عظمیٰ نیوزسروس
جموں//کلیات ِ رساجاودانی‘‘کے دوسرے ایڈیشن کااجراءجموں وکشمیرقانون سازاسمبلی کے سپیکر عبدالرحیم راتھرنے جموں یونیورسٹی میں کیا۔ کتاب کی تقریب رونمائی کااہتمام شعبہ اردوجموں یونیورسٹی اور رسا جاودانی میموریل لٹریری سوسائٹی نے مشترکہ طور پر کیا تھا۔تنویرابن رساکی تدوین کردہ’’کلیاتِ رسا جاودنی‘‘کا دوسرا ایڈیشن شیخ محمد عثمان اینڈ سنز، سری نگر کشمیر نے خوبصورت ٹائٹل پیج اور گیٹ اپ کے ساتھ شائع کیا ہے۔ ’’کلیاتِ رسا جاودنی‘‘مایہ ناز شاعر رسا جاودانی کی اردو اور کشمیری شاعری کا مجموعہ ہے۔ اس کتاب کی تدوین تنویر ابن رسا ولد رسا جاویدانی نے کی ہے۔اس موقع پر اظہارخیال کرتے ہوئے عبدالرحیم راتھر نے کہاکہ جموں و کشمیر میں اردو اور کشمیری زبان کو فروغ دینے میں رسا جاودانی کااہم کردارہے ۔
انہوں نے رساجاودانی کورسول میر کے بعد کشمیری زبان کا سب سےبلندپایہ رومانوی شاعر قرار دیا جس کی کشمیری غزلیں کشمیری بولنے والے حلقہ میں شہرت رکھتی ہیں۔رساجاودانی وادی چناب کے سب سے قد آور کشمیری شاعر تھے جن کی رہنمائی میں اس خطے میں بہت سے کشمیری شاعروں نے ادب کی خدمت کی ۔انہوں نے کہاکہ اردو شاعر رسا جاودانی ،حفیظ جالندھری، سیماب اکبرآبادی، برج نارائن چکبست، پنڈت دتا تریا کیفی وغیرہ ان کے ہم عصر شاعرتھے۔ ان بڑے ادیبوں وشاعروں کے ساتھ رساجاودانی کے بہت اچھے تعلقات تھے جس کی وجہ سے برصغیر میں ان کی اردو شاعری کو عبدالرحیم راتھر نے بھی پسند کیا۔پروفیسر شاد رمضان، سابق سربراہ شعبہ کشمیر، کشمیر یونیورسٹی نے تقریب کی صدارت کی۔انھوں نے اپنے خطاب میںرسا جاودانی کو 20ویں صدی کا ایک اعلیٰ ترین شاعر قرار دیا جس نے رسول میر کے بعد کشمیری زبان کو ایک نئی جہت دی۔ وہ کشمیری زبان کے واحد شاعر ہیں جنہوں نے غزلیں لکھیں۔ غزل لکھنے کی صورت حال کو مدنظر رکھتے ہوئے ’کلیات رسا جاودانی‘میں شامل شاعری میں محبت، باہمی افہام و تفہیم، فرقہ وارانہ ہم آہنگی اور بھائی چارے کا پیغام دیا گیا ہے۔بشیر بھدرواہی، شاہتیہ اکیڈمی ایوارڈ یافتہ، مہمان اعزازی نے کچھ یادگار یادوں اورلمحات سے متعلق خیالات کااظہارکیاجو انہوں نے مرحوم شاعر کے ساتھ گزاری تھیں۔ انہوں نے رساجاودانی کو ایک سیکولر شخصیت قرار دیا جس نے زندگی کی حقیقتوں کو اپنی کشمیری اور اردو شاعری میں پیش کیا۔پروفیسر مینا شرما، ڈین پلاننگ جموں یونیورسٹی نے بھی اس موقع پر خیالات کااظہارکرتے ہوئے رسا جاودانی کو زبردست خراج عقیدت پیش کیا۔قبل ازیں پروفیسر شہاب عنایت ملک، صدرشعبہ اُردو اور صدر رسا جاودانی میموریل لٹریری سوسائٹی نے اپنے خطبہ استقبالیہ میں ان مختلف موضوعات پر روشنی ڈالی جنہیں رسا جاودانی نے اپنی کشمیری اور اردو شاعری میں استعمال کیا ہے۔ ان کے مطابق وہ کشمیر کے واحد شاعر تھے جنہوں نے قصیدہ لکھا۔ قصیدہ کی شکل کو مدنظر رکھتے ہوئے کشمیری نقاد محمد یوسف ٹینگ نے رسا جاودانی کو کشمیری زبان کا سب سے قدآور قصیدہ گو قرار دیا ہے۔ قبل ازیں ڈاکٹر شاہنواز قادری اسسٹنٹ پروفیسر اردو اور برج ناتھ بیتاب نے رساجاودانی کی اُردواورکشمیری شاعری کی خصوصیات کواُجاگرکرنے کےلئے ’مقالات پیش کئے۔