محمد حنیف
جموں و کشمیر، جو اپنی قدرتی خوبصورتی اور ثقافتی تنوع کے لیے مشہور ہے، نے حالیہ برسوں میں صحت کے شعبے میں قابلِ ذکر پیش رفت کی ہے۔ وادی کی برف پوش چوٹیوں سے لے کر جموں کے مصروف میدانوں تک، صحت کا ڈھانچہ تیزی سے جدید خطوط پر استوار ہو رہا ہے تاکہ دور دراز اور متنوع آبادی کی ضروریات پوری کی جا سکیں۔ تاہم، ان کامیابیوں کے ساتھ ساتھ ایسے کئی چیلنجز بھی موجود ہیں جو اس نظام کی مضبوطی اور پائیداری کو آزما رہے ہیں۔
صحت کے میدان میں ایک انقلابی قدم آیوشمان بھارت – پردھان منتری جن آروگیہ یوجنا (AB-PMJAY) کا نفاذ رہا ہے، جو جموں و کشمیر میں نیشنل ہیلتھ مشن کے تحت متعارف کرائی گئی۔ اس اسکیم کے تحت ہر خاندان کو سالانہ پانچ لاکھ روپے تک کا ہیلتھ انشورنس کور فراہم کیا جاتا ہے، جس سے بی پی ایل اور نان بی پی ایل دونوں طبقے مستفید ہو رہے ہیں۔ اس اقدام نے علاج پر آنے والے ذاتی اخراجات میں کمی لائی ہے اور ضرورت مندوں کو اعلیٰ طبی سہولیات تک رسائی دی ہے۔
اسی سلسلے میں سینکڑوں ہیلتھ اینڈ ویلنیس سینٹرز کو آیوشمان آروگیہ مندرز میں تبدیل کیا گیا ہے، جہاں بنیادی صحت کی مکمل سہولیات میسر ہیں۔ ان مراکز نے دور دراز علاقوں تک طبی خدمات پہنچانے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ٹیکنالوجی نے بھی جموں و کشمیر کے جغرافیائی مسائل پر قابو پانے میں کلیدی کردار ادا کیا ہے۔ ای-سنجیوَنی ٹیلی میڈیسن سروس نے دیہی اور پہاڑی علاقوں کے مریضوں کے لیے ایک زندگی بخش سہولت کے طور پر کام کیا ہے، جس کے ذریعے وہ پورے ملک کے ڈاکٹروں سے آن لائن مشورہ حاصل کر سکتے ہیں۔اسی طرح، جن اوشدھی اسکیم کے تحت کم قیمت پر معیاری ادویات کی فراہمی نے عام لوگوں پر مالی بوجھ کم کیا ہے۔
جموں و کشمیر کے صحت کے ڈھانچے کی بنیاد شیرِ کشمیر انسٹیٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز (SKIMS) سرینگر، اور گورنمنٹ میڈیکل کالجز (GMC) جموں و سرینگر جیسے ادارے ہیں، جو تدریسی اور تحقیقی مراکز ہونے کے ساتھ ساتھ تیسری سطح کی طبی خدمات بھی فراہم کرتے ہیں۔اس کے باوجود، خطے کو غیر متعدی امراض (NCDs) جیسے ذیابیطس، ہائی بلڈ پریشر اور دل کی بیماریوں میں تشویشناک اضافے کا سامنا ہے۔ تخمینوں کے مطابق تقریباً 7.8 فیصد آبادی ذیابیطس میں مبتلا ہے جبکہ 10 فیصد افراد پری ڈائبٹک مرحلے میں ہیں۔ یہ امراض اب دیہی علاقوں میں بھی تیزی سے پھیل رہے ہیں۔اسی طرح، ذہنی صحت کے مسائل بھی بڑھ رہے ہیں۔ بے چینی، ڈپریشن اور منشیات کے استعمال جیسے مسائل نے سنگین صورت اختیار کر لی ہے۔ ماہرینِ نفسیات کی کمی کے باعث علاج کے عمل میں رکاوٹیں پیدا ہو رہی ہیں۔
منشیات کے استعمال میں اضافہ، خاص طور پر نوجوانوں میں، ایک بڑے بحران کی شکل اختیار کر چکا ہے۔ حالیہ اعداد و شمار کے مطابق، جموں و کشمیر میں تقریباً 13.5 لاکھ افراد کسی نہ کسی قسم کی نشہ آور لت میں مبتلا ہیں، جن میں سے آدھے سے زیادہ افیونی (opioid) ادویات کے عادی ہیں۔ اس کے نتیجے میں ہیپاٹائٹس اور ایچ آئی وی جیسے امراض کے پھیلاؤ کا خطرہ بھی بڑھ گیا ہے۔اگرچہ نئی میڈیکل کالجز اور اسپتال تعمیر کیے جا رہے ہیں، لیکن تشخیصی سہولیات اور افرادی قوت کی شدید کمی اب بھی موجود ہے۔ اہم آلات جیسے MRI اور CT اسکینرز صرف چند بڑے اسپتالوں تک محدود ہیں، جبکہ ضلعی سطح پر ان سہولیات کی کمی ہے۔ پورے خطے میں صرف دو PET اسکین مراکز (ایک SKIMS اور ایک GMC جموں میں) ہیں، جو 1.3 کروڑ آبادی کے لیے ناکافی ہیں۔
ماہر ڈاکٹروں، نرسوں اور پیرا میڈیکل عملے کی کمی ایک مستقل چیلنج ہے۔ SKIMS جیسے بڑے اداروں میں 60 فیصد عہدے خالی ہیں، جب کہ دیہی مراکز میں تکنیکی عملے کی کمی کے باعث جدید آلات غیر فعال پڑے ہیں۔ان مسائل کے حل کے لیے حکومت نے کئی اصلاحات کا اعلان کیا ہے، جن میں SKIMS میں ایک علیحدہ میڈیکل یونیورسٹی کے قیام کی تجویز بھی شامل ہے تاکہ تمام میڈیکل کالجز کو ایک مربوط تعلیمی و انتظامی نظام کے تحت لایا جا سکے۔ اس کے علاوہ لال دید میٹرنٹی اسپتال اور بون اینڈ جوائنٹ اسپتال سرینگر کی توسیع کا کام بھی جاری ہے۔عوامی صحت سے متعلق آگاہی اور احتیاطی تدابیر کو بنیادی ترجیح دینا ضروری ہے۔ امیونائزیشن، زچہ و بچہ کی صحت، غذائیت اور حفظانِ صحت کے پروگراموں نے نمایاں کامیابی حاصل کی ہے، مگر ان کوششوں کو مزید منظم اور پائیدار بنانے کی ضرورت ہے۔
جموں و کشمیر کا صحت کا شعبہ ایک اہم موڑ پر کھڑا ہے۔ اگرچہ بیمہ، ڈیجیٹل صحت اور بنیادی ڈھانچے میں قابلِ ذکر بہتری آئی ہے، لیکن افرادی قوت، ذہنی صحت، اور منشیات کے بحران جیسے چیلنجز فوری توجہ چاہتے ہیں۔ مستقبل کا راستہ صرف عمارتوں میں نہیں بلکہ بہتر پالیسی، ہمدردی، اور شمولیت پر مبنی نظام میں مضمر ہے۔
( رابطہ۔9419000507)
[email protected]