سرینگر//نیشنل کانفرنس کے جنرل سکریٹری علی محمد ساگر نے جموں وکشمیر میں جاری بدترین بجلی بحران پر زبردست تشویش کا اظہارکرتے ہوئے کہاکہ رمضان المبارک سے قبل حکام نے انتظامات کو حتمی شکل دینے کیلئے بڑی بڑی میٹنگوں کا انعقادکیا اور ایام متبرکہ کے دوران بجلی کی معقول اور مناسب سپلائی کی فراہمی کی یقین دہانی کرائی گئی لیکن ماہ مبارک شروع ہوتے ہی بجلی کی سپلائی پوزیشن خراب ہوئی اور ہر گزرتے دن کیساتھ بد سے بدتر ہوتی گئی اور آج بجلی کی سپلائی پوزیشن نے بحران کی شکل اختیار کرلی ہے۔ ساگر نے کہا کہ نیشنل کانفرنس نکتہ چینی برائے نکتہ چینی میں یقین رکھتی بلکہ ہم ہمیشہ تعمیری تنقید کے حامی رہے ہیں اور ہمیشہ زمینی حقائق کو اُجاگر کرتے آئے ہیں۔ خطہ چناب، پیرپنچال اور وادی کے اطراف و اکناف سے زمینی سطح سے ہمیں جو معمولات حاصل ہورہی ہیں اور میڈیا و ذرائع ابلاغ سے سننے اور دیکھنے کوجو مل رہاہے ، اُس کی بنیاد پر ہم یہ دعوے کیساتھ کہہ سکتے ہیں کہ یہاں کے عوام کو بجلی کے بحران کا سامنا ہے۔ انہوں نے کہا کہ رمضان المبارک میں یہاں کے عوام کو بجلی کے جس بدترین بحران کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے ایسا ماضی میں کبھی بھی دیکھنے کو نہیںملا ہے۔ دن بھر بجلی کی آنکھ مچولی جارہی رہتی ہے لیکن افطار، سحری اور تراویح کے وقت یقینی طور پر بجلی کا آنا جانا شروع ہوجاتا ہے اور یہ صورتحال کسی مخصوص جگہ کی نہیں بلکہ ہر ایک جگہ سے ایسی ہی شکایتیں موصول ہورہی ہیں۔ ساگر نے کہاکہ لیفٹیننٹ گورنر نے بھی رمضان سے قبل حکام کے ساتھ میٹنگ کے بعد اس بات کی یقین دہانی کرائی تھی کہ رمضان میں معقول اورمناسب بجلی دستیاب ہوگی لیکن رمضان میں صورتحال اس کے برعکس دیکھنے کو ملی۔ ایل جی کو متعلقہ حکام سے اس بات کی جوابدہی کرنی چاہئے کہ بجلی کا بحران کیوں جاری ہے۔ انہوںنے کہا کہ صارفین موٹی موٹی بلیں ادا کرتے ہیں، جو صارف گذشتہ برسوں کے دوران 200روپے فیس ادا کرتے تھے وہ آج 700سے زیادہ فیس ادا کرتے ہیں اور جو 700کی فیس ادا کرتے تھے وہ آج 1500، 2000 اور اس سے زیادہ کی بلیں ماہانہ بنیادوں پر ادا کرتے ہیں لیکن اس کے باوجود بھی بجلی کی سپلائی بہتر ہونے کے بجائے بدتر ہی ہوتی جارہی ہے۔ انہوں نے کہاکہ حکومت آئے روز دعویٰ کرتی ہے کہ بجلی پر ہزاروں کروڑ کا خسارہ دیا جارہا ہے ،اگر خسارہ دیا جارہاہے تو پھر بجلی کہاںہے؟