ریاست کی نوجوان نسل کیلئے منشیات انتہائی مہلک ثابت ہورہی ہے ،جس نے اب تک کئی نوجوانو ں کی زندگیاں لپیٹ لے لیں اور بڑی تعدادمیں نوجوان بری صحبتوں میں مبتلا ہوکر راہ راست سے بھٹک گئے ۔یہ ایک ایسا سنگین خطرہ ہے جس سے اگر نمٹانہ گیاتویہ معاشرے کو کھوکھلا کرکے رکھ دے گا۔ اس خطرے کا ادراک تب ہوتاہے جب کسی نوجوان کی جان چلی جاتی ہے ۔گزشتہ دنوں پونچھ کی تحصیل مینڈھر میں ایک نوجوان منشیات کے ہتھے چڑھ کر اپنی زندگی گنوابیٹھا جس کے بعد عوامی حلقوں میں زبردست فکر مندی پائی جارہی ہے اور یہ سوالا ت اٹھنے لگے ہیں اگر پولیس کئی برسوں سے منشیات مخالف کارروائیاں کرنے کے دعوے کررہی ہے تو پھر کیا وجہ ہے کہ اس کا دائرہ سکڑنے کے بجائے وسیع ہوتاجارہاہے ۔صرف مینڈھر کی ہی اگر بات کی جائے تو پچھلے چھ ماہ کے دوران منشیات کے طفیل 6نوجوانوں کی اموات واقع ہوچکی ہیں جبکہ اسی طرح سے ریاست کے دیگر علاقوں سے بھی ایسی ہی تشویشناک اطلاعات سامنے آتی رہتی ہیں ۔گزشتہ روز ہی جموں میں پولیس نے یہ دعویٰ کیاکہ منشیات میں ملوث ایک بین الریاستی گروہ کو بے نقاب کرتے ہوئے اس کی تحویل سے ہیروئن برآمد کی گئی ہے جبکہ 7افراد کی گرفتاری بھی عمل میں لائی گئی ہے ۔پولیس کے مطابق جموں میں ا س سال کے ابتدائی پانچ مہینوں میں 205افراد گرفتا رکئے گئے ہیں ۔اسی طرح کے دعوے اس سے قبل بھی کئے جاتے رہے ہیں لیکن منشیات ایسی وبا ہے جو کم ہونے کا نام نہیں لے رہی ۔خاص طور پرخطہ جموں میں اس کا کاروبار تیزی سے پھیل رہاہے اوراس میں پنجاب اور دیگر ریاستوں کے عناصر بھی ملوث پائے جارہے ہیں۔ایک طرح سے اس کے پیچھے ایک منظم گروہ کام کررہاہے جس تک پہنچنے میں پولیس ابھی تک ناکام ہی رہی ہے ۔حالانکہ گزشتہ دنوں ریاستی پولیس کے سربراہ نے یہ انتباہ دیاتھاکہ منشیات کے کاروبار میں ملوث افراد کو پی ایس اے کے تحت گرفتار کیاجائے گااور ان کے خلاف سختی برتی جائے گی لیکن اس سے قبل بھی بدنام زمانہ کہے جانے والے کئی منشیات فروشوں پر پی ایس اے عائد کیاگیاہے جبکہ پولیس احتیاطی طورپر حراست میں لیکر بڑی تعداد میں نوجوانوں کو مخصوص مدت تک کیلئے جیلوں میں بھی رکھ چکی ہے ۔پولیس کی اب تک کارروائیوں سے یہی نتیجہ اخذ ہوتاہے کہ جب تک اس کاروبار سے جڑے سرغنوں پر ہاتھ نہ ڈالا جائےگاتب تک کوئی فائدہ حاصل نہیںہوگا۔ اکا دکا نوجوانوں کو گرفتار کرنے سے کوئی نتیجہ سامنے نہیں آرہا بلکہ ایک نوجوان گرفتار ہوتاہے تو کئی اس کاروبار سے جڑ جاتے ہیں اورابھی تک اس وبا پر قدغن لگانے کے تمام تر منصوبے ناکام ہوچکے ہیں۔اس حوالے سے پولیس کی کارروائیاں ذاتی نوعیت کی ثابت ہورہی ہیں اوریہ جاننے کی کوشش نہیں کی جاتی ہے کہ منشیات میں استعمال ہونے والی اشیاء کہاں سے لائی جارہی ہیں اور اس کے پس پردہ کون لوگ ملوث ہیں ۔سیوک ایکشن پروگرام کے تحت کھیل کود کی سرگرمیوں کا انعقادکرنا،منشیات مخالف کارروائیاں چلانا، اس کاروبار میں ملوث نوجوانوں پر پی ایس اے عائد کرکے انہیں جیلوں میں مقید رکھنا اور روز بہ روز ضبطی کے دعوے کرناتو معمول بن گیاہے لیکن اس دھندے کے اصل ذمہ داروں تک پہنچنے میں مزید کتنا وقت لگے گا۔ضرورت اس بات کی ہے کہ جہاں پولیس سنجیدگی سے اقدامات کرے وہیں سماجی سطح پر بھی اس کے خلاف منظم انداز میں مہم چلائی جائے ۔