مسعودہ وانی
ہم سب جانتے ہیں کہ تعلیم ہر انسان کا بنیادی حق ہے، اس حق کو انسان سے چھینا نہیںجا سکتا۔ہم اس بات سے بھی واقف ہیں کہ ’’تعلیم کا حق‘‘ 86 آ ئینی ترمیم ایکٹ 2002 نے ہندوستان کے آئین میں آ رٹیکل 21-A داخل کیاہے، جس یہ بات واضح کی گئی کہ 14۔6 سال کے عمر کے تمام بچوں کو مفت تعلیم دی جائے گی ۔ تعلیم کو بنیادی حق قرار دیتے ہوئے یہ بھی کہا گیا کہ اس کو اس طرح فراہم کیا جا سکے، جسے ریاست کا قانون اس کو تعین کرسکتا ہے ۔ یہاں یہ بات کہنی بجا ہوگی کہ آ رٹیکل 21-A نے ہر کسی بچے (خواہ وہ جسمانی طور پر ناخیز ہی کیوں نہ ہو) تعلیم کے دروازے کھول دیئے ہیں ۔
یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ اِس وقت ہمارے اسکولوں میں دو طرح کے بچے زیر تعلیم ہیں۔ ایک وہ جن کو اللہ تعالیٰ نے ہر نعمت سے نوازا ہے، چاہیے وہ نعت جسمانی طاقت کے لحاظ سے ہو یا ذہنی لحاظ سے ۔یہ بچے عام اسکولوں میں اپنی تعلیم بہتر انداز میں حاصل کرتے ہیں۔ دوسرے قسم کے بچے ایسے ہوتے ہیں جن کو جسمانی لحاظ سے کسی قسم کی دشواری ہوتی ہے، چاہیے وہ چلنے پھرنے ، بولنے ، دیکھنے ،سُننےیا پھر ذہنی طور پر کوئی بھی کمزوری ہو، ایسے بچوں کو ہم اسپیشل بچے یا CWSN کہتے ہیں۔ ایسے بچے عام اسکولوں میں جاتے تو ہیں لیکن ان کی جسمانی یا ذہنی معذوری کی وجہ سے اساتذہ ان کی تعلیمی ضروریات کو پورا کرنے سے قاصر رہتے ہیں۔ جس کی وجہ سے جسمانی طور پر معذور ہزاروں بچے اپنے بنیادی حق سے محروم ہو جاتے ہیں۔
محققین کی ایک بات یہاں کہنا فایدہ مند ہوگی کہ جس قوم کی بنیاد مضبوط ہوگی، وہ قوم ہر وقت ترقی کی راہ پر گامزن ہوتی ہے۔ وہ بنیاد کسی بھی قوم کی نوجوان نسل ہوتی ہے، جن کی بنیاد بہتر تعلم و تربیت سےمضبوط ہو جاتی ہے ۔ بات جب جسمانی طور پر معذور بچوں کی تعلیم و تربیت کی آتی ہے تو یہاں اس معاملے میںاُن کی حق تلفی ہوجاتی ہے۔ آخراُن کے ساتھ یہ ناانصافی کیوں ؟ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ ملک کی حکومت ان بچوں کی تعلیم کے لئے بہت کچھ کررہی ہے جس کا باقاعدہ ثبوت نئی تعلیمی پالیسی 2020 میں دیکھنے کو ملتا ہے ۔ جس میں اس بات بھی وضاحت کی گئی ہے کہ ہر سرکاری اسکول میں ایک اسپیشل ایجوکیشن ٹیچر کاہونا لازمی ہے۔ مگر کافی افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ابھی تک ایسے ٹیچرس کی بھرتی عمل میں نہیں لائی گئی ہے ۔ یہاں یہ سوال بھی اُبھر آتا ہے کہ یہ اسپیشل ایجوکیشن کیا ہے؟اسیپیل ایجوکیشن کی تعریف( IDEA )ایکٹ یعنی انڈیجول ڈسابلیٹی ایجوکیشن ایکٹ کے مطابق
Special education is special designed instruction at no cost to parents to meet the unique needs of child with a disability
یعنی’’ اسپیشل ایجوکیشن‘‘ خصوصی تعلیم ایک مخصوص شدہ ہدایت ہے جو والدین کو کسی بھی معذور بچے کی منفرد ضروریات کو پورا کرنے کے لئے بغیر کسی قیمت کے ہے ۔‘‘
اسپیشل ایجوکیشن یعنی خصوصی تعلیم حاصل کرنے کے لئےایک خاص قسم کی ڈگری کی ضرورت پڑتی ہے جس کو ہم بی ایڈ ۔اسپیشل کے نام سے جانتے ہیں ۔ یہ ڈگری اُسی طرح ہے جس طرح ایک عام اُستاد اپنی تعلیمی ہنر کو بہتر بنانے کیلئے لئے بی۔ ایڈ کی ڈگری حاصل کرتا ہے ۔ ایک اسپیشل ایجوکیشن ٹیچر کو جسمانی طور پر معذور بچوں کی تعلیم و تربیت اور اوراُن کی زندگی بہتر بنانے کے لیے بی ایڈ ۔ اسپیشل کی ڈگری حاصل کرنی پڑتی ہے ۔اس سے اسپیشل ایجوکیٹرز کو ایک الگ قسم کی مہارت حاصل ہوتی ہے ،جو اُسے بہتر انداز میں جسمانی طور پر ناخیز بچوں کی زندگی کو سنوارنے میں کارآمد ثابت ہوتی ہے۔
ہاں !اس بات کو کوئی نظرانداز بھی نہیں کر سکتا کہ ڈیپارٹمنٹ آ پ سمگرہ شکشا نے 2012 ، 2017 ، 2024 میں مختلف سکیموں کے ذریعے اسپیشل ایجوکیشن ٹیچرس کی بھرتی عمل میں لائیں، مگربعد میں ان کو صرف عارضی بنیادوں پر تعینات کیا گیا ۔ کئی برسوںسے یہ ٹیچرس اس ڈپارٹمنٹ میں اسپیشل ایجوکیشن ٹیچرس کے فرائض انجام دے رہے ہیں ۔ جبکہ یہ بات ہر کوئی فرد جانتا ہے کہ جسمانی طور پر معذور بچوں کو سنبھالنا انتہائی مشکل کام ہوتا ہے اور پھر اس سے بھی مشکل کام ان کو تعلیم دینا ہے۔ ان مشکلات کے باوجود یہ ٹیچرس بہ خوبی اپنا فرض ادا کرتے ہیں ۔ اگر ان کے کام کے نسبت ان کی ماہانہ اُجرت دیکھیں تو وہ ایک عام اُستاد سے اتنی کم ہے کہ اِس مہنگائی کے دور میں اُس سے روز مرہ کی ضروریات بھی پوری نہیں ہوسکتیں ،جبکہ اس ماہانہ اُجرت کے حصول کے لیے بھی اُنہیں تین تین مہینوں کا انتظار کرنا پڑتا ہے ۔حکومت ان اساتذہ کے ساتھ ایسا رویہ کیوں اپنا رہی ہے ،یہ عقل سے بعید ہے ۔جب بھی ان اساتذہ کے مستقل ہونے کی بات آ تی ہے تو کبھی بجٹ کم ہونے کا بہانہ کیا جاتا ہے تو کبھی کوئی اور بہانہ ڈھونڈاجاتا ہے۔ واتر کے ساتھ یہ سلسلہ چلا آرہا ہے ۔یہ نا انصافی صرف ان اساتذہ کے ساتھ ہی نہیں بلکہ اُن ہزاروں بچوں کے ساتھ بھی ہورہی ہے جو جسمانی کمزوریوں کے باوجود بھی تعلیم کے نور سے منور ہونا چاہتے ہیں ۔ جسمانی معذوری کے باوجود یہ بچے کسی نہ کسی طریقے سے اسکول تو آ تے ہیں مگراسکولوں میں اسپیشل ٹیچر نہ ہونے کی وجہ سے وہ اپنے حصول تعلیم کے بنیادی حق سے محروم رہ جاتے ہیں ۔المختصر بات یہ ہے کہ حکومت کو زمینی سطح پر جسمانی طور پر معذور بچوں کی تعلیم و تربیت کے لئےجلد از جلد ایسا مثبت قدم اٹھانا چاہیے،جس سے ان بچوں کا مستقبل بھی تابناک ہو، اور ساتھ ہی ساتھ ان ناخیز بچوں کو پڑھانے والے اسپیشل ایجوکیشن ٹیچرس کی مستقلی اور مقررہ وقت پر اُجرت کی ادائیگی کا بھی خیال رکھنا چاہئے،جوتا حال اپنے درپیش مشکلات کے باوجود ان بچوں کی تعلیمی ضروریات کو پورا کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑتے ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ جتنی جلد ہوسکے حکومت کو ان اسپیشل ٹیچرس کو تعیناتی مستقل کریں تاکہ اس محکمہ میںرہ کر اتنے برسوں کے دوران جو تجربہ اُنہیں حاصل ہوچکاہے،اُس کا استعمال کرکے وہ ان بچوں کی زندگی کو سنوارنے میںزیادہ سے زیادہ مثبت ثابت ہوسکے اور جسمانی طور پر ناخیزاُن بے سہارا بچوں کی زندگی بہتر بن جائے،جنہیں اپنے ماں باپ بھی ٹھکرادیتے ہیں ۔