بلال فرقانی
سرینگر// مرکزی زیر انتظام جموں کشمیر میں جسمانی طور خاص افراد کی تعداد میں اضافہ باعث تشویش ہے جبکہ اس بات کا انکشاف ہوا ہے کہ جسمانی طور ناخیز افراد کی تعداد7 لاکھ سے تجاوز کر گئی ہے۔ ’معذور افراد کا عالمی دن‘دنیا بھر میں ہر سال 3 دسمبر کو منایا جاتا ہے۔ اس دن کو منانے کا مطلب اس بات کو یقینی بنانا ہے کہ دنیا میں جسمانی طور پر نا خیز افراد کو مساوی حقوق حاصل ہوں اور انہیں کام، کھیل، صحت اور کامیابی کے مساوی مواقع میسر ہوں۔امسال اقوام متحدہ نے اس دن کی مناسبت سے’’معذور افراد کے لیے، ان کے ساتھ اور ان کے ذریعے پائیدار ترقی کے اہداف کو بچانے اور حاصل کرنے کے لیے متحد ہو‘‘ کے موضوع کا انتخاب کیا ہے۔
جانکار حلقوں کا کہنا ہے کہ شورش کے چلتے،اگرچہ جسمانی طور پر ناخیز افراد کی تعداد میں اضافی کوئی حیرانگی کی بات نہیں ہے،تاہم یہ تشویش کن ہے۔جسمانی طور پر نا خیز افراد کی ایسو سی ایشن کا کہنا ہے کہ 2016 کے بعد جسمانی طور پر معذور افراد میں مزید14زمروں کو شامل کیا گیا اور ان کی تعداد21پہنچ گئی ۔اس لئے اس وقت جموں کشمیر میں جسمانی طور پر ناخیز افراد کی تعداد7لاکھ سے تجاوز کر گئی ہے۔ان کا کہنا تھا کہ سرسری رپورٹ تیار کی گئی ہے اس کے مطابق سرینگر میں اسوقت 31665 ، بڈگام میں 32317، پلوامہ میں 29643 ، کپوارہ میں 38530، بارہمولہ میں 39421، اسلام آباد میں 28230، ڈوڈہ میں 27739 ، ادھم پور میں 32487 ، جموں میں24832 ، راجوری میں 23106 ، پونچھ میں 25032 ، کٹھوعہ میں 15493 معذور افراد موجود ہیں ۔ 2001کی مردم شماری کے مطابق جموں کشمیر میں جسمانی طور پر نا خیز افراد کی تعداد3لاکھ2ہزار670تھی،تاہم2011کی مردم شماری میں ان کی تعداد3لاکھ61ہزار153 تک پہنچ گئی۔نیشنل سٹیٹکل آفس کی جانب سے دسمبر2018کے جولائی اور دسمبر میں کرائے گئے سروے کے مطابق جموں کشمیر میں1.4فیصدخواتین اور1.6فیصد مرد متعدد معذوری،0.7فیصد خواتین اور0.9مرد نا قابل حرکت معذوری،0.2فیصد خواتین اور اتنی ہی تعداد میں بصری،سماوی و گویائی کی معذوری کے علاوہ 0.2فیصد ذہنی معذوری میں بھی مبتلا ہے۔ گزشتہ مردم شماری رپورٹ کے مطابق جموں کشمیر میں جسمانی طور پر معذور افراد کی تعداد میں20.5فیصد قوت سماعت،18.3فیصد قوت بصارت اور5.1فیصد قوت گویائی سے محروم ہیں۔ رپورٹ کے مطابق4.6فیصد ذہنی طور اور16فیصد عدم حرکت کے علاوہ18.5فیصد دیگر جسمانی نا خیزی اور12.3فیصد ایک سے زیادہ جسمانی معذوری میں مبتلا ہے۔انچارج، ابھیدانند ہوم ہائیر سیکنڈری انسٹی ٹیوشن برائے سپیشلی ابیلڈ چلڈرن کا کہنا ہے کہ جموں و کشمیر میں 2,04,834 مرد معذور افراد ہیں جن میں سے 1,03,730 خواندہ ہیں، 1,56,319 خواتین میں 47,239 خواندہ اور 27,939 معذور بچے بھی خواندہ ہے۔ جموں و کشمیر میں 8207 معذور مرد گریجویٹس اور 3584 خواتین معذور گریجویٹس ہیں۔سرکاری سطح پر اگر چہ جسمانی طور پر معذور افراد کو جہاں ماہانہ مشاہرہ فرہم کیا جا رہا ہے،تاہم جسمانی طور نا خیز لوگوں کا کہنا ہے کہ یہ رقم اس قدر کم ہیں،کہ گدا گروں کی ایک دن کی آمدنی بھی اس سے زیادہ ہیں۔ جموں کشمیر ہینڈی کپیڈ ایسوسی ایشن کے صدر عبد الرشید بٹ نے بتایا کہ جسمانی طور نا خیز افراد کے کافی مطالبات پڑے ہوئے ہیں جنہیں حل نہیں کیا جاتا ہے۔ انہوں نے مطالبہ کیا ہے کہ مشاورتی بورڈ کی تشکیل ، جسمانی طورنا خیز افراد کے پنشن میں اضافہ ، تعلیم یافتہ نوجوانوں کو روزگار فراہم کرنا ، کم تعلیم یافتہ نوجونواںکو آسان قرضوں کی فراہمی وغیر ہ شامل، جیسے مطالبات ہیں ان کو جلد حل کیاجانا چاہے۔ایسو سی ایشن کے مطالبات میں اسمبلی، میونسپلٹی اور پنچایتوں، تمام کالجوں اور یونیورسٹیوں میں ریزرویشن شامل ہے۔ جسمانی طور پر معذور افراد کی معاشی اور سماجی ترقی کے لیے ایک مشاورتی بورڈ کا قیام،سرکاری اور نیم سرکاری دفاتر میں معذور افراد کے لیے الگ الگ کاؤنٹر کھولے جانے شامل ہیں۔پدم شری ایوارڈ یافتہ اور معذوروں کے حقوق کارکن جاوید احمد تاک کا کہنا ہے کہ 2016کے معذوروں سے متعلق قانون میں نئے پیرامیٹرز شامل کیے گئے تاکہ معذور افراد تمام حقوق حاصل ہو سکیں اور انتہائی وقار کے ساتھ آزادانہ زندگی گزار سکیں۔ ریزرویشن کو 3فیصد سے بڑھا کر 4فیصد کر دیا گیا تھا لیکن بھرتی کرنے والی ایجنسیاں’ یو این سی آر پی ڈی‘ اور معذور افراد کے حقوق 2016 کو مکمل طور پر نظرانداز کر رہی ہیں۔