جموں//بی جے پی کے قومی جنرل سیکرٹری رام مادھو ایم ایل اے کٹھوعہ راجیو جسروٹیہ کو کابینہ میں شامل کئے جانے کو درست قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ جسروٹیہ نے کٹھوعہ معاملہ ملزمان کے حق میں ہوئی ریلی میں صرف شرکت کی تھی لیکن انہوں نے کہا کچھ نہ تھا۔ وہ اس ریلی میں شرکت کرنے والے لال سنگھ اور چندر پرکاش گنگا کے مستعفی ہونے کے بعد جسروٹیہ کو کابینہ میں شامل کئے جانے پر کی جانے والی تنقید کے حوالہ سے بات کر رہے تھے۔ پارٹی دفتر پر منعقدہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے رام مادھو نے لال سنگھ اور چندر پرکاش گنگا کا تحفظ کرتے ہوئے کہا کہ اس سلسلہ میں غلط تاثر پیدا کیا گیاکہ وزراء نے کٹھوعہ معاملہ کے ملزمان کی حمایت کی تھی ۔ یہ پوچھے جانے پر کہ ریلی میں شامل 2وزرا ء کو ہٹا دیا گیا لیکن ممبر اسمبلی کو کابینہ میں شامل کر لیا گیا تو رام مادھو نے کہا کہ جسروٹیہ وہاں موجود تھے لیکن انہوں نے کچھ نہیں کہا ’’کوئی ڈبل سٹینڈاڑ نہیں، وزراء اس لئے مستعفی ہوئے کہ کچھ بیانات ان کے نام سے منسوب ہوئے تھے اور میڈیا میںان سے یہ غلط تاثر پیدا ہو گیا کہ وہ ملزمان کی حمایت کر رہے تھے جب کہ ایسا نہ تھا، دونوں وزراء نے اخلاقی بنیادوں پر استعفیٰ دے دیا‘۔کٹھوعہ معاملہ پر مزید بات نہ کرتے ہوئے رام مادھو نے کہا کہ ’کیس عدالت میں زیر سماعت ہے ، عدالت کو اپنا کام کرنے دیجئے‘۔ عمر عبداللہ کی طرف سے کئے گئے ٹویٹ کے بارے میں پوچھے جانے پر انہوں نے کہا کہ ’ہر کسی کو حق اظہارکی آزادی ہے ، وہ بھی اپنے رائے ظاہر کرسکتے ہیں‘۔ جنرل سیکرٹری نے لال سنگھ کی طرف سے کٹھوعہ معاملہ کی سی بی آئی انکوائری کیلئے چلائی جارہی مہم کیلئے ان کے خلاف کسی قسم کی کارروائی کو خارج از امکان قرار دیتے ہوئے کہا کہ سماج کے کئی دیگر طبقے بھی ایسے ہی مطالبات کر رہے ہیں جس میں بار کونسل آف انڈیا بھی شامل ہے ۔اب معاملہ سپریم کورٹ میں ہے ، البتہ اگر عدالت کے فیصلہ کے بعد بھی ایسی مانگ اٹھائی جاتی ہے تو کارروائی کی جا سکتی ہے ۔حکمران اتحاد میں اختلافات کے بارے میں پوچھے جانے پر انہوں نے کہا کہ کولیشن سرکار میں اختلافات ہوتے ہیں لیکن ہماری پارٹی اور لیڈر ایسے معاملات کو حل کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ انہوں نے اعتماد ظاہر کیا کہ ایجنڈاآف الائنس میں کئے گئے وعدوں کو پورا کیا جائے گا۔ مسئلہ کشمیر کے حل کے لئے پاکستان کے ساتھ مذاکرات کے بارے میں کئے گئے ایک سوال کے جواب میں رام مادھو نے کہا کہ وزیر اعلیٰ سمیت ہر کسی کی اپنے رائے ہو سکتی ہے لیکن اس بارے میں حتمی فیصلہ مرکزی سرکار ہی لے سکتی ہے۔