برلن/ یو این آئی/قانونی چیلنجوں کے درمیان جرمنی نے اسرائیل کو جنگی ہتھیاروں کی نئی برآمدات پر روک لگا دی ہے ۔ خبر رساں ادارے ‘رائٹرز’ کے پیش کردہ اعداد و شمار کے تجزیہ کے مطابق یہ فیصلہ جرمنی کی وزارت اقتصادی امور سے جڑے ذرائع سے سامنے آیا ہے ۔ وزارت اقتصادی امور کے قریبی ذرائع نے ایک سینئر سرکاری اہلکار کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ اس نے قانونی مقدمات کے قانونی اور سیاسی دباؤ کی وجہ سے اسرائیل کو اسلحہ برآمد کرنے کے لائسنس کی منظوری کا کام روک دیا ہے ۔ذرائع کے مطابق ستمبر کے وسط کے بعد یہ اس لیے فیصلہ کیا گیا ہے کہ اسرائیل کو اسلحے کہ یہ برآمدات قانون کی خلاف ورزی پر مبنی ہیں۔ تاہم جرمنی وزارت اقتصادی امور نے اس بارے میں کسی سوال کو جواب نہیں دیا ہے ۔یاد رہے اسرائیل امریکہ اور اپنے مغربی اتحادیوں کی مدد سے اکتوبر 2023 سے غزہ جنگ لڑ رہا ہے ۔ اب تک اکتالیس ہزار سے زائد فلسطینی اسرائیلی بمباری سے ہلاک ہو چکے ہیں۔ بین الاقوامی عدالت انصاف نے اسرائیل کو نسل کشی روکنے کے اقدامات کے لیے کہہ رکھا ہے ۔ دوسری تباہی اس کے علاوہ ہے ۔جرمن حکومت نے ‘رائٹر ‘ کی رپورٹ سامنے آنے کے بعد ایک بیان جاری کیا ہے ۔ بیان میں حکومتی ترجمان سٹیفن ہیبسٹریٹ کہتے ییں کہ ‘جرمن ہتھیاروں کی برآمد کا بائیکاٹ اسرائیل کے خلاف نہیں ہے ۔ پچھلے سال، جرمنی نے اسرائیل کو 326.5 ملین یورو یعنی 363.5 ملین ڈالر کے ہتھیاروں کی برآمدات کی منظوری دی تھی۔ ان ہتھیاروں میں فوجی سازوسامان اور جنگی ہتھیار شامل تھے جو کہ 2022 کے مقابلے 10 گنا زیادہ تھے ۔وزارت اقتصادی امور کے اعداد و شمار کے مطابق اس سال ان منظوریوں میں کمی آئی ہے ، جنوری 2024 سے 21 اگست تک صرف 14.5 ملین یورو مالیت کا اسلحہ جرمنی سے اسرائیل کو بھیجا گیا ہے ۔پارلیمان میں ایک سوال کے جواب میں وزارت اقتصادیات کے فراہم کردہ اعداد و شمار ظاہر کرتے ہیں کہ رواں برس میں سے براہ راست جنگی زمرے کے ہتھیاروں کی مالیت صرف 32,449 یورو تھی۔جرمنی کی طرف سے دو مقدمات کے دفاع کی کوشش بھی جاری ہے ۔ ایک مقدمہ بین الاقوامی عدالت انصاف کے سامنے ہے اور دوسرا برلن میں یورپی مرکز برائے آئینی اور انسانی حقوق کی طرف سے زیر سماعت ہے ۔