عاصف بٹ
کشتواڑ//سال 2010میں شروع کیاگیا کشتواڑ یونورسٹی کیمپس13 سال بعد بھی ابھر نہ سکا انتظامیہ کی عدم توجہی کے سبب آج یونورسٹی کیمپس کی حالت ابتر ہوچکی ہے اور اپنی آخری سانسیں گن رہاہے۔یونورسٹی کیمپس کے افتتاح سے علاقہ کی عوام میں خوشی کا ماحول تھا اور لوگ سوچ رہے تھے کہ اب علاقے کے طلبہ کو گھر کی دہلیز پر ہی بہتر تعلیم میسرہوگی لیکن انتظامیہ کی عدم توجہی کے سبب طلبہ کی مشکلات کم ہونے کی بجاے مزید بڑھ گئے اور یہ بڑا ادارہ اب بند ہونے کے قریب ہے۔ شروعات کے چند سال تک طلبہ کی تعداد برابر رہی لیکن وقت گزرجانے کے ساتھ ساتھ طلبہ کی تعداد بھی کم ہونے لگی اور آج محض 34طلاب اس یونیورسٹی کیمپس میں زیر تعلیم ہیں۔کیمپس میں تین مضامین پڑھائے جاتے ہیں جن میں ایم اے کشمیری ،ایم ایس سی آئی ٹی ، ایم ایس سی جیولاجی و پی جی ڈپلومہ کمپیوٹر اپلی کیشن شامل ہے۔ایم ایس سی جیالوجی کو 2012میں شروع کیا گیا تھا۔اُس وقت بچوں کی اچھی تعداد تھی لیکن چھ سال بعد 2018میں اسے جموں یونورسٹی انتظامیہ نے التوا میں رکھ دیا اور پانچ سال کاعرصہ گزرجانے کے بعد بھی آج تک اسے دوبارہ شروع نہ کیا گیا۔اس وقت محض دو مضامین دستیاب ہیں جن میں ایم اے کشمیری اور ایک ایم ایس سی آئی ٹی شامل ہے۔
ایم اے کشمیر ی کے دو سمیسٹروں میں 11 طلبہ ہیںجبکہ ایم ایس سی آئی ٹی میں23 طلاب ہیں۔ایک ڈپلومہ کورس بھی چل رہاہے جس میں کل ملاکر 34طلاب زیر تعلیم ہیں۔کیمپس میں مزید مضامین متعارف کرنے کی بجائے پہلے سے موجود مضامین کو ہی بند کردیاگیا ہے جس سے طلاب کی تعداد میں بتدریج کمی واقع ہوئی۔ ڈگری کالج کشتواڑ کے چھٹے سمیسٹر کے طلبہ نے کشمیر عظمیٰ کو بتایا کہ یونیورسٹی انتظامیہ کو کشتواڑ کیمپس میں مزید مضامین متعارف کرنے چاہئے تھے تاکہ زیادہ سے زیادہ طلاب کو مقامی سطح پر ہی اعلیٰ تعلیم میسر ہوتی تاہم انہوںنے افسوس کا اظہار کیا کہ اس کے برعکس ایم ایس سی جیالوجی کا مضمون ہی بند کیاگیا حالانکہ شمالی ہند میں یہ واحد مضمون کشتواڑ کیمپس میں پڑھایا جارہاتھا اور اسے بھی نامعلوم وجوہات پر بند کیا گیا۔ اس مضمون سے خطہ چناب کے طلبہ کو روزگار کے مواقعے فراہم ہوتے کیو نکہ خطہ چناب میںاس وقت ہزاروں میگاواٹ کے پاور پروجیکٹ زیر تعمیر ہیں جن میں جیولاجسٹ کی اسامیاں درکار ہیں۔ بابر علی نامی طالب علم نے بتایا کہ انکا تعلق واڑون علاقے سے ہے اور گزشتہ سال انھوں نے اپنی گریجویشن مکمل کی جسکے بعد میں پوسٹ گریجویشن کیلئے داخلہ لینا چاہاتھالیکن کشتواڑ میں پسندکا مضمون دستیاب نہ ہونے کے سبب اب مجبور ہوکر جموں سے باہر داخلہ لینا پڑرہاہے۔ یونورسٹی کیمپس کے ایک عہدیدار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ ایک وقت تھا کہ جب کشتواڑ کیمپس میں گیسٹ فیکلٹی کو بیرونی ممالک سے جیولاجی کے مضامین پڑھانے کیلئے لایا جاتاتھا جسے بچوں کو کافی فایدہ حاصل ہوالیکن گزشہ پانچ سال سے یہ بند پڑا ہوا ہے۔انکاکہناتھا کہ یونیورسٹی کیمپس میں 50فیصد بچے مقامی ہیں جبکہ نان ٹیچنگ عملہ بھی مقامی ہے ، کوئی بھی مستقل ٹیچنگ عملہ یونیورسٹی کیمپس میں دستیاب نہیں ہے ۔مقا می لوگوں نے بتایا کہ یونورسٹی کیمپس کی موجودہ حالت کیلئے سیاستدانوںکوذمہ دار ٹھہراتے ہوئے کہا کہ یہ کیمپس سیاست کا شکار ہوا،اگرمقامی سیاست دان و لوگ چاہتے تو یونیورسٹی کیمپس کے حالات بہتر ہوسکتے تھے ۔ڈگری کالج کشتواڑ کی پرنسپل جیوتی بالا نے بتایا کہ اگر انتظامیہ کشتواڑ ڈگری کالج میں پوسٹ گریجویشن کے مضامین لانے کے بجائے یونیورسٹی کیمپس میں دئے جاتے تو مقامی طلبہ بھی اسکا فائدہ لے سکتے تھے اور اپنی تعلیم جاری رکھ سکتے تھے۔انہوںنے کہا کہ انتظامیہ کو اس پر نظرثانی کرنی چاہئے اور کشتواڑکیمپس میں مزید مضامین متعارف کرانے چاہئیں۔یونیورسٹی کیمپس کی ایک عمارت 2016میں مکمل ہوئی تھی جہاں اسوقت دفاتر و کلاسز چل رہے ہیں لیکن دیگر دو عمارتیں گزشتہ سات سال سے مکمل نہ ہوسکیں اور کروڑوں روپے خرچ کرنے کے بعد بھی ناقابل استعمال ہیں جہا ںسیکورٹی فورسزگزشتہ کئی سالوں سے ڈیرہ جمائے بیٹھے ہیں۔چندہ ماہ قبل ان عمارتوں میں فوڈ کارپوریش کا گودام منتقل کرنے کی بھی بات ہورہی تھی۔ مقامی لوگوں نے لیفٹیننٹ گورنر انتظامیہ سے مداخلت کی اپیل کی اور کشتواڑ کیمپس میں مزید مضامین متعارف کرانے کا مطالبہ کیا تاکہ یونورسٹی کیمپس کشتواڑ دوبارہ اپنی شان و شوکت بحال کرسکے۔