ریاست جموں وکشمیر کے پولیس سربراہ دلباغ سنگھ کے مطابق فوج ،سی آر پی ایف اور پولیس کی طرف سے ملی ٹینسی مخالف آپریشن میں اب تک ساڑھے تین سو مسلح جنگجو ہلاک کئے گئے ہیں جبکہ لگ بھگ اتنی ہی تعداد عسکری محاذ پر موجود ہے ۔فوج اور پولیس اور دلی سرکار اتنی بڑی تعداد میں ملی ٹنٹوں کو مارنے کو اپنی بڑی کامیابی سمجھتی ہے ۔علاوہ اس کے جس طرح مزاحمتی لیڈر شپ اور سیاسی کارکنوں کو گھروں یا دور دراز جیلوںمیں مقید کیاگیا ہے اور نوجوانوں پر بے تحاشا پی ایس اے لگا کر بیرون ریاست جیلوں میں بھیجا گیا ہے ،اس پر بھی موجودہ انتظامیہ خوشی سے جھوم اٹھتی ہے ۔ وزیراعظم نریندر مودی نے سیاسی سوچ اور تنقید پر ریاستی جبر کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ ان لوگوں کی ’’نکیل کسنی ‘‘ضروری تھی ،سویہ کام ان کی حکومت ہی کرناتھا اور اسی نے یہ کیا۔
بے شک گول والکر ذہن سے سوچنے والی حکومت اور اس کے کارندوں نے واضح کیا کہ کشمیر کے مسئلہ کو حل کرنے کیلئے ان کے پاس صرف اور صرف ایک حل ہے ،طاقت کا ،اس کے علاوہ وہ کسی بھی وضع داری کی قائل نہیں ہے ۔دلّی میں برسر اقتدار بی جے پی قیادت سرعام اعلان کرتی ہے کہ مودی کی حکومت نے فوجیوں کو کھلی چھوٹ دی ہے اور کانگریس پر طنزکرتے ہوئے کہتی ہے کہ کانگریس حکومت میں فوج اور دیگر فورسز کے ہاتھ بندھے ہوئے تھے ۔کشمیری عوام ہر حکومت میں مظالم سہتی آئی ہے۔کشمیر کے حوالے سے بھاجپا ہو یا کانگریس یا او کوئی پارٹی،اب تک کا تجربہ بتا رہا ہے کہ یہاں ’’نامدار اور کامدار‘‘دھوتی پہننے والے اور جینز پینٹ میں ملبوس لیڈر سب کشمیر کے بارے میںدبانے اور جھکانے کی پالیسی پر عمل پیرا ہیں۔ہاں یہ ضرور ہے کہ بھاجپا سخت گیریت میں دوسروںسے آگے ہے اور فرقہ پرستی کی مہلک سوچ کو ریاستی اداروں تک میں سرایت کرکے بھارت کے اساسی تصور اور دستوری عقائد کو کھو کھلا بناتے جارہی ہے۔
سوال یہ ہے کہ کشمیر کے تئیں دہلی اب تک جس معاندانہ رویہ اور جارحانہ اپروچ کو اختیار کرکے آئی ہے ،کیا اس سے اس کو وہ مقاصد حاصل ہوئے ہیں ،جس کے حصول کیلئے اس نے نہ صرف اپنے ضمیر کو سلا دیا بلکہ انصاف اور آئین کی حکمرانی کو بھی معطل رکھا (افسپا فورسز کو جس طرح مہاراجہ کی گدی پر بٹھا دیتا ہے اور اپنی الگ متوازی ریاست تشکیل دیتا ہے ،یہ اسی چیز کا غماز ہے )۔ظاہر اس اپروچ کے کئی ایک اہداف ہیں۔ایک ملی ٹینسی کا خاتمہ ،دوسرے ’’علیحدگی ‘‘اور ’’انتہا پسند‘‘مزاحمتی تنظیموں کے زور کو ختم کرنا یا کافی حد تک کمزور بنانا،تیسرے عام لوگوں کو ’’قومی دھارے ‘‘میں شامل کرنا اور ہمدردیاں حاصل کرنا ،چوتھے بھارت نواز مقامی تنظیموں کی اعتباریت بڑھا کر ان کو کھوئی ہوئی پولٹیکل سپیس یا سیاسی مکانیت پر پھر سے استادہ کرنا ۔یہ چار مقاصد ہیں جس کو دلی کی سیاسی اور فوجی لیڈر شپ ریاست کی ’’ڈیموکریٹک‘‘حکومت یا گورنر انتظامیہ کو ساتھ لیکر حاصل کرنا چاہتی ہے ۔
اب تک کے واقعات اس امر کے شاہد ہیں کہ ان میں سے کوئی بھی ایک مقصد حاصل کرنے میں دلّی کو کامیابی ھاصل نہیں ہوئی ہے ۔ٹھیک ہے ملی ٹنٹوں کو مارنے کی کاررووائیوں کا گراف سال2018میں اوپر چلا گیالیکن اب بھی عسکری صفوں میں نوجوانوںکی شمولیت رُک نہیں گئی ہے ۔اور پھراگر ہم یہ مان کر بھی چلیں کہ ملی ٹنٹوں کو فوجی قوت پر ختم کیاجائے تو کیا ملی ٹینسی اس سے ختم ہوگی ؟ ۔برہان نے جب بندوق اٹھائی تو ملی ٹنٹ بہت کم تھے لیکن پھر جس طرح ان کے صفوںمیں اضافہ ہوا اور عوامی توقیر نصیب ہوئی ،اس سے یہ نتیجہ آسانی کے ساتھ اخذ کیا جاسکتا ہے کہ ملی ٹینسی ایک جذبے سے جڑی ہوئی ہے اور بندوق اس جذبے کا وقتی اظہار ہے ۔بندوق نہ تھی ،یہ جذبہ تب بھی دلوں میں موجود تھا،لہٰذا دلّی میں بیٹھنے والے نیتائوں اور پالیسیاں مرتب کرنے والے اداروں کیلئے ضروری ہے کہ وہ کشمیری عوام کی امنگوں اور چاہتوں کو ایڈرس کریں۔حریت اور دوسری آزادی پسند جماعتوں پر کئی طرح کے دبائو ڈالنے اور نقل و حرکت پر پابندیاں ڈالنے سے کیا وہ سفید جھنڈا اٹھانے پر مجبور ہوئیں ا اس کو سیاسی میدان سے باہر کرنے سے دلّی اور سرینگر کے مابین دوریاں کم ہوئی ہیں؟ ۔ دوئم کیا مزاحمتی تنظیموں پر قدغن لگانے سے نوجوانوںکے جذبہ مزاحمت میں کمی آئی ہے اور کیا نوجوان پود حریت قائدین کے خلاف ہوچکی ہے ؟۔ کیا وہ اسی ’’شاہانہ تکلم ‘‘کے اسیر ہوچکے ہیں جس کو بھارت سرکار اور نیوز چینلز روز اپنے ذہن و دہن کی توانائی فراہم کرتے رہتے ہیں؟ اور کیا ان کو سیاسی منظر سے ہٹاکرکشمیر میں دلی کے مقامی گماشتوں کو عوام سے آنکھیں ملانے کا حوصلہ ملا ہے (یاد رہے ڈاک بنگلے میں چند لوگوں کے جلوس میں تقریر کرنا’’عوامی ‘‘اجتماع نہیں کہلاتا،جذبہ اور کمٹمنٹ کشمیر ی عوام کے سواد اعظم کا نام ہے جو ہر قصبہ اور شہر میں دیکھا اور محسوس کیاجاسکتا ہے )؟ این سی اور پی ڈی پی جیسی تنظیمیں محض دلی کے ونٹی لیٹر پر سانسیں گن رہی ہیں ۔جس دن دلّی نے اپنا آشیرواد ان سے واپس لیا یا مزاحمتی جماعتوں کو سیاسی سپیس انکے برابر ملی ،اپنے حجروں سے باہر آنے کی ان میں ہمت نہیں ہوسکتی ۔زمینی حقائق کی یہ وہ تصویر ہے جو کشمیرکے سیاسی مطلع پر صاف دیکھی جاسکتی ہے ۔دلّی کی لاکھ کوششوںکے باوصف ان سیاسی مہروں کی کشمیر میںبے اعتباریت بڑھتی جاتی ہے ۔اور ان کو خود اس امر کا بخوبی احساس ہے ۔اس لئے طوحاً و کرحاً وہ عام شہریوں کی ہلاکتوں اور عوام پر کئے گئے مظالم پر بھارت کو صلواتیں پڑھتے جاتے ہیں(حالانکہ سبھی کو معلوم ہے کہ نئی دہلی اس کو معشوق کے گلہ سے زیادہ اہمیت نہیں دیتی بلکہ اس سے لطف بھی اٹھاتی ہے )۔ اس سے یہ واضح ہوجاتا ہے کہ کشمیرمیں دلّی نوازوں کو بھی سنٹیمنٹ یا غالب عوامی جذبہ سے مطابقت رکھنے والے بیانیہ سے خود کو کسی نہ کسی حد تک اور سطح پر ہم آہنگ کرنا پڑتا ہے ۔
جیسا کہ اوپر لکھا جاچکا ہے کہ ملی ٹینسی اصل میں کشمیری عوام کے دبے او ر کچلے ہوئے احساسات کا اظہار ہے اور حریت بھی اپنی معنویت او اعتباریت ان سے احساسات اور جذبات سے خود کو مربوط کئے ہوئے ہے ۔اور جب تک مسئلہ کی جڑ کو حل نہیںکیاجاسکتا ،کشمیر میں غیر یقینی صورتحال نہ صرف جاری رہے گی بلکہ دلّی اور سرینگر کے درمیان نفرت کی دیواریں اوربڑھیں گی۔دلّی سرکار نے بد قسمتی سے جس طریقہ کار کو چن لیا ہے ،اس سے زیادہ سے زیادہ یہ ہوسکتا ہے کہ وہ ملی ٹنٹوں کو مار دے گی ،لیکن ایک ملی ٹنٹ کو ماردینے کے بعد گرد و پیش میں بھارت کے خلاف جس بڑے پیمانے پر بیزاری بڑھتی ہے اور عوام خود کو ا س ماحول سے جوڑ پاتی ہے ،اس کو دیکھتے ہوئے یہی کہا جاسکتا ہے کہ دہلی ایک چھوڑے محاذ پر اگر چہ فتح یاب ہوتی نظر آتی ہے مگر عوام کے قلب و ذہن کو جیتنے میں ناکامی سے وہ ایک بڑی جنگ ہار رہی ہے ۔آخر کب تک کشمیریوں کو زیر کرنے کے فوجی حل پر دلّی اڑی رہے ۔زمین کی چھاتی کو فوجی بوٹوں سے دبا کر ترنگا کا کلمہ پڑھانا ہی اگر مقصود ہے تو پھر ’’جمہور نوازی‘‘کا راگ الاپنے کی کیا ضرورت؟ ہری سنگھ کو بھی یہ ’’دانش مندی‘‘نصیب آتی تو وہ بھی بہت بڑے ڈیموکریٹ خود کو ثابت کرتے !
بشکریہ ہفت روزہ’’ نوائے جہلم ‘‘ سری نگر