورہا تھا۔
ماں خوشی سے پھولے نہ سمارہی تھی۔
وہ دل ہی دل میں کہہ رہی تھی کہ ایک بیٹے نے مجھے گھر سے نکال کر آشرم میں منتقل کیا اور دوسرے نے آشرم سے نکال کر اپنے گھر لایا۔ وسیم نے صرف اتنا کہا کہ کچھ سال اماں آپ کے ہاں رہی اور اب باقی سال میرے پاس رہے گی۔ میں کتنا خوش بخت ہوں کہ مجھے اتنے سالوں بعد اپنی ماں مل گئی۔
کہاں سے ملتا ہے ماں کا آنچل۔
���
جموں، حال ہمہامہ، موبائل نمبر؛8825051001