ندیم خان ،بارہمولہ
اس زمین کے وجود میں آنے کے ساتھ ہی یہاں جغرافیائی تغیراتی اور موسمی تبدیلیاں رونما ہوتی رہی ہیں۔ زمینی تاریخ ہولناک قدرتی آفات سے بھری پڑی ہے، کبھی زلزلے، تو کہیں سیلاب، کہیں طوفان تو دوسری جانب سونامی اور بہت سی آفات نے شہروں کے شہر صفحہ ہستی سے مٹا کر رکھ دیئے،اور بحیثیت مسلمان ہمارا یہ عقیدہ ہے کہ اس کائنات میں جو کچھ ہوتا ہے، اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہی ہوتا ہے۔ اس لیے یہ سوال کہ یہ آفات وبلیات، زلزلہ وسیلاب کون لایا ہے؟ بہ ظاہر غیر ضروری معلوم ہوتا ہے، لیکن اس کی ضرورت اس لیے محسوس ہوئی کہ بعض دانشوروں کی طرف سے کھلے بندوں یہ کہا جا رہا ہے کہ زلزلہ اور سیلاب کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے تنبیہ یا سزا سمجھنے کی بجائے فطری قوانین اور نیچرل سورسز کی کارروائی سمجھا جائے کہ ایسا ہمیشہ ہوتا آیا ہے اور نیچرل سورسز کے حوالے سے یہ معمول کی کارروائی ہے۔ مگر ہم مسلمان اللہ تعالیٰ پر ایمان رکھتے ہیں اور ہمارا عقیدہ ہے کہ کائنات میں کسی درخت کا ایک پتّہ بھی اُس کی مرضی کے بغیر حرکت نہیں کرتا۔اجتماعی زندگی میں طوفان، زلزلے، سیلاب، وبائیں، فسادات، لڑائیاں اور دوسری بہت سی بلائیں جو ہزاروں، لاکھوں، کروڑوں انسانوں کو اپنی لپیٹ میں لے لیتی ہیں۔ ان آفات کے نازل کرنے کی مصلحت یہ بیان کی گئی کہ بڑے عذاب میں مبتلا ہونے سے پہلے ہی لوگ ہوش میں آجائیں اور اس طرز فکروعمل کو چھوڑ دیں، جس کی پاداش میں آخر کار انہیں وہ بڑا عذاب بھگتنا پڑے گا۔ دوسرے الفاظ میں اس کا مطلب یہ ہے کہ دنیا میں اللہ تعالیٰ نے انسان کو بالکل بخیریت ہی نہیں رکھا ہے کہ بالکل آرام اور سکون سے زندگی کی گاڑی چلتی رہے اور آدمی اس غلط فہمی میں مبتلا ہوجائے کہ اس سے بالاتر کوئی طاقت نہیں ہے جو اس کا کچھ بگاڑ سکتی ہو۔
حال ہی میں ترکی اور ملک شام میں شدیدزلزلوں نے چاروں طرف بھیانک تباہی مچادی ہے،کافی جانی و مالی نقصان ہوچکا ہے ،انسانی ہلاکتوں کی تعدادتقریباًپچاس ہزار کے قریب پہنچ چکی ہے ۔ لاکھوں لوگ زخمی ہوئے ہیں، جبکہ سیکڑوں لوگ اب بھی ملبے میں دبے ہوئے ہیں اور مرنے والوں کی تعداد میں اضافے کا امکان ہے۔ راحت اور بچاؤ کاروائیاں جاری ہیںاور دونوں ملکوں میںتباہ شدہ بلڈنگوں کے ملبے کو ہٹانے کی کوششیں جاری و ساری ہیں،شہر اور قصبے کھڈرات میں تبدیل ہوچکے ہیں۔ 6 فروری کو ترکی اور ملک شام میں آئے اس زلزلے کی ریکٹر اسکیل پر شدت 7 اعشاریہ 8 ریکارڈ کی گئی تھی،ایک اندازے کے مطابق اس تباہ کن زلزلے نے پچاس لاکھ لوگوں کو بے گھر بنادیا ہے۔یا د رہے کہ لگ بھگ85سال یعنی 1939 کے بعد ترکی میں آنے والا یہ بھیانک و تباہ کُن زلزلہ سب سے جان لیوا زلزلہ ہے۔ ترکی ملک شام ، لبنان ، قبرص اور اسرائیل میں بھی لاکھوں لوگوں نے اس زلزلے کے جھٹکے محسوس کئے، ڈنمارک اور گرین لینڈ میں بھی زلزلے کی شدیدلرزش محسوس کی گئی تھی۔
ترکی اور ملک شام کو چھوڑ کر یہاں ہم نے جانی نقصان اور شدت کے اعتبار سے تاریخ کے خطرناک اور بدترین زلزلوں کی ایک فہرست مرتب کی ہے،جوکہ مندرج ذیل ہے۔
23 جنوری1556 :تاریخ کا بدترین زلزلہ چین میں 23 جنوری 1556 کو آیا تھا جس میں 8 لاکھ 30 ہزار افراد لقمۂ اجل بن گئے تھے۔ اس زلزلے کی ریکٹر اسکیل پر شدت آٹھ ریکارڈ کی گئی تھی۔ زلزلے سے متاثرہ علاقوں کے تقریباً تمام مکان تباہ ہو گئے تھے اور بہت سے علاقوں میں ایک دیوار بھی سالم نہیں بچی تھی۔
12 جنوری 2010 : ہیٹی میں 2010 میں آنے والا زلزلہ بھی تباہی کی المناک داستانیں رقم کر گیا تھا۔ اس زلزلے سے کم از کم تین لاکھ 16 ہزار افراد ہلاک اور 3 لاکھ سے زائد زخمی ہو ئے تھے۔ ریکٹر اسکیل پر اس کی شدت 7 بتائی جاتی ہے۔ اس ہولناک زلزلے سے جنوبی ہیٹی اور پورٹ آپرنس ایریا کو سب سے زیادہ نقصان پہنچا تھا جہاں 97 ہزار 294 گھر تباہ اور تقریباً دو لاکھ گھروں کو نقصان پہنچا تھا جبکہ تقریباً 13 لاکھ افراد بے گھر ہو گئے تھے۔
27 جولائی 1976 :چین میں 1976 میں آنے والے اس زلزلے میں سرکاری اعدادو شمار کے مطابق 2 لاکھ 42 ہزار 769 افراد جان کی بازی ہار گئے تھے، تاہم غیر سرکاری اعداد و شمار کے مطابق اس زلزلے میں ہلاک ہونے والوں کی تعداد ساڑھے چھ لاکھ سے زائد جبکہ تقریباً آٹھ لاکھ افراد زخمی بھی ہوئے تھے۔ اس زلزلے نے چین کے دارالحکومت بیجنگ تک تباہ کاریاں مچائی تھیں۔
26 دسمبر 2004:انڈونیشیا کے جزیرے سماٹرا پر آنے والے اس زلزلے کو 1900 کے بعد آنے والا تیسرا بڑا اور 1964 میں الاسکا میں آنے والے زلزلے کے بعد سب سے بڑا زلزلہ قرار دیا جاتا ہے، زلزلے اور سونامی جس سے انڈونیشیا سمیت جنوبی ایشیا اور مشرقی افریقہ کے متعدد ممالک کو نقصان پہنچا تھا، اس سے 2 لاکھ 27 ہزار 898 افراد ہلاک یا لاپتہ ہو گئے تھے جبکہ تقریباً 17 لاکھ بے گھر ہو گئے تھے۔ ریکٹر اسکیل پر اس زلزلے کی شدت 9.1 بتائی گئیں
16 دسمبر 1920 : چین کے علاقے ننگ سیا میں 7.8 شدت کے اس زلزلے میں 2 لاکھ افراد ہلاک ہو گئے تھے اور صرف ہائی اوان کاؤنٹی میں 73 ہزار سے زائد افراد جان کی بازی ہار گئے تھے۔ لانج اور ہوئننگ کے شہروں میں تقریباً تمام مکان مکمل طور پر تباہ ہو گئے تھے جبکہ سات صوبوں کو شدید ترین نقصان پہنچا تھا۔ یہ خوفناک زلزلہ مغرب میں کانسو زلزلے کے نام سے مشہور ہے۔
یکم ستمبر 1923 :جاپان میں آنے والے اس زلزلے سے دارالحکومت ٹوکیو اور یوکوہاما کو شدید نقصان پہنچا تھا اور زلزلے کے نتیجے میں لگنے والی آگ سے ان دونوں شہروں میں موجود تقریباً سات لاکھ مکانوں میں سے چار لاکھ نذر آتش ہو گئے تھے، گریٹ ٹوکیو ارتھ کوئیک کے نام سے مشہور اس زلزلے کی ریکٹر اسکیل پر شدت 7.9 تھی اور اس میں ایک لاکھ 42 ہزار افراد لقمہ اجل بن گئے تھے۔
5 اکتوبر 1948 : 1948 میں ترکمانستان کے علاقے اشک آباد میں تباہی پھیلانے والے اس زلزلے میں ایک لاکھ دس ہزار افراد ہلاک ہوئے تھے، ریکٹر اسکیل پر اس کی شدت 7.3 تھی۔ اس کےنتیجے میں اینٹوں کے بنے تمام گھر زمین بوس جبکہ کنکریٹ کی بنی عمارتوں کو بھی شدید نقصان پہنچا تھا۔ اس قدرتی آفت سے ایران کے کچھ علاقوں کو نقصان پہنچنے کے ساتھ ساتھ وہاں متعدد افراد ہلاک بھی ہوئے تھے۔
12 مئی 2008 : چین میں آنے والے اس تباہ کن زلزلے سے 87 ہزار 587 افراد ہلاک ہو گئے، زلزلے سے سب سے زیادہ تباہی چینگدو لیزیان گوانگ یان کے علاقے میں ہوئی تھی۔ جبکہ مجموعی طور پر دس صوبوں میں ساڑھے چار کروڑ سے زیادہ افراد متاثر ہوئے تھے۔ 7.9 شدت کے اس زلزلے سے پچاس لاکھ سے زائد افراد بے گھر، 53 لاکھ عمارتیں تباہ جبکہ دو کروڑ عمارتوں اور تین ڈیموں کو نقصان پہنچا تھا۔ اس زلزلے کے نتیجے میں ہونے والے نقصان کا تخمینہ 86 ارب امریکی ڈالر لگایا گیا تھا۔ بیچوان، ڈی جوانگ یان، وولونگ اور ینگ زیو کے علاقے مکمل طور پر تباہ ہو گئے تھے۔
8 اکتوبر 2005 : 2005 میں پاکستان کے شمالی علاقہ جات میں آنے والے اس قیامت خیز زلزلے میں 86 ہزار افراد ہلاک اور 70 ہزار سے زائد زخمی ہو گئے تھے۔ جبکہ 7.6 شدت کے اس زلزلے سے سب سے زیادہ متاثر پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کا علاقہ مظفر آباد سب سے زیادہ متاثر ہوا تھا، جہاں متعدد گاؤں صفحہ ہستی سے مٹ گئے تھے۔ اس زلزلے سے پاکستان سمیت ہندوستان، چین، افغانستان، ایران اور جنوبی ایشیا کے بہت سے ملکوں میں بھی نقصان پہنچا تھا۔متاثرہ علاقوں میں تباہی کے اثرات آج بھی دیکھے جا سکتے ہیں جبکہ متعدد افراد آج بھی بےیارو مددگار ہیں۔
28 دسمبر 1908 :اٹلی میں آنے والے اس زلزلے اور سونامی کے نتیجے میں میسینا کی 40 فیصد اور ریگیو دی کیلیبریا کی 25 فیصد آبادی موت کی نیند سو گئی تھی۔ اس زلزلے سے مجموعی طور پر 72 ہزار سے زائد افراد ہلاک ہوئے تھے جبکہ ریکٹر اسکیل پر اس کی شدت 7.2 ریکارڈ کی گئی تھی۔
22 مئی 1960 : شدت کے اعتبار سےزلزلے:
چلی میں آنے والا یہ زلزلہ اب تک ریکارڈ کردہ شدید ترین زلزلہ ہے جس کی ریکٹر اسکیل پر شدت 9.5 ریکارڈ کی گئی تھی، اس کے ساتھ ساتھ چلی سمیت ہوائی، جاپان، فلپائن، مشرقی نیوزی لینڈ، جنوبی مشرقی آسٹریلیا اور الاسکا کے ساحلوں پر سونامی بھی ریکارڈ کیا گیا تھا۔ مجموعی طور پر اس آفت میں ہونے والی ہلاکتوں کی تعداد ڈھائی ہزار سے چھ ہزار کے درمیان بتائی جاتی ہے جبکہ اس میں ہونے والے نقصان کا تخمینہ 2010 کے لحاظ سے 5.8 ارب ڈالر تک لگایا گیا تھا۔
28 مارچ 1964 :گریٹ الاسکا ارتھ کوئیک کے نام سے مشہور زلزلہ شدت کے اعتبار سے تاریخ کا دوسرا بدترین زلزلہ قرار دیا جاتا ہے، جس کی شدت 9.2 ریکارڈ کی گئی تھی۔ اس زلزلے کے باعث زمین اپنی جگہ سے 11 میٹر تک بلند ہوئی تھی جبکہ سمندر میں آنے والے سونامی کے نتیجے میں 67 میٹر بلند لہریں ریکارڈ کی گئی تھیں۔ الاسکا زلزلے میں 128 افراد ہلاک اور اس میں 311 ملین ڈالر کا نقصان ہوا تھا۔
26 دسمبر2004 :انڈونیشیا کے جزیرے اور ایشیائی ساحلوں پر آنے والا یہ زلزلہ اور سونامی فہرست میں تیسرے نمبر پر ہے جس کی شدت 9.1 ریکارڈ کی گئی تھی۔
4 نومبر 1952 :اس زلزلے کا مرکز جزیرہ نما روس کا آتش فشاں تھا لیکن اس سے سب سے زیادہ تباہی ہوائی کے جزیرے پر آئی تھی۔ ریکٹر اسکیل پر 9 شدت کے اس زلزلے سے حیران کن طور پر کوئی جانی نقصان نہیں ہوا تھا لیکن اس سے لاکھوں ڈالر مالی نقصان ہوا تھا۔
13 اگست 1868 اور 26 جنوری 1700 : مختلف ادوار میں آنے والے ان دونوں زلزلوں کی شدت بھی 9 تھی۔ 1868 میں پیرو(جو اب چلّی کا حصہ ہے) میں اس زلزلے سے نقصان پہنچا تھا،جنوبی امریکہ کی طرح ہوائی میں بھی تباہی ہوئی تھی جس سے ایریکیوا شہر تباہ ہو گیا تھا جبکہ 25 ہزار سے زائد لوگ مارے گئے تھے۔
سن 1970 میں آنے والا زلزلہ براعظم شمالی امریکہ کی تاریخ کا شدید ترین زلزلہ تصور کیا جاتا ہے اور اس میں ساحلی علاقے پچینا کی آبادی مکمل طور پر پانی کی نذر ہو گئی تھی۔
27 فروری 2010 : چلی میں آنے والے اس زلزلے کی شدت ریکٹر اسکیل پر 8.8 نوٹ کی گئی تھی۔ اس آفت میں 521 افراد ہلاک، 12 ہزار زخمی اور آٹھ لاکھ سے زائد بے گھر ہو گئے تھے، اسے سولہویں صدی کے بعد خطے کا سب سے بڑا زلزلہ قرار دیا گیا تھا اور اس میں 30 ارب ڈالر نقصان کا تخمینہ لگایا گیا تھا۔
13 جنوری1906 : ایکواڈور اور کولمبیا میں بھی گزشتہ صدی کے چھٹے سال میں 8.8 شدت کا زلزلہ آیا تھا، اس کے نتیجے میں آنے والے سونامی سے 500 جبکہ سان فرانسسکو کے ساحلی علاقوں میں ڈیڑھ ہزار افراد جان سے ہاتھ دھو بیٹھے تھے جبکہ لاکھوں ڈالرز کا نقصان بھی ریکارڈ کیا گیا تھا۔
یکم نومبر 1755 : پرتگالی دارالحکومت لسبن میں اس زلزلے میں شہر کی تقریباً ایک چوتھائی آبادی ہلاک ہو گئی تھی اور ریکٹر اسکیل پر اس کی شدت 8.7 ریکارڈ کی گئی ہے۔ اس کے نتیجے میں شمالی افریقہ، فرانس اور شمالی اٹلی میں سونامی بھی آیا تھا۔
15 اگست 1950 :آسام اور تبت علاقے میں تباہی پھیلانے والے اس زلزلے کی شدت بھی 8.8 تھی، اس سے سب سے زیادہ تباہی ہندوستانی ریاست آسام میں ہوئی تھی، جبکہ تبت میں 70 گاؤں کا نام و نشان تک باقی نہیں رہا تھا۔ زلزلے اور لینڈ سلائیڈنگ سے اس خطے میں ڈیڑھ ہزار سے زائد افراد موت کی ابدی نیند سو گئے تھے۔ اس زلزلے کے بعد متعدد سیلاب آئے تھے جبکہ آٹھ دن بعد ایک جھٹکے سے دریائے سبان سری پر واقع ڈیم ٹوٹ گیا تھا۔ جس کے نتیجے میں سات میٹر بلند لہرے وجود میں آئی تھیں جو بہت سے گاؤں بہا لے گئی تھی۔مسلمانوں کو چاہئے کہ ایسے حالات کو سُن کر یا دیکھ کر توبہ و استغفار کریں،اپنے جرائم اور بداعمالیوں پر نظر ڈالیں، اپنی زندگی کو بدلنے کی کوشش کریں، امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا اہتمام کریں۔
رابطہ/6005293688
[email protected]