جدید نظام تعلیم میں بے شمار خرابیاں ہیں ۔ اس کی سب سے بڑی خرابی یہ ہے کہ یہ اخلاقی قدروں سے بالکل خالی ہے ۔ روح ، تقدس ، مقصدیت، توحید ، رسالت اور مابعد الطبعیات جیسے اہم اور بنیادی عناصر سے کوسوں دور ہے ۔ اس میں نہ ضمیر کے لیے پیغام ہے اور نہ ہی یہ انسانی وجدان کو جگا تی ہے اور نہ ہی یہ انسان کو اس کے خالق سے جوڑتی ہے، تعلیم و تعلم کا خالق کے ساتھ جو مقدس رشتہ قائم ہے، اس کو ختم کرنے کی شروعات یورپ سے ہوئی جب گیارہویں صدی سے پندرہویں صدی کے درمیان وہاں مسلم اسپن کے ذریعہ علم و سائنس کی روشنی پھیلی تو روایتی مسیحی افکا ر سے علم اور سائنس کی مخالفت شروع ہوئی ۔بعد میں مغرب میںبھی سائنس کو مذہب کے مد مقابل کے طور پر پیش کیا گیا اور یہ شر انگیز کام بالکل بائبل کے سائے تلے انجام دیا گیا ۔ اس کے بعد عیسائی دنیا میں کلیسا (Church)اور سیاست (State)کے درمیان زبردست کشمکش شروع ہوئی جس نے نوع انسانی کو ہر اعتبار سے تباہ کن نقصانات پہنچائے ۔ اس سلسلے میں گلیلو ) (Galeloکی مثال دی جاسکتی ہے جس نے کوپر نکس (Copernicus)کا سائنسی فلسفہ The Rotation Of the Earth کو تسلیم کیا تھا ۔ اہل کلیسا نے اس نظریہ کو اپنے عقائد کے خلاف قرار دے کر گلیلو کو پھانسی کے پھندے سے ڈرایا۔ کلیسا کی تاریخ میں اس طرح کے بے شمار واقعات درج ہیں ۔ یہ اہل کلیسا ہی ہے جنہوں نے مذہب اور سائنس کو ایک دوسرے کا دشمن ٹھہرایا اور مذہب کو سیاست سے الگ کرکے مذہب اور سیاست کا آپس میں کوئی تعلق باقی نہیں رکھا، نیز مذہب کو انسان کا ذاتی مسئلہ قرار دیا ۔ اہل کلیسا نے مذہب کی من مانی تعبیر و اصلاح بھی کی اور اس کے نتیجہ میں اصلاح مذہب کی تحریکوں نے جنم لینا شروع کیا جنہوں نے وحدت کے تصور کو پار پارہ کر دیا ۔اس کے نتیجہ میں نوع انسانیت نے اپنے آپ کو آزاد سمجھنے لگا اور آزادی کے نام نام ہر چیز اور ہر فعل کو جائز سمجھنے لگا ۔اس انسان نے مادیت اور عقل پر مبنی ہر چیز کی پرستش کرنا شروع کی اور سائنسی اور طبعی علوم تحقیقات و ایجادات کو حرف آخر تصور کیا ۔اس نے یہ نے کیا کہ جو کچھ سائنس اور عقل سے ثابت ہو اسی کی بنیاد پر فیصلہ کیا جائے گا کیوں کہ وہ مذہب میں عقل کی بالا دستی اور اس کی حکمرانی قائم کرنا چاہتا ہے اور اس کو عام کرنے کے لیے مذہب دشمن عناصر ین پوری دنیا میں سر گرم عمل ہے ۔سید خالد جامعی اور عمر حمید ہاشمی کا کہنا ہے کہ ’’ دور جدید کے فلاسفہ جو اپنے آپ کو عقل مند ثابت کرتے ہیں ،وہ یہ بات بتانے سے قاصر ہیں کہ انسان کو اس دنیا میں کون پھینک دیتا ہے اور اچانک اس دنیا سے کون اٹھا لیتا ہے ؟بجائے اس کے کہ فلاسفہ اپنی عقل کی نارسائی کا اعتراف کرتے اور مذہب کے حضور سجدہ ریز ہوجاتے، اُن کی سرکشی اور ڈھٹائی کا عالم یہ ہے کہ پوسٹ ماڈرنسٹ مفکرین نے یہ مفروضہ کھڑا کر دیا کہ تمام مباحث کا تعلق میرے وجود Beingسے ہے ۔ میں کہا ںسے آیا تھا ؟اور میں میں کہاں جاوں گا ؟یہ وہ سوالات ہیں جن کا Being سے اور میری Existenceسے کوئی تعلق نہیں ۔ کیوں کہ میں نہیں تھا (دنیا میں آنے سے پہلے )، لہٰذا یہ سوال کہ میں کہا ںتھا بے کار سوال ہے اور مرنے کے بعد میں کہاں جاوں گا یہ سوال میرے مرنے کے بعد ہوگا اور چونکہ میں اس وقت موجود نہیں ہوں گا، لہٰذا اس بے کار سوال کے جواب پر غور و فکر کی کیا ضرورت ہے ؟
جدید نظام تعلیم میں انسان کے آفاقی مشن ، نصب العین اور انسان کا بحیثیت خلیفہ (Vicegenery) ہونے کا بھی کوئی تصور نہیں ہے بلکہ انسان کا نقطہ نظر، اس کی فکری ساخت و پرداخت ، اس کا طرز عمل، اس کی اخلاقی قدریں اور اس کا رہن سہن مغرب کے مطابق قرار دیتا ہے جدید نظام تعلیم کا ایک نقص یہ بھی ہے کہ مادہ پرستی اس پر غالب آچکی ہے ہر چیز اور ہر معاملہ کو نایہ ونوش ہی کی نگاہ سے دیکھا اور تولاجاتا ہے ۔ سرمایہ کہ خدمت کرنا اس کا مشن قرار پایا ۔ اس نظام تعلیم میں ہر چیز Pro market بنتی جارہے ہے اور انسان تک کوایک شئےComodity ) (کی نظر سے دیکھا جاتا ہے ۔ جدید نظام تعلیم کے بر عکس قرآن مجید میں جہاں علم کی عظیم غایت معرفت ذات و صفات بار ی تعالیٰ ہے، وہیں فلاح و خیر انسانی بھی ہے اس کا ایک مقصد افادہ ہے ۔یہ تصور قرآن مجید کی آیات سے متشرح ہوتا ہے مگر اس کی اساسیات محض مادی ہیں ۔ مغرب کے فلسفہ ٔ عملیت یا نتا ئیجیت (Progmatism)کے برعکس ان میں مادی اور اس جہانی نتائج کے علاوہ روحانی نفع اور آخرت کی خیر شامل ہے۔ یہ قرآن ہی کے اثباتی اور مشاہداتی رجحان کا نتیجہ تھا کہ ازمنہ مظلمہ کے خالص داخلی تصور علم کے بعد یورپ میں پہلے ذوق مشاہدہ و تحقیق اور پھر تجزیہ پیدا ہوا ۔(ملاحظہ ہو، اردو دائرہ معارف اسلامیہ)
اسلام دین و دنیا کی تقسیم کے قائل نہیں ہے اور نہ ہی دین و دنیا یا قدیم و جدید کے نام پر علم کو خانوں میں تقسیم کرتا ہے ۔علم میں ثنویت کا سلسلہ اہل کلیسا کی کارستانوں کی دین ہے ، اسلام اس کا کبھی قائل نہیں رہا ہے ۔ یہ تو بعد کے ادوار میں یونانی اور مغربی فکر و تہذیب کے اثرات کے نتیجہ میں سامنے آیا ہے اور اپنے مذموم اثرات قلوب و اذہان پر چھوڑ رہا ہے ۔ اسلام نے ہر مفیدچیز کو تسلیم کیا ہے اور ہر تجربے کو اختیار کیا جو دنیا ئے انسانیت کے لیے خیر کا باعث ہو ۔ البتہ اسلام کسی چیز کے غلط استعمال پر اعتراض کرتا ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو اخلاقی حس عطا کیا ہے ،اس کے علاوہ انسان پر کچھ ذمہ داریاں بھی عائد کر رکھی ہیں ۔انسان ان ذمہ داریوں اور اخلاقی حس کو اکثر و بیشتر استعمال میں نہیں لاتا جس کی وجہ سے زمین میں شر اور فساد پھیل جاتا ہے ۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : ہر گز نہیں اس نے وہ فرض ادا نہیں کیا جس کا اللہ نے اسے حکم دیا ہے ۔ ۔(عبس : ۲۳)
مغر ب میں سائنس داں ذرہ (Atom)جیسی باریک چیز کے تہ تک پہنچ گئے اور اس کو بے شمار چیزوں کو تیار کرنے میں استعمال کیا ،اس کے علاوہ اس کے ذریعہ سے مہلک ہتھیار بھی بنایا ۔ اس سے واضح ہوتاہے کہ یہ علم نہیں ہے بلکہ اس کا غلط استعمال ہی کسی چیز کو مفید بناتی ہے اور کسی چیز کو شر ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جب تک انسان اخلاقی حس سے لیس نہ ہو تب تک اس کی قابلیت اور اس کی صلاحیت سے زمین میںشر کے علاوہ کچھٍٍٍ نہیں پنپ سکتا ہے۔ دور جدید کے اُبھر تے ہوئے مسائل اور اُلجھنوں کو حل کرنے کے سلسلے میں جب تک نظام تعلیم میں اخلاقی قدروں اور وحی الٰہی کو شامل نہ کیا جائے تب تک انسان دنیا میں سکون اور امن کے ساتھ زندگی نہیں گزار سکتا ۔ مسلمانوںنے ماضی میں بے شمار سائنسی اور تحقیقی کارنامے انجام دئے جن کی وجہ سے دنیا میں نئی ایجادات کا نہ تھمنے والا سلسلہ شروع ہوگیا ۔ انہوں نے ہر چیز اور ایجاد کو خیر کا ضامن بنایا۔ماضی میں مسلمان دانائی اور اخلاقی قدروں سے مالا مال تھے ۔ انہوں نے یونان کی سائنس ، فلسفہ اور ادویات پر مبنی کتابوں کا ترجمہ کیا لیکن یونانی لٹریچر کو چھوڑ دیا ، کیوں کہ وہ معبودانِ باطل کی کہانیوں سے بھرا ہو ا تھا ، جو کسی بھی حیثیت سے نوع انسانیت کے لیے کارساز نہیں تھا ۔ یہ ایک زبر دست اخلاقی فیصلہ تھا کہ کون سی چیز فائدہ مند ہے اور کون سی چیز رد کرنے کے قابل ہے۔رازیؔ نویں صدی کے ایک بڑے سائنس داں اور مفکر گزرے ہیں جب ان سے زہر بنانے کی فرمائش کی گئی تو انہوں نے صاف انکار کردیا ۔وہ انتہائی با صلاحیت تھے اور زہر کو آسانی سے بنا سکتے تھے لیکن انہوں نے اس عمل کو مذہبی عقیدے کے مخالف سمجھا ۔یہ دو متضاد نظریات کے حاملین کا اپروچ ہے ۔ ایک اس کو نیوٹرل قرار دے کر اس کو پیشہ کی حیثیت سے اختیار کرکے بناتا ہے ۔ جب کہ دوسرے اس کو مذہب اور اخلاقی اصولوں کے خلاف سمجھتا ہے ۔اسی طرح سے کوئی بھی آئین جب تک اخلاقی اصولوں سے مزین ہو اس وقت تک وہ اچھا اور قابل استفادہ ہے لیکن اگر کوئی آرٹسٹ اخلاقی اصولوں اور اقدار سے خالی ہو تو وہ نوع انسانیت کے لیے تباہ کن ثابت ہوسکتا ہے۔ اس حقیقت کو ذہن میں رکھنا ضروری ہے کہ علوم کو اسلامیانے کا مطلب کوئی نیا علم گھڑنا نہیں اور نہ ہی مروجہ عصری علوم ، جو صدیوں کی محنت اور کاوشوں کا نتیجہ ہیں کو رد کرنا ہے ، اسلامیانے کا مطلب صرف یہ ہے کہ عصری تعلیم کو اسلامی فکر و عمل کے سانچہ میں ڈھال لیا جائے اور اس کو غیر اسلامی نظریوں سے پاک رکھا جائے اور اسلامی رویایتی علوم کے ساتھ اس کو مربوط کر لیا جائے ،موجودہ نصاب کا از سر نو جائزہ لیا جائے اور اس کو ایسے اصولوں سے دور رکھا جائے جو اسلامی قدروں اور اسلامی عقائد کے منافی ہوں ۔ایم ۔اے۔قاضیؔ کے بقول اسلامیانے کا مطلب یہ ہے کہ مہیا اطلاعات اور مفروضات کو از سر نو مرتب کیا جائے اور اس بات پر غور کیا جائے کہ ان مفروضات کو مسلمانوں کی فکر و تجسس میں اضافے کے لئے کس طور پر جانچا اور پرکھا جاسکتا ہے ۔
نظام تعلیم میں اتحاد
قرن اول میں مفکر ایک قائد بھی ہوتا تھا اور قائد ایک مفکر کی حیثیت سے بھی اپنا کام کرتا تھا ۔ بعد کے ادوار میں اس معجون مرکب میں درا ڑآگئی اور فکر و عمل کے اس اتحاد کو تہس نہس کیا گیا ۔ فکرو عمل ، دین و دنیا اور قدیم وجدید کو دوخانوں میں بانٹ دیا گیا ۔ عالم اسلام میں مدرسہ کا جو نظام تعلیم ہے وہ امت مسلمہ کے درپیش چلنجز اور تقاضوں کو پورا کرنے میں کو ئی اہم رول ادا نہیں کررہا ہے ،جب کہ جدید نظام تعلیم ترقی اور آزادی کے نام پر سکولرازم پر مبنی ہے ۔ لہٰذہ نظام تعلیم کے ان دونوںخانوں کو متحد کرنا ازحد ضروری ہے ۔ سکولر ازم پر مبنی نظام تعلیم کو اسلامائز کرنا اور قدیم نظام تعلیم کو up to dateکرنا وقت کا تقاضاہے۔ دونوں نظام ہائے تعلیم میں ایسی ہم آہنگی اور اتحاد پیدا کردیا جائے جو ہر لحاظ سے مفید بھی ہو اور قابل عمل بھی ۔ اس نظام تعلیم کی خصوصیت مولاناسید مودودیؒ کے مطابق یہ ہونی چاہیے کہ ’’ دینی و دنیاوی علوم کی انفرادیت مٹاکر دونوں کو ایک جان کردیا جائے ، علوم کو دینی و دنیاوی دو الگ قسموں میں منقسم کرنا دراصل دین و دنیا کی علاحدگی کے تصور پر مبنی ہے اور یہ تصور بنیادی طورپر غیر اسلامی ہے ۔ ‘‘مولانا مناظر احسن گیلانی ؒنے بھی نظام تعلیم کے اتحاد پر بات کی ہے ۔ انہوں نے لکھا ہے کہ مسلمانوں کے لئے عمومی تعلیم کا ایک ہی نظام ہو جس میں جدید تعلیم کے ساتھ اسلامیات اکی اتنی تعلیم شامل کر دی جائے کہ بی۔ اے کی سطح تک پہنچنے والا ہر طالب علم بنیادی دینی تعلم سے واقف ہوجائے ۔وہ مزید لکھتے ہیں کہ’’ میرا خیا ل ہے کہ وحدت تعلیم کے نظریہ پر اگر اتفاق کر لیا جائے عربی کے عام مدارس (دینی مدارس ) کو مدرسِ فوقانیہ (ہائی اسکول ) کی شکل میں بدل دی جائے جن میں دینیات کی تعلیم صرف قرآن پڑھانے تک ختم ہوجائے گی ، البتہ بعض بڑے تعلیمی مراکز ان کے تحتانی درجوں کو تو ہائی اسکول کی حیثیت دے دی جائے ۔ ان بڑے تعلیمی اداروں میـں سے مختلف مرکزوں کو مختلف دینی و اسلامی علوم کی تکمیل گاہ بناہ دی جائے جہاں یونیور سٹی کے فارغ شدہ طلبا کو دینی علوم میں کسی خاص علم مثلا تفسیر ،حدیث یا فقہ یا کلام میں اصلی تکمیلی تعلیم کے حاصل کرنے کا موقع مل سکتا ہے ۔ ‘‘ بر صغیر میں تین قسم کے نظام ہائے تعلیم موجود ہیں ،ان میں ایک کی نمائندگی دار العلوم دیوبند کر رہاہے جہاں سے علماء پیدا ہورہے ہیں ، دوسرے کی نمائندگی ندوۃ العلماء کرتاہے جہاں سے زبان و ادب اور تاریخ کے ماہرین پیدا ہورہے ہیں اور تیسرے کی نمائندگی علی گڑ ھ یونیورسٹی کررہا ہے جس سے جدید تعلیم یافتہ افراد پیداہورہے ہیں ۔ اکبرؔ الٰہ آبادی نے تینوں اداروں کے بارے میں کہا ہے ؎
قلب یقضان بے مثال دیوبند
اور ندوہ بے زبان شوش مند
اب علی گڑھ کی بھی تم تمثیل لو
اک معزز پیٹ تم اس کو کہو
انہوں نے دیوبند کو قلب دردمند، ندوہ کو زبان شوش مند اور علی گڑھ یونیورسٹی کو معزز پیٹ سے موسوم کیا ہے ۔ صاحب ’’معارف القرآن ‘‘ مولانا مفتی شفیع صاحب ؒکی تجویز آج بھی قابل غوراور کافی اہمیت کی حامل ہے کہ ہمیں نہ خالص دیوبند کی ضرورت ہے ، نہ خالص ندوہ کی اور نہ خالص علی گڑھ یونیورسٹی کی بلکہ ہمیں ایسے نظام تعلیم کی ضرورت ہے جس میں ہر چیز اپنے مقام پر موجود ہو۔
فون نمبر:6937700258