سرینگر//ریاست میں’’ این ایچ پی سی‘‘ کے پروجیکٹوں سے متعلق ریکارڑ سے متعلق معلومات کو منکشف کرنے سے انکار کرتے ہو ئے مرکزی انفارمیشن کمشنر نے کہا ہے کہ یہ جانکاری تجارتی نوعیت سے حساس ہے اور کمپنی کے حصص داروں میں غیر ضروری کنفیوژن اور افراتفری پھیلنے کا احتمال ہیں۔ حق اطلاعات کارکن وینکٹیش نائک نے پن بجلی پروجیکٹوں کو واپس خریدنے،تجاویز کے امکانات اور فائلوں کی نوٹنگ سے متعلق مرکزی اور ریاستی سرکار کے درمیان خط و کتابت کی تفصیلات کیلئے رجوع کیا تھا۔ نائک کا کہنا ہے’’جموں کشمیر کی حکومت نے سال2000میں مرکزی حکومت کے ساتھ ایک باہمی یاداشت پر دستخط کئے ،جس میں کہا گیا ہے کہ7پن بجلی پروجیکٹوں کو10برسوں کیلئے فنڈز کے ذرائع،عملدرآمد اور آپریشن کیلئے این ایچ پی سی کو سونپ دیا جائے گا‘‘۔انہوں نے کیس سے متعلق مزید جانکاری فرہم کرتے ہوئے کہا کہ مرکزی اور ریاستی حکومت نے باہمی یاداشت میں اس بات پر اتفاق کیا ہے کہ ان پروجیکٹوں کو واپس ریاست کو سونپنے کیلئے باہمی قابل قبول طریقہ کار کے تحت کام کریں گے۔ونکٹیش نائک نے مرکزی وزارت بجلی کو حق اطلاعات قانون کے تحت عرضی دی تھی،کو این ایچ پی سی لمیٹیڈ کو منتقل کیا گیا،جس نے معلومات دینے سے نکار کیا۔مذکورہ کمپنی نے کہا’’یہ ایک لسٹڈ کمپنی ہے،اور (جانکاری) منکشف ہونے سے حصص داروں میںغیر ضروری خدشات اور کنفیویژن پیدا ہونے کا امکان ہے،اور اس کی وجہ سے این ایچ پی سی کی تجارتی اعتماد سازی کو دھچکہ لگ سکتا ہے‘‘۔ادھر مرکزی انفارمیشن کمیشن سدھیر بھگوا کا ا س سلسلے میں کہنا ہے’’کمیشن سمجھتا ہے کہ عرضی گذارکی طرف سے طلب کی گئی جانکاری،تجارتی اعتبار سے حساس ہے،اور اس کو منکشف کرنے میں کوئی بھی عوامی مفاد کار فرما نہیں ہے،جبکہ مذکورہ پبلک سیکٹر انڈ ٹیکنگ میں حصص داروں کو غیر ضروری طور خدشات پیدا ہونگے‘‘۔ان کہنا تھا کہ طلب کی گئی انفارمیشن حق اطلاعات قانون کے تحت منکشف کرنے کے حوالے سے مستثنیٰ ہیں،اور یہ’’تجارتی اعتماد اور تیسرے فریق کے دائرے میں آتی ہیں۔ انفارمیشن کمیشن کے فیصلے پر سوالیہ انداز میں نائک نے کہا کہ تیسری فریق کی شق اس میں لاگو نہیں ہوتی،کیونکہ جس پبلک اتھارٹی نے حصول معلومات کی درخواست وصول کی اور اس پر مرکزی پبلک انفارمیشن افسر کے زریعے فیصلہ لیا،وہ دوسرا فریق ہے۔انہوں نے کہا ’’ این ایچ پی سی جموں کشمیر کے پن بجلی گھروں سے40فیصد بجلی کی پیدوار حاصل کرتا ہے‘‘۔وینکٹیش نائک نے مزید کہا کہ جموں کشمیر کو12فیصد بجلی مفت میں فرہم کی جاتی ہے،اور این ایچ پی سی کی طرف سے ریاست کو19سے20فیصد بجلی تجارتی قیمتوں پر فروخت کی جاتی ہے۔نائک نے کہا کہ پبلک اتھارٹی کو تیسرا فریق اور جواب دہندہ ماننا قانوناغلط ہے،اور اگر یہ عام روش بنگئی تو،کسی بھی سرکاری دفتر میں سنیئر افسر کسی بھی حق اطلاعات قانون کی درخواست میںتیسرا فریق ہونے کا دعویٰ کرے گا۔حق اطلاعات قانون کے دفعہ11کے تحت اگر کوئی عرضی گزار کسی بھی پبلک اتھارٹی سے تیسرے فریق سے متعلق جانکاری طلب کرتا ہے،تو اس صورت میں متعلقہ افسر کو اس جانکاری کو منکشف کرنے سے قبل اس کا نقطہ نظر لینا ہوتا ہے،تاہم حتمی فیصلہ کا حق متعلقہ افسر کے پاس محفوظ رہتا ہے