کولگام// نیشنل کانفرنس نائب صدر عمر عبداللہ نے جماعت اسلامی پر پابندی کو پی ڈی پی اور بھاجپا کے درمیان فکسڈ میچ قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جماعت اسلامی پر پابندی دونوں پارٹیوں کی ملی بھگت ہے تاکہ بھاجپا اس کا ڈھنڈورا پیٹ سکیں اور پی ڈی پی وادی میں اس پر وایلا کرسکیںتاکہ دونوں جماعتیں فائدہ حاصل کرسکیں۔عمر عبداللہ نے مزید کہا ہے کہ ریاست میں بعض خود غرض افسران جمہوریت کا گلا گھونٹ رہے ہیں۔ عمر عبداللہ نے ایک ٹویٹ میں کہا ’ایک دن اُن افسروں کے بارے میں بات کریں گے جو اپنے ذاتی مفادات کیلئے یہاں جمہوریت کا گلا دبا رہے ہیں‘۔انہوں نے کہا کہ جو افسران ریاست میں فوری انتخابات کے حق میں ہیں، انہیں ڈرایا دھمکایا جارہا ہے۔عمر عبداللہ نے کہا کہ کسی بھی ایماندار افسر کو دھمکیوں سے خوفزدہ نہیں ہونا چاہئے اور ہمیں اپنے ذاتی مفادات پر عوامی مفادات کو ترجیح دینی چاہئے۔انہوں نے کہا کہ جولوگ افسروں کو دھمکیاں دے رہے ہیں ریاست میں ان کی مدت کار بہت کم ہے۔دمہال ہانجی پورہ نورآباد میں ایک عوامی اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے عمر نے کہا کہ’جب بھی یہاں مرکز کا کوئی قانون لاگو ہوا تب یہاں نیشنل کانفرنس کی حکومت نہیں تھی، یہاں جی ایس ٹی ، سرفیسی ایکٹ اور فوڈ ایکٹ لگا کیونکہ نیشنل کانفرنس کی حکومت نہیں تھی، NIAکے مقدمے چل رہے ہیں کیونکہ نیشنل کانفرنس کی حکومت نہیں تھی، میں یہاں تک کہوں گا کہ جماعت اسلامی پر پابندی لگی کیونکہ نیشنل کانفرنس کی حکومت نہیں تھی‘‘۔ انہوں نے کہا کہ میں بھی 6سال تک وزیر اعلیٰ رہا، اگر جماعت اسلامی پر پابندی لگانا ہی اس ریاست کو مشکل سے نکالنے کا راستہ تھا تو مجھے وہ راستہ اپنانے کی ضرورت کیوں نہیں پڑی۔
جب 2010میں حالات خراب ہوئے، ہم نے حالات کو دوبارہ حالات کو پٹری پر لایا لیکن ہم نے جماعت پر کوئی روک نہیںلگائی، اُن کے سکول چلے، تمام ادارے چلے اور اُن کے لیڈر بھی میدان میں سرگرم رہے۔ عمرنے کہا کہ پی ڈی پی صدر نے ایک نیا ڈرامہ شروع کیا ہے کہ ’میرے خلاف FIRدرج کرکے مجھے گرفتار کیا جائے ‘، ’’محبوبہ جی یہ بھی بتادیںکہ کس بات کی گرفتاری؟ آپ کو کس الزام میں گرفتار کیا جائیگا؟ یا تو اندر اندر سے کوئی فکسڈ میچ چل رہا ہے، مجھے تو لگتا ہے کہ جماعت اسلامی پر پابندی بھی اندر اندر سے میچ فکسنگ ہی ہے، جماعت پر شائد اس لئے پابندی لگائی گئی ہے تاکہ بھاجپا ملک میں کہیں کہ ہم کتنی سختی کررہے ہیں جبکہ پی ڈی پی والے وادی میں اس اقدام کو زیادتی قرار دے، اس کیخلاف احتجاج کرے، جلوس نکالے اور گرفتاریاں دیں تاکہ لوگوں کے ذہن سے حکمرانی کے دوران اپنے کالے کارناموں کو مٹاسکیں‘‘۔عمر عبداللہ نے کہا کہ محبوبہ مفتی کی نئی لن ترانیاں محض الیکشن کا ایک نیا ڈرامہ ہے ، لوگ ان کی اصلیت 2015اور 2018کے درمیان دیکھ چکے ہیں۔
عمر عبداللہ نے پی ڈی پی سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا کہ ’’دوسروں پر الزام عائد کرنے پہلے آپ اپنے گریباں میں جانکیں، جنوبی کشمیر کو خون کا اکھاڑا پی ڈی پی کی حکومت نے بنایا، 2014تک نیشنل کانفرنس کی حکومت کے دوران جنوبی کشمیر میں خوف و دہشت کا ماحول نہیں تھا، یہاں تو حالات بالکل ٹھیک تھے، یہاں ملی ٹنسی کا کوئی رجحان نہیں تھا، یہاں آئے روز انکائونٹر اور جنگجو نہیں مارے جاتے تھے، یہاں آپریشن آل آئوٹ، کریک ڈائون، گرفتاریاں اور CASO کا کہیں نام و نشان نہیں تھا ، یہ سب تو محبوبہ جی کی حکمرانی میں یہاں کے لوگوں کو دیکھنے کو ملا۔ آپ آج آنسو بہا کر کس کو دھوکے میں رکھنا چاہتی ہو؟‘‘۔ انہوں نے کہا کہ پی ڈی پی صدر آج کہتی ہیں کہ فورسز کی طرف سے سختی نہیں ہونی چاہئے، جب بیروہ میں ایک نوجوان ووٹر کو فوج کی جیپ کے ساتھ باندھ کو درجن بھر گائوں سے گمایا گیا، تب محبوبہ جی کو سختی نظر کیوں نہیں آئی؟ تب محبوبہ جی کی ہمدردیاں کہاں تھیں؟حد تو یہ ہے کہ اس نوجوانوں کے حق میں جب انسانی حقوق کمیشن نے 10لاکھ روپے معاوضے کا اعلان کیا تو محبوبہ مفتی جی نے وہ بھی رکوا دیئے اور آج محبوبہ مفتی پھر سے کہتی ہے کہ اُن پر بھروسہ کیا جائے۔اس موقعے پر سابق سپیکر خواجہ ولی محمد ایتو کی 25ویں برسی پر زبردست خراج عقیدت پیش کیا گیا۔اُن کے مقبرہ پر صبح سویرے ہی قرآن خوانی، فاتحہ خوانی اور گل باری کی گئی۔