معلومات
محمد امین میر
جموں و کشمیر میں زمینوں کی درجہ بندی اور ریونیو سے متعلق اصطلاحات ایک طویل اور تہہ دار تاریخی ورثے کی عکاسی کرتی ہیں۔ یہ ورثہ ریاستی دورِ حکومت، آزادی کے بعد ہونے والی زرعی اصلاحات اور آج کی ڈیجیٹلائزیشن پر مشتمل ہے۔ ان اصطلاحات میں “LB6” اور “S432” خاص طور پر قابلِ ذکر ہیں جو ریونیو ریکارڈز میں اکثر نظر آتی ہیں، لیکن عوام، محققین اور یہاں تک کہ ریونیو اہلکاروں کے لیے بھی یہ کسی معمے سے کم نہیں۔یہ اصطلاحات صرف بیوروکریٹک کوڈز نہیں بلکہ ان کے پیچھے ایک پورا نظریہ، ایک انقلابی عمل اور کسانوں کو بااختیار بنانے کی تاریخ چھپی ہوئی ہے۔ اس مضمون میں LB6 اور S432 زمینوں کی تعریف، تاریخی پس منظر، قانونی حیثیت، اہل و نااہل افراد اور ’’ٹیننٹ ایٹ ول‘‘ (عارضی کاشتکار) کے تصور کو تفصیل سے بیان کیا گیا ہے۔
تاریخی پس منظر: LB6 اور S432 کی ابتدا :
LB6 اور S432کی بنیاد جموں و کشمیر کے زرعی اصلاحاتی قوانین، خاص طور پر 1950 کا ’’بڑی جاگیریں ختم کرنے کا قانون ‘‘اور 1976 کا ’’زرعی اصلاحات ایکٹ‘‘ میں رکھی گئی تھی۔ ان قوانین کا مقصد جاگیرداری نظام کو ختم کرکے زمین کا اصل حقدار—یعنی کاشتکار—کو ملکیت دینا تھا۔LB6 ان زمینوں کو ظاہر کرتا ہے جو اصل کاشتکاروں کو زرعی اصلاحات کے تحت ملکیت میں دی گئیں۔
S432 کا تعلق جموں و کشمیر لینڈ ریونیو رولز کی دفعہ 432 سے ہے، جو خاص طور پر مہاجرین یا عارضی طور پر الاٹ کیے گئے افراد کے ریونیو اندراجات سے متعلق ہے۔
یہ اصطلاحات صرف زمین کی درجہ بندی نہیں بلکہ ایک سماجی تبدیلی کی علامت ہیں، جہاں حکومت نے زمین کے اصل کسان کو مالک بنانے کی کوشش کی۔
LB6 زمین کی تعریف اور مقصد :
ریونیو زبان میں “Lagan Billa 6” کہلانے والی LB6 زمین ان کسانوں کو دی گئی جو زمین کو خود کاشت کرتے تھے اور زرعی اصلاحات کے نتیجے میں انہیں باقاعدہ مالکانہ حقوق دیے گئے۔
قانونی تعریف:LB6زمین وہ ہے جو 1950کے قانون برائے خاتمہ جاگیریں اور 1976کے زرعی اصلاحات ایکٹ کے تحت باقاعدہ کاشتکاروں کے نام منتقل کی گئی۔
مقصد:اس کا بنیادی مقصد ’’زمین اُس کی جو اسے کاشت کرے‘‘ تھا۔ حکومت نے جاگیرداروں سے زمین لے کر ان کسانوں کو دے دی جو برسوں سے اسے کاشت کر رہے تھے۔
اہل افراد:وہ کسان جو اصلاحات کے وقت زمین کی کاشت میں مصروف تھے۔جو کرایہ (لگان) ادا کر رہے تھے اور ریکارڈ میں بطور کاشتکار درج تھے۔
نا اہل افراد:جاگیردار یا وہ افراد جو زمین پر خود کاشت نہیں کر رہے تھے۔وہ لوگ جو بعد میں بغیر اجازت زمین پر قابض ہوئے۔
S432 زمین کی تعریف اور مقصد :
S432 ریونیو رولز کی دفعہ 432کے تحت آتی ہے اور یہ زیادہ تر ان زمینوں سے متعلق ہے جو کسی کو عارضی طور پر کاشت یا قبضے کے لیے دی گئی تھیں لیکن اُن کی ملکیت منتقل نہیں کی گئی۔
قانونی تعریف:S432کی زمین وہ ہے جس پر کسی فرد کو عارضی کاشتکار (Tenant-at-Will) یا عارضی الاٹی کے طور پر درج کیا گیا ہو۔
مقصد:اس کا مقصد مہاجرین یا بے دخل افراد کو وقتی طور پر زمین دینا تھا تاکہ وہ کاشت جاری رکھ سکیں، ممکنہ طور پر بعد میں باقاعدہ الاٹمنٹ کے لیے۔
اہل افراد:پاکستان زیرِ انتظام کشمیر سے آئے مہاجرین یا بے دخل افراد۔وہ افراد جنہیں ریاست نے وقتی طور پر زمین الاٹ کی۔
نا اہل افراد:جو خود زمین پر کاشت نہیں کر رہے تھے۔ جن کے اندراجات غیر قانونی قرار دیے گئے یا زمین سے بے دخل کیے گئے۔
’’ٹیننٹ ایٹ ول‘‘ کون ہوتا ہے؟:
’’ٹیننٹ ایٹ ول‘‘ یعنی عارضی کاشتکار وہ ہوتا ہے جو زمین کسی مالک یا ریاست کی اجازت سے بغیر کسی مقررہ مدت کے استعمال کر رہا ہو۔ اس کی کاشتکاری کسی بھی وقت ختم کی جا سکتی ہے۔جموں و کشمیر زرعی اصلاحات ایکٹ کے مطابق عارضی کاشتکار کو مستقل کاشتکار نہیں سمجھا جاتا اور اسے ملکیت کے حقوق خودبخود حاصل نہیں ہوتے۔تاہم، اگر وہ LB6زمرے میں آ جائے تو اس کی زمین ملکیت میں منتقل ہو سکتی ہے، بشرطیکہ وہ تمام شرائط پوری کرے۔S432 کے تحت ایسا ممکن نہیں، جب تک کہ کوئی قانونی کارروائی ملکیت کی باقاعدہ منظوری نہ دے۔
موجودہ ریونیو ریکارڈز میں صورت حال :
ڈیجیٹل انڈیا لینڈ ریکارڈز ماڈرنائزیشن پروگرام (DILRMP) کے تحت جموں و کشمیر میں ریونیو ریکارڈز کی کمپیوٹرائزیشن ہو رہی ہے، لیکن LB6 اور S432 سے متعلق ریکارڈز میں اب بھی کئی ابہام موجود ہیں۔
موجودہ مسائل:غلط اندراجات:
کئی کاشتکار LB6کے تحت مالک دکھائے گئے ہیں، جبکہ اسی نوعیت کے دوسرے افراد ابھی بھی S432یا بطور کرایہ دار درج ہیں۔
تشریح میں تضاد:مختلف تحصیلوں میں S432کی الگ الگ تشریح کی جا رہی ہے۔
ریگولرائزیشن کی مانگ:ئی افراد عدالت سے درخواست کر رہے ہیں کہ S432 اندراجات کو LB6 میں تبدیل کیا جائے۔
غیر قانونی فروخت:بعض افراد نے ان زمینوں کو بیچ دیا ہے، حالانکہ ان کی ملکیت واضح نہیں تھی۔
قانونی اور پالیسی کی تجاویز :
واضح رہنما خطوط:حکومت کو LB6اور S432میں فرق کو واضح کرنے کے لیے نئی ہدایات جاری کرنی چاہئیں۔
جائزہ کمیٹیاں:ہر ضلع میں خصوصی قانونی کمیٹیاں تشکیل دی جائیں جو S432 زمینوں کی ممکنہ ریگولرائزیشن کا جائزہ لیں۔
ڈیجیٹل ریکارڈز کی اصلاح:جمع بندیاں اور گرداوریوں میں LB6/S432 کی مکمل وضاحت کے ساتھ اندراج ہونا چاہیے۔
قانونی آگاہی:کسانوں اور کاشتکاروں کو ان کے حقوق کے بارے میں آگاہی دی جائے۔
غیر قانونی تبدیلیوں کی روک تھام:ریکارڈ کی جانچ پڑتال کے لیے ایک مؤثر نظام قائم کیا جائے۔
نتیجہ :جموں و کشمیر میں LB6اور S432صرف انتظامی اصطلاحات نہیں بلکہ ایک سماجی انقلاب کی نمائندگی کرتی ہیں۔LB6زمینیں اصلاحات کی کامیابی کی علامت ہیں، جبکہ S432اس جدوجہد کی نشانی ہے جو اب بھی مکمل نہیں ہو سکی۔ریاست اگر زمینوں کے ریکارڈز کو ڈیجیٹل اور شفاف بنانا چاہتی ہے، تو LB6اور S432کی قانونی حیثیت اور ان کے درمیان فرق کو واضح کرنا ناگزیر ہے۔ یہ کام صرف انتظامی نہیں بلکہ تاریخی انصاف کا تقاضا بھی ہے۔
[email protected]