مقاومتی تحریکوں میں ادب کا کیا رول رہا ہے یہ ایک وسیع موضوع ہے ۔سیاسی مقاومت ایسے ماحول میں جنم لیتی ہے جہاں ملکی تشکیل ایک ایسی نہج کی ہو جس سے عوام الناس کی اکثریت مطلق موافق نہ ہواور تشکیل نو کا شدت سے احساس چھایا رہے۔ امپیریلزم کہتے ہیں عالمی سیاست کا ایک ایسا باب ہے جس کا تعلق ماضی کی روش سے ہے جس میں طاقتور ممالک کمزور ممالک پہ حاوی ہوئے لیکن سچ تو یہ ہے کہ آج بھی استبداد کی کئی شکلیں موجود ہیں۔ جہاں ماضی میں امپیریلزم کے خلاف سیاسی تحریکوں کو ادبی نگارش نے کئی رنگوں میں شہ دی وہی ماضی قریب بلکہ عصر حاضر میں بھی ادب یعنی لٹریچر کا ایک خاصا رول رہا ہے۔ کشمیر شدیداََ ایک سیاسی لا یقینی کا شکار ہے اور یہاں کئی دَہائیوں سے ایک مقاومتی تحریک چل رہی ہے البتہ کہا جاتا ہے کہ یہاں کے لٹریچر میں وہ بات دیکھنے کو نہیں ملتی جو فلسطین میں مقاومتی تحریک کا خاصا رہا ہے ۔ فلسطینی تحریک کو جہاں مر د رویش جیسا درویش صفت ادیب میسر رہا وہی ایڈورڑ سید جیسا سیاسی قلمکار و تجزیہ نگار بھی میسر رہا جس نے دنیا کو فلسطینی مسلے سے روشناس کرایا۔گذشتہ کچھ سالوں سے البتہ کشمیر میں بھی ایک نئی روش دیکھائی دے رہی ہے جہاں لٹریچر مقاومتی تحریک کو ایک بھر پور سہارا فراہم کرنے میں کوشاں نظر آتا ہے۔
کشمیر میں ماضی قریب میں جو پچھلی کئی دَہائیوں پہ مشتمل ہے ادبی دائرے کو پرکھا جائے تو کئی ایسے ادیب نظر آتے ہیں جن کی نگارشات قابل تحسین ہیں بلکہ کئی ادیبوں کی وسیع پیمانے پہ سراہا بھی گیا ہے ۔اِن ادیبوں میں کئی انعام یافتہ بھی ہیں اور اُنہیں القاب سے بھی نوازا گیا ہے لیکن ادبی دائرے میں اُنہیں رومانی تحریکوں کا عنواں ہی دیا جا سکتا ہے جو قابل ستائش تو ہیں لیکن جن سے کشمیر میں مقاومتی تحریک کی آبیاری نہیں ہو سکی۔ اِس ضمن میں پرکھا جائے تو آغا شاہد مرحوم کی نگارشات کو ایسی پہلی کوشش ماننا ہو گا جس نے دنیا کو کشمیر کی مقاومتی تحریک کو دنیا میں روشناس کرانے میں ایک اہم رول ادا گیا۔ آغا شاہد مرحوم کی کوششوں کو اِس بات سے بھی سہارا ملا کہ اُنکی ادبی زباں انگریزی رہی جو ایک بین الاقوامی زباں کا درجہ رکھتی ہے۔ وہ امریکہ میں درس و تدریس میں مشغول رہے لیکن اپنے وطن کو نہیں بھولے جہاں اُنکا جنم ہوا تھا اور جہاں وہ پلے بڑھے تھے۔ کشمیر مملکت بدون پوسٹ آفس مرحوم آغا شاہد کی اُس معروف شاعرانہ کاوش (Country without Post Office) کا عنواں ہے جس سے کشمیر کی مقاومتی تحریک کو بین الاقوامی سطح پہ پہلی دفعہ ادبی دائرے میں پذیرائی حاصل ہوئی اور اِس کا ایک سیاسی ثمر بھی رہا۔آغا شاہد نہیں رہے رہتے تو شاید ہمارے لئے ایڈورڑ سید ثابت ہو جاتے ۔جان لیو اسرطان کے موزی مرض نے اُنہیں ہم سے چھین لیا البتہ جہاں فانی کو وداع کہنے سے پہلے اُنہوں نے مقاومتی تحریکوں میں ادب کے رول کی جو نشاندہی کی اُس کیلئے اُنہیں مدتوں یاد رکھا جائے گا۔ آغا شاہد کے تاریخی رول کے تجزیے سے پہلے ہماری نظراِس پہ رہے گی کہ مقاومتی تحریکوں میںادب کس قدر موثر ہو سکتا ہے اور حالیہ برسوں میں کشمیر کے ادیبوں نے کشمیر کی مقاومتی تحریک کے پنپنے میں تحریک کو استحکام بخشنے میں کیا خدمات انجام دی ہیں اور یہ بھی نظر میں رہے گا کہ کیا کچھ ممکن ہو سکتا تھا جو نہ ہو سکا اور کہاں اور کیوں کوتاہی ہوئی۔
مقاومتی تحریکوں میں ادب کا رول کس حد تک موثر ہے اُس کی ایک تاریخ ہے اور اِسی تاریخی دائرے میں ادب کے رول کو پرکھا جا سکتا ہے۔انقلاب فرانس جو 1789ء میں کامیابی کی منزلوں سے ہمکنار ہوا دو تاریخی مورخوں کا مرہون منت ہے۔ والٹیر و روسو نے اپنی ادبی کاوشوں سے فرانسوی عوام کو انقلابی روش اپنانے پہ آمادہ کیا۔ فرانس میں شاہی خاندان نے عوام کا سکھ چین لوٹا تھا اور شاہاں فرانس عوام کی زبوں حالی سے نا آشنا تھے۔ کہتے ہیں جب پیرس کے نواحی علاقے میں شاہی محل کے باہر فرانسوی عوام مظاہرہ کر رہے تھے تو ملکہ میری انٹونی نے اپنی کنیزوں سے پوچھا کہ باہر کیسا شور ہے؟ جواب یہ ملا کہ لوگ مظاہرہ کر رہے ہیں۔ملکہ نے پھر پوچھا کہ مظاہرہ کیوں کر رہے ہیں۔ جواب یہ ملا کہ اِنکے پاس روٹی نہیں ہے۔اِس پہ ملکہ نے جو کہا وہ انسانی تاریخ کا ایک سیاہ باب ہے۔ ملکہ کا جواب یہ تھا کہ اگر اِن کے پاس روٹی نہیں ہے تو یہ کیک کیوں نہیں کھاتے!عوام کی نا گفتہ بہ حالت سے شاہاں فرانس کی بے علمی کا یہ عالم تھا کہ شاہی خاندان کے افراد اِس بات سے بھی بے خبر تھے کہ روٹی و کیک میں کیا فرق ہے اور جن کے پاس روٹی بھی نہیں وہ بھلا کیک کھانے کیلئے کہاں سے پیسے لائیں!انقلاب فرانس کی کامیابی کے بعد عوام کے غیص و غضب کا یہ عالم تھا کہ شاہاں فرانس و امرا کی گردنیں تن سے جدا کی گئیں اور یہی سزا ملکہ فرانس میری انٹونی کی بھی مقرر ہوئی۔تن سے گردن جدا کرنے کے عمل کوگلوٹیں (Guillotine) کہا جاتا ہے۔
فرانس میں جمہوریت کی بحالی کے بعد بھی فرانسوی امپیریلزم کی سختیاں الجزائر جیسے ممالک کو سہنی پڑی۔ جنگ عظیم دوم کے بعد فرانس میں چارلس ڈیگال جیسے جمہوریت پسند لیڈر نے بھی 20ویں صدی کے 5ویں دَہے میں الجزائر میں فرانسوی استبداد کو دوام بخشنے کی بات کی حالانکہ چارلس ڈیگال کو ایسا حریت پسند لیڈر مانا جاتا تھا جو اڈلف ہٹلر کے سامنے سینہ سپر ہوئے۔جب جنگ عظیم دوم کے دوراں ہٹلر کی جرمن افواج فرانس کی مزاحمت کو کچلتے ہوئے فرانس پہ قابض ہوئیں تو وہاں ایک کٹھ پتلی سرکار قائم کی گئی جو تاریخ میں وکی فرانس (Vicky France) کے نام سے ثبت ہے۔ چارلس ڈیگال نے آبرود انگلیس (English Channel) جو کہ فرانس اور برطانیہ کے درمیان ایک آبی راہرو ہے کو عبور کر کے برطانیہ میں فرانسوی مزاحمت کی صفوں کو آراستہ کیا۔انجام کار ہٹلر کی افواج کو اتحادی افواج کی یلغار سے شکست کا سامنا کرنا پڑا اور چارلس ڈیگال فرانس کے رہبر بنے ۔ایسے حریت پسند لیڈر کا الجزائر میں فرانسوی استبداد کی رہبری کرنا توقعات کے برعکس تھا لیکن تاریخ عالم کے کئی ابواب ایسے بھی ہیں جہاں بظاہر حریت پسند استبدادی سیاست کی آبیاری کرنے میں پیش پیش رہتے ہیں اور اِس کو قومی مفاد میں گردانا جاتا ہے۔تاریخ گواہ ہے کہ جہاں حریت پسند سیاست دانوں نے استبدادی سیاست کو قومی مفاد کا عنواں دیا وہی فرانس کے ادیب اپنے ہی رہبروں کے سامنے سینہ سپر ہوئے اور آزادی الجزائر کا نعرہ لے کر سامنے آئے حتّی کہ چارلس ڈیگال کو بھی فرانس کی عظمت اِسی میں نظر آئی کہ وہ الجزائری تسلط کو خیر باد کہیں۔ الجزائر 1962ء میں آزاد ہوا جس نے یہ ثابت کیا کہ فرانس نے اگر ایک مدت کا استبداد ی سیاست اپنائی لیکن فرانس کی حریت پسندی انجام کار اُس پہ غالب آئی۔ فرانسوی روح کو بیدار کرنے میں فرانسوی ادیبوں و قلمکاروں کا خاصا رول رہا۔
20ویں صدی کے نصف دوم میں جب امریکہ کی مداخلت ویٹنام میں عروج کو پہنچی تو کئی امریکی اسکالروں نے امریکی مداخلت کی شدید نکتہ چینی کی ۔برطانیہ کے معروف فلاسفر بر ٹرینڈ رسل نے تو عدالت قائم کی جہاں امریکی زیادتیوں کے بارے میں گواہی دی جاتی تھی اور پھر امریکی اقدامات کی شدید نکتہ چینی ہوتی تھی۔ امریکی قلمکاروں اور یورپ میں بر ٹرینڈ رسل جیسے فلاسفروں نے امریکہ کے عوام الناس کے ضمیر کو جھنجوڑا اور امریکی اپنی ہی حکومت کے خلاف صف آرا ہوئے حتّی کہ امریکی حکومت مجبور ہو گئی کہ ایک لمبے مذاکراتی عمل کے بعد ویٹنام سے ہاتھ کھنچ لے۔استبدادی سیاست کے خلاف آواز اٹھانے میں ادیبوں اور قلمکاروں کا جو تاریخ میں شاندار رول رہا ہے وہ ہندوستان کی تحریک آزادی کے دوراں بھی دیکھنے کو ملا۔ علامہ اقبالؒ اور رابندر ناتھ ٹیگور جیسے عظیم شعرا نے خواب غفلت میں سوئے ہوئے ہندوستانی عوام کو بیدار کرنے میں ایک اہم رول ادا کیا۔ علامہ اقبال ؒ کی آواز بلکہ ہندوستانی سرحدوں کے اُس پار بھی عرب و عجم میں سنائی دی۔اُنکی فارسی شاعری سے ایرانی حریت پسند ادیب علی شریعتی اِس حد تک متاثر ہوئے کہ اُنہوں نے علامہ اقبالؒ کے شاعرانہ پیغام کو ایران کی وسعتوں میں پھیلایا۔ ایران کے موجودہ رہبر سعید علی خامنہ ای نے علامہ اقبال ؒ کے انقلابی تصورات پہ کئی کتابیں لکھیں۔ علامہ اقبالؒ کی نگارشات اور اُس پہ ایرانی ادیبوں کے تبصرات نے انقلاب ایران کی آبیاری میں ایک اہم کردار ادا کیا۔
ادبی دائرے میں دیکھا جائے تو ناول نگاری ادب کی ایک ایسی صنف ہے جو ماضی و حال کی تاریخی روش و مقاومتی تحریکوں سے آشنائی میں کافی موثر رہی ہے۔ تاریخی واقعات کو ایک کہانی کے روپ میں پرویا جائے تو فکر و نظر پہ چھا جاتی ہے۔تاریخی واقعات کو ناول کے روپ میں ڈالنا ایک ادبی روش رہی ہے۔ تاریخ یا کسی مقاومتی تحریک کے بیاں میں کسی رومانی کہانی کو شامل کیا جائے تو قارئین کی توجہ جلب کرنے میں جو آسانی رہتی ہے اُس سے کسی بھی مقالے کو تقابل نسبت نہیں دی جا سکتی ہے ۔20 ویں صدی میں جمع کثیر کو تاریخ اسلام سے جو بھی واقفیت ہوئی وہ یا تو نسیم حجازی کی یا صادق حسین سردھنوی کی ناول نگاری کی مرہون منت ہے ۔جہاں صادق حسین سردھنوی اکثر و بیشتر اسلام کے درخشاں دور پہ اپنی ناول نگاری کو مرکوز رکھتے تھے وہی نسیم حجازی دور انحطاط (تنزل) کی داستاں بیاں کرنے میں ایک فریضہ انجام دیتے تھے اور وہ یہ کہ مسلمین انحطاط کی وجوہات سے واقف ہو کے سدھار کی صفوں کو آراستہ کریں۔ اِس انداز بیاں میں ابن خلدون جنہیں تنقیدی تاریخ کا موجد مانا جاتا ہے کے اِس نظریے کی آبیاری ہوتی ہے کہ تاریخ سے اگر ہمیں یہ سیکھ نہ ملے کہ ماضی کے مثبت طریقہ کار کو کیسے مثبت تراور منفی طریقہ کار کو کیسے کم سے کم ترکیا جائے تو تاریخ پرانی زمانے کی قصے کہانیوں سے زیادہ اہمیت نہیں رکھتی ۔
ناول نگاری کی اساس رومان ہے اور یہ ایک مانی ہوئی بات ہے کہ رومان بنیادی انسانی جذبے کی آبیاری کرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ناول جس کی اساس ہی رومان ہے تاریخی و مقاومتی تحریکوں کے بیاں کا ایک موثر ذریعہ ہے اور پچھلے کئی سالوں سے کشمیر کے انگریزی ناول نگار صفحوں کے صفحے رقم کرتے جا رہے ہیں اور اِن میں فاروق پیر، وحید میرزا و شفیع احمد شامل ہیں۔کشمیر کے اِن اُبھرتے ہوئے فنکاروں نے ناول کو بیاں کا وسیلہ بنا کے مقاومتی تحریک میں جو نئے رنگ بھرے ہیں اُس سے تحریک کے خد و خال اور پوشیدہ گوشے دن بدن منظر عام پہ آتے جا رہے ہیں اور یہ یقینناََ تحریک کے آئندہ کو موثر بنانے کیلئے کار آمد ثابت ہو سکتا ہے۔ایسا ہی ایک ناول ڈاکٹر رومانہ مخدومی نے بھی تحریر کیا۔ اُن کی تصنیف میں طب کے شعبے پہ مقاومتی تحریک کے اثرات ہیں جہاں ایک طبیب علاج معالجے کے فرائض انجام دیتے وقت اِس حقیقت سے غافل نہیں رہتا کہ جس خطے کا وہ باشندہ ہے وہ تسلط کے نرغے میں ہے۔رومانہ کی کہانی میں اُن کی ذات اور اُن کے ہم پیشے افراد سے منسلک جو داستاں اُبھری ہے اُس نے ہر اُس شخص کو متاثر کیا جس نے میڈیکل کالج کے اڈیٹوریم میں رسم رونمائی کے دوراں اُن ہی کی زبانی اُن کی تصنیف کی داستاں کو پردہ سیمیں پہ اُنہیں بیاں کرتے ہوئے دیکھا جہاں ہر اُس مقام کی نشاندہی کی گئی جن کا ذکر کتاب کے صفحوں میں رقم ہوا ہے۔رسم رونمائی میں صدر ہسپتال کے اُس ڈرائیور کی اہلیہ موجود تھی جس نے اپنے وظائف( ڈیوٹی) کو انجام دینے کے دوراں اپنی جاں گنوا دی اور جسے صدر ہسپتال کے احاطے میں ہی دفنایا گیا۔محترم و معظم اطبا ڈاکٹر عبدالاحد گورو و ڈاکٹر فاروق عشائی کا ذکر بھی ہوا جو تشدد کا شکار ہوئے اور جن کا حوالہ رومانہ کی تصنیف کو جالب سے جالب تر بناتا گیا۔رومانہ کی تصنیف سے یہ بات عیاں ہوئی کہ ذرہ نم ہو تو یہ مٹی بہت زرخیز ہے ساقی!
ناول سے بھی موثر ترین شاعری کی صنف ہے جو کسی بھی مقاومتی تحریک میں جان ڈال سکتی ہے اور اِس ضمن میں آغا شاہد کا شاعرانہ شہ کار’’ملک بغیرڈاک خانہ‘‘(Country without Post Office) ایک جامع علمی تبصرہ ہے۔شومئی قسمت جہاں من الحثیت القوم ہم نے بہت کچھ کھویا ہے، وہی صرف 52 سال کی عمر میں دماغی سرطان (Brain Tumor) نے وطن کے اس گوہر نایاب کو ہم سے چھین لیا۔سچ تو یہ ہے کہ ہمارے صف اول کے رہبراں کی گوناگوں تقریروں نے ہمارے دانشوروں کے ہزاروں مقالوں نے ہمارے شاعروں کی شاعرانہ کاوشوں سے بین الملی سطح پہ تحریک کے بارے میں وہ تاثر اُبھر نہ سکا جو آغا شاہد مرحوم کے ادبی شہ کار سے اُبھرا ۔آغا شاہد کے شاعرانہ پیغام کو عوام الناس تک پہنچانے کیلئے ایک مفصل تصنیف کو ترتیب دینا ہو گا جو انگریزی کے علاوہ اُردو زبان میں شائع ہو سکے تاکہ ہمارب ادبی کاوش کے اس بیش قیمت سرمایے کو آئندہ نسلوں تک کے لئے نہ صرف انگریزی بلکہ اُردو زبان میں بھی محفوظ رکھا جائے۔ پروفیسر شفیع شوق جو دانش گاہ کشمیر کے شعبہ کشمیری کے سابقہ سر براہ تھے، نے آغا شاہد کے شاعرانہ شہ کار کو کشمیری روپ میں رنگ کے گرانقدر خدمت انجام دی ہے۔
Feedback on: [email protected]