’’جموں وکشمیر کی شاعرات‘‘ ۔لل دید ؔسے گیتا کوہلی ؔتک ! ڈاکٹر محمد یاسین گنائی کی اپنی نوعیت کی منفرد تصنیف

طارق شبنم

جموںو کشمیر میں ادب کو پروان چڑھانے میں خواتین کے رول کو ہرگز نظر انداز نہیں کیا جا سکتا ،مرد تخلیق کاروں کے ساتھ ساتھ جموں وکشمیر کی خواتین نے بھی ہر صنف میں طبع آزمائی کرکے اپنا لوہا منوایا ہے ۔جس کا اندازہ پیش نظر تصنیف ’’جموںو کشمیر کی شاعرات (لل دید سے گیتا کوہلی تک )‘‘سے بخوبی لگایا جاسکتاہے ۔یہ ڈاکٹر محمد یا سین گنائی کی تصنیف ہے ۔کتاب کی ضخامت کو دیکھ کر ہی اس بات کا اندازہ ہوتا ہے کہ اسے پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لئے مصنف نے کتنی عرق ریزی سے کام کیا ہے ۔سات سو صفات پر مشتمل کتاب کی ابتدا مصنف کی اپنی بات سے ہوتی ہے ،جس میں مصنف نے ہند وپاک کی شاعرات اوران پر لکھی گئی تحقیقی کتب کا ذکر کیا ہے اور جموں وکشمیر میں خواتین شعراء کے حوالے اور کتاب کی اہمیت کے حوالے سے بات کی ہے۔: ’’جموںو کشمیر کی شاعرات کی ادبی خدمات کے حوالے سے زیر نظر کتاب میں لل دید سے گیتا کوہلی تک لگ بھگ تمام چھوٹی بڑی شاعرات کے ناموں کو شامل کرنے کی کوشش کی گئی ہے ۔ریاست میں عورتوں کی شاعری کی عمر 170سال پر پھیلی ہوئی ہے ۔ان شاعرات کے کلام کا جائزہ لیتے وقت اس بات کے پختہ ثبوت مل جاتے ہیں کہ جموں وکشمیر کی شاعرات کسی بھی لحاظ سے مردوں سے کم نہیں ہیں اور نہ ہی کسی لحاظ سے اردو زبان کی دیگر شاعرات سے کم تر درجہ رکھتی ہیں ‘‘ ۔( ص۔18)

مصنف نے برملا طور پر اس بات کا اظہار کیا ہے کہ جموں وکشمیر کی شاعرات کے حوالے سے تسلی بخش تحقیقی کام نہیں ہوا ہے جب کہ جموں وکشمیر کی پہلی شاعرہ کے حوالے سے مصنف لکھتے ہیں کہ ریاست کی پہلی شاعرہ انیسویں صدی میں ملتی ہے اور متضاد شاعرات کو اولین شاعرہ کا تاج پہنا یا گیا ہے، لیکن شاعرات میں اولیت کا تاج بی بی محجوب کے سر رکھنا واجبی بات لگتی ہے ۔ اس کے بعد تقریظ کے عنوان سے ڈاکٹر جوہر قدوسی کا حوصلہ بخش مضمون کتاب کی زینت بنا ہوا ہے جب کہ ڈاکٹر فریدہ تبسم(گلبرگہ) کا دلچسپ مضمون ’’جموںو کشمیر کے شعری کائنات میں شاعرات کی انفرادیت ‘‘بھی شامل اشاعت ہے، جس میں مضمون نگار نے جموںو کشمیر کی چند نامور شاعرات کے حوالے سے عمدہ انداز میں بات کی ہے،آپ یوںطراز ہیں: ’’جموںو کشمیر میں شاعرات کی بہت عمدہ شاعری کی مثالیں موجود ہیں ۔یہاں کی شاعرات نے اپنی شعری تخلیقات کے ذریعے نہ صرف خواتین کے مختلف موضوعات کو قلمبند کیا ہے بلکہ جدید موضوعات اور مسائل کا مشاہداتی اظہار، ظلم و جبر کے خلاف احتجاج کیا ہے ‘‘۔( ص۔31 )

تین ابواب پر مشتمل کتاب کا پہلا باب جموں و کشمیر میں اردو شاعری کے عنوان کے تحت ہے ،جس میں مصنف نے جموں و کشمیر کی شاعری اور اس حوالے سے ہوئے تحقیقی کام خصوصاً جموں کشمیر کے اولین اردو شعرا پرکئی مستند کتابوں کا حوالہ دے کر مٖفصل بات کی ہے : ’’ ریاست کے اولین اردو شعر اء کا سراغ لگانے میں پروفیسر ایاز رسول نازکی نے بھی اہم تحقیقی کام کیا ہے ،ان کے مطابق ریاست کے اردو شاعری کے قدیم ترین شعراء میںمحمود گامی اور رسل میر (1840-70 )کا نام بھی ادب سے لیا جا تا ہے‘‘۔ ( ص۔38)

مصنف لکھتے ہیں کہ ڈاکٹر نذیر آزاد اور محمد یوسف ٹینگ نے بھی رُسل میر پر بہترین تحقیقی کام کیا ہے اور ان کو ابتدائی شعرائے اردو میں شامل کرنا حق بجانب نظر آتا ہے ۔ مصنف کے مطابق مرد شعراء کے مقابلے میں جموں و کشمیر کی خواتین شعراء پر خاظر خواہ تحقیقی کام نہیں ہوا ہے۔آپ لکھتے ہیں: ’’ ایک طرف مردوں میں اگر چہ شوریدہ کاشمیری ،شہ زورکاشمیری ،حامدی کاشمیری،فرید پربتی ،عرش صہبائی جیسے بڑے نام ملتے ہیں لیکن شاعرات میں بہت کم ایسے نام ملتے ہیں جنہوں نے ملکی سطح پر پہچان بنائی ہے ۔عصر حاضر میں رخسانہ جبین ،شبنم عشائی ،فوزیہ نسیم ،روبینہ میر جیسے نام بھی ملتے ہیں ،لیکن محققین و ناقدین کی عدم دلچسپی کے سبب زینت بی بی محجوب ،شہزادی کلثوم ،عائشہ مستور ،عابدہ احمد جیسے بڑے ناموں کے حوالے سے خاطر خواہ تحقیقی کام نہیں ہوا ہے‘‘۔ ( ص۔47)

کتاب کا دوسرا باب ’’وادی کشمیر کی شاعرات ‘‘ تین حصوں پر مشتمل ہے ۔الف،شمالی کشمیر کی شاعرات (کمراز)ب،وسطی کشمیر کی شاعرات (یمراز )ج،جنوبی کشمیر کی شاعرات (مراز)شمالی کشمیر کی شاعرات میں ارنی مال،شبنم عشائی ،قاضی افروزہ،روبینہ قریشی رتبہ،وردہ فاطمہ ،سکینہ اختر،غزالہ انجم اور نگہت نسرین کی حالات زندگی اور شاعری کے حوالے سے دلچسپ مضامین شامل اشاعت ہیں۔ ارنی مال کے حوالے سے بات کرتے ہوئے مصنف لکھتے ہیں : ’’کشمیری شاعرات میں ارنی مال ،لل دید اور حبہ خاتون کے بعد تیسری بڑی شاعرہ ہے اور ان کی شاعری پڑھنے سے زیادہ گانے سے تعلق رکھتی ہے ۔ان کے بیشتر اشعار کشمیری خواتین کوزبانی یادہو چکے ہیں اور اکثر و بیشتر کھیت کھلیانوں میں ان کے کلام کو دہرایا جاتا ہے‘‘ ۔

سال سنگارہ آسم زلن
چہونہ مہ سیت دل تس رلن
وال کنن مہ با لئے (جموں وکشمیر کی شاعرات، ص۔61 )

دوسرے باب کے دوسرے حصے وسطی کشمیر کی شاعرات(یمراز)میں روپہ بھوانی ،پران کشوری ،سوشیلا تکو،شہزادی کلثوم ،عائشہ مستور،سلمیٰ فردوس،عابدہ احمد ،نصرت رشید ،کسم دھر شاردا،صاحبہ شہریار،شفیقہ پروین ،رخسانہ جبین ،پروین راجہ ،نصرت آراچودھری ،فریدہ کول،ترنم ریاض،نسرین نقاش ،درخشاں اندرابی،نگہت فاروق نظر،شبینہ پروین ،حنانہ برجیس حنا،کوثر رسول عذرا حکاک ا ور افروزہ رشید کے بارے میں مضامین شامل اشاعت ہیں ۔ اس باب میں یمراز کے حوالے سے مصنف لکھتے ہیں :’’یمراز میں دیگر خطوں کے مقابلے میں سب سے زیادہ شاعرات ملتی ہیںاور ایسا سرینگر میں آئے دن علمی وادبی مجالس کے سبب ہی ممکن ہے ۔روپہ بھوانی یمراز کی شاعرات کے لئے وہی اہمیت رکھتی ہے جو ارنی مال کمراز کے لئے اور لل دید مراز کے لئے رکھتی ہیں ۔انہی کے نقش قدم پر چل کر یہاں کی شاعرات نے شعری میدان میں قدم رکھنا سیکھا ہے ‘‘۔ ( ص۔107 )۔ اسی طرح روپہ بھوانی کی حالات زندگی اور شاعری کے حوالے طویل مضمون میںمصنف ،محقق ا قبال ناتھ کا حوالہ دیتے ہوئے یوںرقم طراز ہیں : ’’یہ ایک سنت خاتون تھیں ۔اس کے بنائے ہوئے نیم شاعرانہ مقولے کشمیری پنڈتوں میں اب بھی مقبول ہیں ۔ان کا یوم ولادت (1677 بکرمی مطابق 1627 )اور یوم وفات(1777 بکرمی مطابق 1727 )دونوں آج تک بڑی عقیدت سے منائے جاتے ہیں اور بہت سارے کشمیری پنڈتوں کے لئے ایک ’’بڑے دن‘‘کی شکل اختیار کرچکے ہیں ۔اس کی زندگی روایتوں کے رنگ میں اس قدر ڈوبی ہوئی ہے کہ تواریخی نوعیت کی باتیں طے کرنا مشکل ہوگیا ہے ۔ان کے مقولے کیشو بھٹ شاستری نے پہلے اور پھر ڈاکٹر شیو ناتھ شرما نے 2007 بکرمی مطابق1950 میں دیو ناگری خروف تہجی میں شایع کئے۔موخرالذکر مجموعہ کے صفہ 18 پر یہ مقولہ پڑھنے کو ملتا ہے ۔‘‘
اپنے گھر آیا آپ سائیں
جو کچھ میں تھا سو اب نائیں
وہ بودھ آیا گرو کی بڑھائی
جن گرو نے دیاست کا تو بتائی ( ص۔109)

اس باب کے تیسرے حصے ،جنوبی کشمیر کی شاعرات (مراز)میں لل دید، حبہ خاتون ،زینب بی بی محجوب ،سنتوش شاہ ناداں،رخشندہ رشید ،شاہینہ ثانیہ ،فیروزہ مجید ،عتیق صدیقی،شبینہ شبیر ،مدثر لالی ،نگہت صاحبہ ،شبینہ آرا پٹھان ،مصروفہ قادر ،شمیمہ صدیق شمی ،یاسمینہ اقبال خان،روحی جان اور روشن آرا کو شامل کیا گیا ہے ۔اس باب کے ابتدا میں مصنف نے کمراز سے منسلک تینوں اضلاع کی تاریخ اور ادبی منظر نامے کے بارے میں مختصر لیکن عمدہ جانکاری فراہم کی ہے جس میں مصنف لکھتے ہیں : ’’ جہاں تک علمی و ادبی میدان کی بات ہے تو جنوبی کشمیر یا مراز اولین دور سے ہی کافی سرگرم اور زرخیز علاقہ رہا ہے ۔ریاست کی اولین شاعرہ لل دید ہو یا اولین درد غم کی شاعرہ حبہ خاتون یا اولین اردو شاعرہ بی بی محجوب تینوں کا تعلق مراز سے ہی ہے ‘‘۔(ص۔377 )

اس حصے کا پہلا مضمون کشمیری زبان کی بلند پایہ شاعر لل دید کے حالات زندگی اور روحانی کمالات اور شاعری کے حوالے سے مختلف تاریخی حوالوں کے ساتھ ،جس میں مصنف نے لل دید کی زندگی کے مختلف گوشوں پر روشنی ڈالنے کی کوشش کی ہے لیکن اس مضمون کے مطالعے کے بعد تشنگی سی محسوس ہوتی ہے اور ایسا لگتا ہے کہ اس بلند پایہ ہستی پر مزید کام کرنے کی ضرورت ہے ۔یہ اقتباس ملاحظہ فرمائیں : ’’لل دید کی شاعرانہ عظمت ،ر وحانی کمالات اور تانیثی شعور کے بارے میں ذرا بھی اشکال کی گنجائیش نہیں ہے ۔البتہ سات سو سال کی تاریخ کا ذکر کرتے وقت مورخین کے اختلاف کے سبب آج بھی کچھ معاملات میں شک و شبہ نظر آتا ہے ۔لل دید کشمیری میراث ،کشمیریت،کشمیری تہذ یب و تمدن کا ایک عظیم باب ہے اور ان کی زندگی ،کلام اور کمال سے د رجنوں حکائیتیں وابستہ ہیں اور چھان بین کرنا اور ان پرغورو فکر کرکے عام لوگوں تک اصل حقائق پہنچانا منصف مزاج مورخین کا مشغلہ ہے اور اس پر مذہب کی عینک اور جذبات کا چشمہ لگانے سے پرہیز کرنا ضروری ہے ‘‘۔ (ص ۔387)

گورن دوپنم کنوی وزُن
نیبرہ دوپنم اندر ازُن
سوی مے لل گو و وا کھ تہ وزُن
توے ہیو تُم ننگے نزن ( لل دید)

اس حصے کا دوسرا مضمون کشمیر کی دوسری مشہور شاعرہ ہ حبہ خاتون، جس کا اصل نام زون تھا، کے خوالے ہے جس میں مصنف نے تفصیل سے ان کی حالات زندگی اور شاعری کے حوالے سے بات کی ہے اور زون کا یوم ولادت 1541،اور جائے ولادت چند ہارہ ضلع پلوامہ لکھا ہے ۔ایک جگہ مصنف یوں رقم طراز ہیں : ’’حبہ خاتون اگر چہ ملکہ کشمیر کے نام سے تاریخ کشمیر میں ایک اہم کردار کے طور پر جانی جاتی ہے ،وہیں کشمیری زبان میں اپنی درد بھری شاعری سے خاص مقام رکھتی ہے ۔کشمیری شاعری میں لول(محبت)یا عشقیہ شاعری کی ابتدا حبہ خاتون نے ہی کی تھی‘‘ ۔( ص۔394 )
واری وین سہیتی وارہ چھس ننہ
چارہ کرو میون مالنیو ہو (حبہ خاتون)

کتاب کا تیسرا باب خطہ جموں کی شاعرات بھی تین حصوں پر مشتمل ہے ۔وادی چناب کی شاعرات ،پیر پنچال کی شاعرات اور ڈوگرہ دیش کی شاعرات ۔وادی چناب کی شاعرات میں مہتاب بیگم،ہاجرہ بیگم پرواز،گل جبین صبا ،فوزیہ نسیم مغل ضیا،شائستہ مسعود ،سورن کوتوال شمعہ،تمنا منشی،فوزیہ تراگوال فوزاور عائشہ اصلاحی عائشہ کے حوالے سے مضامین شامل ہیں ۔مہتاب بیگم 1902ء میں ضلع ڈوڈہ کے خوبصورت ادبی علاقہ بھدرواہ کے ایک ادبی گھرانے میں پیدا ہوئیں اور اور ایک سو سات سال کی طویل عمر پاکر 2008ء میں انتقال کر گئیں ۔ان کے بارے میں مصنف لکھتے ہیں : ’’مہتاب بیگم ابھی تک کی تحقیق کے مطابق وادی چناب بلکہ پورے خطہ جموں کی پہلی شاعرہ ہے ۔انہوں نے بڑی لمبی عمر پائی اور مئی 2009ء میں ایک سو سات سال کی عمر میں انتقال ہوا تھا ۔وادی چناب ہر لحاظ سے کشمیر سے ملتا جلتا علاقہ ہے اور یہاں کشمیری زبان جاننے والے لوگ رہتے ہیں ،لہٰذامہتاب بیگم نے اپنی سو سالہ زندگی میں کشمیری زبان کا دامن اپنے چمکدار موتیوں سے بھرنے کی کامیاب کوشش کی ہے ‘‘۔(ص۔ 522) اس باب کے دوسرے حصے میں پیر پنچال کی شاعرات جن میں روبینہ میر،ثمینہ سحر مرزا،آسیہ فردوس ماہی ا ور زاہدہ خانم کے تعلق سے مضامین شامل ہیں ۔اس حصے کے ابتدا میں مصنف نے پیر پنچال تاریخ اور ادبی شخصیات کے حوالے سے مختصر جانکاری فراہم کی ہے ،جس کے بعد شاعرات کے حوالے سے مضامین شامل ہیں۔پیر پنچال کی معروف شاعرہ روبینہ میر کے حوالے مصنف لکھتے ہیں کہ ان کی پیدائش 15 اگست1969 ء میں ضلع پونچھ کے چھنہ پانی میں ہوئی ہے اور ان کو شاعری،شہرت اور تہذ یب و تمدن ورثے میں ملی ہے ،ان کے حوالے سے مصنف یوں رقم طراز ہیں : ’’روبینہ نے لگ بھگ تمام شعری اصناف میں طبع آزمائی کی ہے ۔آپ نے حمد ،نعت،منقبت ،غزل،نظم ا ور دیگر اصناف میں طبع آزمائی کی ہے ۔وہ سماجی اور معاشرتی مسائل پر کھل کر لکھتی ہیں۔سبق آمیز شاعری ، عصری مسائل اور مشکلات ،سماجی مذہبی برائیاں،اقبال اور اسلام سے مطابقت ،اسلاف و اسلام سے عقیدت ،شعری اسلوب ،مناظر قدرت اور فطرت انسانی،ظلم و دہشت،،فلسفہ خودی ،اسرار و رموز،عرفان ذات،عقیدت حضرت محمدؐ،محبت اہل بیت رسول ؐ،وفائے صحابہ،قربت اولیااور عورتوں کی مظلومیت و بدحالی ان کے کچھ اہم موضوعات ہیں ۔تا حال ان کے پانچ شعری مجموعے منظر عام پر آچکے ہیں ‘‘۔(ص۔607)

رو لیتے ہیں روضے کی جالی سے لپٹ کر جو
مل جاتے ہیں ایسوں کو غم خوار مدینے میں
دشمنوں سے بھی کیا تو نے جو رحمت کا سلوک
میں بھی ہوں اس کی طلبگار رسول عربی (نعتیہ کلام ۔روبینہ میر)

باب سوم کے آخری حصے میں جموں توی ۔ڈوگرہ دیش کی شاسرات میں پدما سچ دیو،زینت فرد وس زینت،ستارہ نرگس،سدھا جین انجم،نسیم اختر،انو آرتی یاداور گیتا کوہلی عاملہ کے حوالے سے مضامین کتاب کی زینت بنے ہوئے ہیں ۔اس حصے کے ا بتد ا میں بھی مصنف نے ڈوگرہ دیش کی تاریخ اور یہاں کے مشاہیر ادب کے بارے میں مختصر جانکاری فراہم کی ہے ۔آپ لکھتے ہیں کہ ڈوگرہ دیش یا جموں توی میں مختلف زبانیں بولی جاتی ہیں اور اردو ان میں ایک رابطے کی زبان ہے ۔اس حصے کا پہلا مضمون ڈوگری زبان کی مایہ نازشاعرہ پدم شری انعام یافتہ پدما سچ دیو کے حالات زندگی اور شاعری کے حوالے سے ہے جن کا جنم 17 اپریل 1940 ءمیں جموں کے پرمنڈل علاقے میں ہوا تھا ۔ان کے والد پروفیسر جے دیو بدر ایک نامی گرامی سنسکرت پروفیسر تھے ۔ان کا انتقال 4 اگت2021ء کو ہوا تھا ،ان کے بارے میں مصنف لکھتے ہیں : ’’ان کو 2001ء میں پدم شری انعام سے نوازا گیا۔اس سے پہلے سرسوتی ایوارڈ(مدھیہ پردیش)،ساہتیہ اکادمی ایوارڈ1971ء،سوہاد ایوارڈ،کبیرا اعزاز ،کلچرل اکادمی ایوارڈ وغیرہ سے نوازا جا چکا ہے ۔وہ فلموں کے لئے گیت بھی لکھتی تھی اور ان کے شعری مجموعے شایع ہو چکے ہیں جن ’’میری کویتا میرے گیت ‘‘قابل ذکر ہیں۔( ص۔642 )، نمونہ کلام

طلب چھانتی ہے طلب متھ ڈالتی ہے
طلب لاتی ہے تمہیں میرے نزدیک
مجھے تمہارے نزدیک ۔۔۔۔۔۔!

پیش نظر ضخیم کتاب میں لگ بھگ ستر شاعرات کے حوالے سے مضامین پیش کئے گئے ہیںجن میں کئی نامی گرامی شہرت یافتہ شاعرات بھی شامل ہیں ،لیکن ظاہر ہے کہ اس مختصر مضمون میں ہر ایک شاعرہ کے حوالے سے بات کرنا ممکن نہیں ہے۔ اس لئے میں نے ہر حصے کی اس شاعرہ کے حوالے سے بات رکھی جس کا مضمون پہلے نمبر پر تھا اور میں اعتراف کرتا ہوں ،حق تو یہ ہے کہ حق ادا نہ ہوا ۔یہ بھی بتاتا چلوں کہ میری نظروں سے اس نوعیت کی یہ پہلی کتاب گزری ہے ، میں مصنف کو اس قدر محنت سے لکھی گئی ضخیم کتاب کے لئے دل سے مبارک باد پیش کرتا ہوں اور امید کرتا ہوں کہ کتاب کو ادبی حلقوں میں پزیر آئی ملے گی۔
[email protected]
��������������