سرینگر//پی ڈی پی صدراورسابق وزیراعلیٰ محبوبہ مفتی نے ریاستی انتظامی کونسل کی طرف سے جموں کشمیر بنک کو پبلک سیکٹر بنک میں تبدیل کرنے کے فیصلے کو ریاست کے خصوصی درجہ کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کئے جانے کی کوششوں کے مترادف قرار دیا ہے۔محبوبہ مفتی نے گورنر ستیہ پال ملک سے کہا کہ وہ فوری طور اپنے فیصلے کو واپس لیں کیونکہ گورنر کو لوگوں نے ایسے فیصلے لینے کااختیار نہیں دیا ہے۔ محبوبہ نے کہا کہ کچھ گنے چنے افسر اور بیروکریٹ ریاست میں دوررس نتایج کے حامل فیصلے نہیں لے سکتے ،ایسے معاملات جمہوری طور برسراقتدار آئی حکومت پر چھوڑنے چاہیے ۔محبوبہ مفتی نے کہا کہ ریاست میںگورنرراج کوئی مستقل انتظام نہیں ہے اورانتظامیہ کو ریاست کے روزمرہ کے معاملات پر توجہ مرکوز رکھنی چاہیے اور دوررس نتائج کے حامل فیصلوں سے اجتناب کرنا چاہیے ۔انہوں نے کہا کہ ایسی کارروائیوں سے لوگوں میں خدشات پیدا ہورہے ہیں ،جو پہلے ہی الگ تھلگ محسوس کررہے ہیں اور ناراض ہیں اورایسی کوششوں کو ناکام بنانے کیلئے ہی پی ڈی پی نے حکومت بنانے کادعویٰ پیش کیا تھالیکن گورنر نے غیر جمہوری طریقے سے اسے ناکام بنایا۔پی ڈی پی صدر نے کہا کہ جموں کشمیرکے خصوصی درجے پر متعددمحاذوں سے حملے کئے جارہے ہیں اور گورنر انتظامیہ جموں کشمیر کے اداروں کوحاصل خودمختاری چھین رہی ہے ۔انہوں نے مزیدکہا کہ جموں کشمیر بنک کو پبلک سیکٹر بنک میں تبدیل کرنا اس گیم پلان کا حصہ ہے اور یہی وجہ ہے کہ پی ڈی پی حکومت بنانے کیلئے کانگریس اور نیشنل کانفرنس کے ساتھ اکٹھی ہوئی تاکہ ایسی مداخلتوں کوروکا جائے۔
فیصلہ بہتری اور شفافیت لانے پر مرکوز:گورنر انتظامیہ
فیصلہ سازی کا اختیار بورڈ آف ڈائریکٹرس کے پاس رہیگا
جموں//گورنر انتظامیہ نے یہ بات واضح کی ہے کہ جموں وکشمیر بینک کے کام کاج اور بورڈ آف ڈائریکٹرس کے اختیارات میں مداخلت کرنے کا حکومت کا کوئی منصوبہ نہیں ہے اور بینک کا نظم و نسق آر بی آئی کے رہنماخطو ط کے مطابق چلتا رہے گا۔اِنتظامیہ نے کہا ہے کہ ریاستی انتظامی کونسل کا حالیہ فیصلہ بینک کے کام کا ج میں مزید بہتری اور شفافیت لانے پر مرکوز ہے ۔ایک سرکار ی ترجمان نے کہا ’’ آر ٹی آئی ایکٹ کو توسیع دینے اور سی وی سی رہنما خطوط کو وسعت دینا بینک کے کام کاج میں بہتری اور شفافیت لانے پر ہی مرکوز ہے کیونکہ یہ ایک بنیادی مالی ادارہ ہے اور اس محاذ پر عوام نے کئی بار سوالات کھڑا کئے ہیں‘‘۔ترجمان کے مطابق ریاستی عوام کے ایک بڑے حصے نے انتظامی کونسل کے فیصلے کو خوش آئند قرار دیتے ہوئے اس فیصلے کی سراہنا کی ہے ۔ترجمان نے کہا’’ چند افراد کی طرف سے ظاہر کئے گئے خدشات کا تعلق بینک کی خود مختاری کے ساتھ ہے‘‘ ۔ترجمان نے واضح کیا ہے کہ ریاستی انتظامی کونسل کے فیصلے کے تین مرکزی اجزا ہیں جن میں جموں وکشمیر بینک کو ایک پبلک سیکٹر انڈر ٹیکنگ تصور کرنا ، بینک کو آر ٹی آئی کے دائرے میں لانا اور بینک کو سی وی سی رہنما خطوط کا پابند بنا کر قانون ساز اسمبلی کے سامنے سالانہ رِپورٹ پیش کرنا شامل ہے‘‘۔ترجمان نے واضح کیا ہے کہ جہاں تک جموں وکشمیر بینک کو پبلک سیکٹر انڈر ٹیکنگ تصور کرنے کاتعلق ہے تو یہ معاملہ ایک منطقی بات ہے ۔ ترجمان نے مزیدکہا’’ چونکہ ریاستی سرکار کے جموں وکشمیر بینک میں60 فیصد حصص ہے لحاظ یہ ادارہ عملی طور ایک پبلک سیکٹر انڈر ٹیکنگ ہے‘‘ ۔ترجمان کے مطابق بینک آر ٹی آئی کے دائرے میں لانے سے اس کے کام کاج میں مزید شفافیت آئے گی۔ترجمان نے کہا ہے کہ جہاں تک سی وی سی رہنما خطوط کی پاسداری کا تعلق ہے تو سرکا ر کے زیر انتظام سبھی بینک ان رہنما خطوط کی پاسداری کرتے ہیں۔ سرکاری ترجمان کے مطابق کے وائی سی کی پاسداری نہ کرنے کے نتیجے میں آر بی آئی نے حال ہی میں جموں وکشمیر بینک پر تین کروڑ روپے کا جرمانہ عائد کیا۔ ترجمان نے مزید واضح کیا ہے کہ ریاستی انتظامی کونسل نے جو بنیادی طور فیصلہ لیا ہے اس کی روسے بینک کو اپنی سالانہ رِپورٹ فائنانس ڈیپارٹمنٹ کے ذریعے ریاستی قانون سازیہ کے سامنے پیش کرنا ہوگی۔ترجمان نے کہا’’ بینک ہر حالت میں اپنی سالانہ رِپورٹ اخباروں اور اپنی ویب سائٹ کے ذریعے ہر سالانہ جنرل میٹنگ کے بعد عوام کے سامنے پیش کرتا ہے‘‘ ۔ترجمان نے کہا ہے کہ چند برس قبل جب بینک کو شدید مالی مشکلات پیش آئی تو حکومت نے 532 کروڑ روپے کی سرمایہ کاری سے بینک کی معاونت کی ۔ترجمان نے مزیدکہا ہے کہ بینک کے کاروبار میں سرکاری بزنس کا ایک بہت بڑا حصہ ہے ۔ترجمان نے مزید کہا ’’ جہاں تک قانون سازیہ کے سامنے جواب دہی کا تعلق ہے تو یہ تمام سرکاری بینکوں کے لئے ایک معمول ہے ۔ ترجمان کے مطابق بینک کی جانب سے لئے جانے والے تجارتی فیصلے قانون سازیہ کے حد اختیار میں نہیں ہے ۔