سرینگر//’’ کاروانِ امن (سرینگرمظفر آباد )بس سروس شروع کرنے میں نہ تو مرحوم مفتی محمد سعید اور نہ ہی اُن کی جماعت پی ڈی پی کا کوئی رول تھا، یہ اقدام اُس وقت کے وزیرا عظم ہند اٹل بہاری واجپائی اور پاکستانی صدر جنرل پرویز مشرف کے درمیان ہوئے مذاکرات اور ملاقاتوں کے بعد کیا گیا اور اس میں کسی حد تک بین الاقوامی دبائو کا بھی عمل دخل تھا‘‘۔ان باتوں کا اظہار نیشنل کانفرنس کے جنرل سکریٹری علی محمد ساگر نے صوبائی سطح کے ایک غیر معمولی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ اجلاس میں صوبائی صدر ناصر اسلم وانی، زونل صدور ایڈوکیٹ محمد اکبر لون، علی محمد ڈار(ایم ایل سی )، ممبرانِ قانون سازیہ ایڈوکیٹ شمیمہ فردوس، عبدالمجید لارمی، شیخ اشفاق جبار، ضلع صدور اور ضلع سکریٹری بھی موجود تھے۔ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے ساگر نے کہا کہ 1999میں نئی دلی اور لاہور کے درمیان شروع کی گئی بس سروس کی کامیابی کے بعد دونوں ممالک نے رشتوں کو استوار کرنے کیلئے دوسری کڑی کے طور سرینگر مظفر آباد بس سروس کا آغاز کیا۔ سرینگر مظفر آباد بس سروس شروع کرنے کی تجویز دونوں ملکوں کے درمیان 2003جاری جنگ بندی معاہدے کے مذاکرات کے دوران رکھی گئی اور اس کیلئے ریاستی حکومت سے رائے تک نہیں لی گئی تھی۔ لیکن پی ڈی پی والے آج تک سرینگر مظفر آباد بس سروس شروع فریبی نعرے لگاتے پھر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ پی ڈی پی اور مرحوم مفتی محمد سعید نے کچھ کیا تو وہ آر ایس ایس اور بھاجپا کے خاکوں میں رنگ بھرنے کے سوا کچھ نہیں تھا۔ پی ڈی پی برابر آج تک اسی مشن پر قائم ہے اور قلم دوات جماعت سے وابستہ ہر ایک ایک فرد جموں وکشمیر میں بھاجپا اور آر ایس ایس کے قدم مضبوط کرنے کیلئے تن دہی سے کام کررہا ہے۔ ساگر نے کہا کہ اخبارات میں اشتہارات چھپوانے سے پی ڈی پی والے اپنے کالے کارناموں، سیاسی انتقام گیری، عوام دشمن اور کشمیر دشمن اقدامات پر پردہ پوشی نہیں کرسکتے۔ انہوں نے کہا کہ پی ڈی پی والے اس وقت کشمیریوں کے مفادات کا برملا سودا کررہے ہیں۔ ایسے افراد کی پشت پناہی کی جارہی ہے جو جموں میں 1947ء دہرانے کی تاک میں ہیں۔ انہوں نے کہا کہ حکمران اتحاد برما کے پناہ گزینوں پر سنگین نوعیت کے بے بنیاد الزامات عائد کرکے مسلمانوں کیخلاف زہرافشائی کررہے ہیں۔ حالانکہ ریاستی عوام بخوبی واقف ہیں کہ یہ بدنصیب پناہ گزین کس نوعیت کی کسمپرسی کے حالت میں زندگی گزار رہے ہیں۔ صوبائی صدر ناصر اسلم وانی نے اپنے خطاب میں حکمران اتحاد کی غلط پالیسی اور غیر دانشمندانہ رویہ کو آڑے ہاتھوں لیتے ہوئے کہا کہ ایسا محسوس ہورہاہے کہ کشمیر میں جان بوجھ کر حالات خراب کئے جارہے ہیں، ایسا کوئی دن نہیں گزرتا جب کہیں کریک ڈائون،گرفتاری ، توڑ پھوڑ اورپبلک سیفٹی ایکٹ کا اطلاق عمل میں نہ لائے جائے۔انہوں نے کہا کہ حکومتی سطح پر نوجوانوں کو خوفزہ اور ہراسان کرکے پشت بہ دیوار کرنے کا تشویشناک سلسلہ جاری ہے۔ آج ہمارا نوجوان بددل اور نالاں ہے۔ افسوس اس بات کا ہے کہ خود وزیر اعلیٰ نوجوانوں کو اعلاناً دھمکیاں دیتی پھر رہی ہیں اور نئے سرے سے بنکر نصب کرنے کے منصوبے بنائے جارہے ہیں۔ ناصر نے کہا کہ پی ڈی پی بھاجپا حکومت کے معرض وجود آنے کے ساتھ ہی ریاست کے حالات دگرگوں ہوگئے اور آج یہاں کے حالات 90ء سے بالکل بھی مختلف نہیں۔ انہوں نے کہا کہ گذشتہ دو سال کے دوران 280عام شہری گولیوں اور پیلٹ گنوں کی بھینٹ چڑ گئے ، جن میں خواتین بھی شامل ہیں، گذشتہ 2سال کے دوران وادی میں 170بار کرفیو کا نفاذ عمل میں لایا گیا، کریک ڈائونوں اور گھر گھر تلاشیوں کا سلسلہ جنوبی کشمیر سے شروع ہوا اور اب اس کا دائرہ پوری وادی تک وسیع ہوگیا ہے، کل ہی سرینگر کے بژھ پورہ اور بڈگام کے مونچھو چاڈورہ علاقوں میں کریک ڈائون کے گھر گھر تلاشیاں لیں گئیں۔انہوں نے کہا کہ یہ ابدتر صورتحال پی ڈی پی حکومت کی حصولیابی ہے۔ اجلاس میںسابق جنرل سکریٹری شیخ نذیر احمد (ایڈوکیٹ) کی تیسری برسی کے پروگرام کو حتمی شکل دی گئی، جو 24فروری کو منائی جارہی ہے۔