ماجد مجید
صدیوں پہلے اہل جاہلیت میں رذیل عادتیں وجدان شعور اور عقل سلیم کے خلاف باتیں پائی جاتی تھیں ۔تمدن کی آلائشوں اور دائو پیچ سے ناواقفیت اور دوری تھی۔لوگ ذرا ذرا سی بات پر فوراً بھڑک اٹھتے تھے نہایت خون ریز جنگ چھیڑ دیتے ۔اہل جاہلیت میں ذلت اور اہانت کی بو آتی تھی ۔لوگ شراب نوشی پر فخر کرتے تھے ۔نشے کی حالت میں مال لٹانا جوا کھیلنا انسانی طبیعت پر گراں نہیں گزرتا تھا ۔جہل اپنی طنابیں تانے ہوئے تھا۔خرافات کا دور دورہ تھا،ضعف اوربے بصیرتی کی پستی میں اجتماعی حالت گری ہوئی تھی۔ باپ بیٹے کا تعلق بھی مختلف نوعیت کا تھا کچھ ایسے بھی تھے جو لڑکیوں کو رسوائی اور خرچ کے خوف سے پیدا ہوتے ہی زندہ دفن کردیتے تھے اور بچوں کو فقر و فاقہ کے ڈر سے مار ڈالتے تھے۔نکاح کے بھی چار اقسام تھے،منافقت عام تھی۔خصوصاًجب آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ تشریف آور ہوئے۔رئیس المنافقین فتنہ گر اپنی چودھراہٹ بر قرار رکھنے کے لئے ہمیشہ رسول اللہؐ کے منبر پر جانے سے پہلے یعنی خطاب سے پہلے مسجد نبوی میں کھڑا ہو جاتا تھا اور اپنا دبدبہ قائم رکھنے کے لئے لوگوں سے کہتا تھا ۔لوگو ! دیکھو یہ اللہ کے رسولؐ ہیں ۔ان کی بات غور سے سنو! وہ جانتا تھا کہ اگر وہ کھل کر رسول اللہؐ سے دشمنی رکھے تو مشرکوں میں سے بھی کوئی اس کا ساتھ نہیں دےگا۔وہ ظاہر میں مسلمان دل سے دشمن ِ رسولؐ تھا۔لیکن رسول اللہؐ نے اُمت کےلئے صاف ستھرا جہل اور منافقت سے پاک معاشرہ تشکیل دیا۔آج دورِ جہالت میں اگر چہ لڑکیوں کو رُسوائی کے خوف سے پیدا ہوتے ہی زندہ در گور کردیا جاتا تھا،تاہم آج ہمارے معاشرے کے اونچے طبقے کے لوگ غریب گھر کی بیٹیوں کو تڑپا تڑپا کر ماررہے ہیں ،وہ شادی کی عمر پار کر چکے ہیں، اونچے طبقے کے لوگ شادیوں پر لاکھوں کروڑوں روپے لٹاتے ہیں جبکہ غریب گھر کی بیٹیاں اپنے نکاح کے پیغام کے لئے اپنے گھر کے دروازے کی دستک کو ترستے ہیں ۔
دور جاہلیت میں اگر چہ نکاح چار اقسام کے ہوا کرتے تھے تاہم موجودہ دور میں جنسی بے راہ روی عروج پر ہے۔ مساجد کے خطیبوں کی بات کریں، خطبہ پر اکثر خطیب کا ہر لفظ دل کو چھو لینے والا ہوتا ہے، سامعین خطبہ سننے سے محظوظ دِکھتے ہیں، دین کے قریب آکر خطیب کی سراہنا کرتے ہیں، لوگ جوق در جوق خطیب کو سننے آتے ہیں اور خطیب کے حق میں تعریف کے بول بھی بولتے ہیں ،جس سے خطیب کی اہمیت بھی بڑھ جاتی ہے ،جو خطیب کو بالکل پسند نہیں کہ تکبر کر زمرے میں نہ آئے ۔لہٰذا مسجد کا راستہ ترک کردیتا ہے ۔خطیب کو چاہئے کہ اللہ کاشکر ادا کرے کہ اللہ اُ س سے یہ کام لے رہا ہے، لیکن منفی سوچ سے اصل میں وہ اپنا علم چھپا رہا ہے۔انشاءاللہ وہ جواب دہ ہوگا۔ دوسری طرف ایسے بھی خطیب ہیں کہ منبر پر جانے سے پہلے ہی کم علم افراد اس کی توہین کرکے منبر سے گھسیٹتے ہیں، گدھا دھوئے سے بچھڑا نہیں ہوتا اور اس کا تقدس پامال کرکے اس کی دھجیاں اڑاتے ہیں۔ دورِ جاہلیت میں بھی رئیس المنافقین اور فتنہ گر تھے، لیکن آنحضورؐ کے منبر پر جانے سے پہلے ان کی عظمت بیان کرتے، ہر مسجد کا منبر، منبر رسول اللہؐ تصور کیا جاتا ہے اور ہم سب اعرابی اس مقام سے بے خبر اس کی دھجیاں اڑاتے ہیں ۔ ہمارے آقائے نامدارؐ نے اپنی اُمت کا مقام یوں بیان کیا ہے کہ حشر کے روز آپؐ کی اُمت تمام انبیاء کرام کے تبلیغ دین کی گواہی دیں گے اور اللہ کے حضور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اُمت کی گواہی تسلیم کی جائےگی ۔شراب اور نشہ آور اشیاء کا ذکر کریں تو بھینس کے آگے بین بجانے کے مترادف ہوگا کہ نالیوں اور راہ عام پر بے سدھ پڑے دِکھتے ہیں اور والدین اور ذمہ دار شخصیات گہری نیند سو چکے ہیں ۔
تکملہ ۔ سب سے پہلے معاشرے میں رہے افراد کو چاہئے کہ دل کی کدورت دور کرکے حسد ،کینہ اور فتنہ سے پاک نئے سرے سے معاشرہ تشکیل دیںاور شادیوں پر بے دریغ دولت لُٹانے پر آواز اٹھائیں ۔ مساجد میں منبر کو منبر رسولؐ تصور کرکے خطیب کو عزت دیں نہ کہ اس کی چادر چھین کے منبر رسول ؐ کے تقدس کو پامال کرکے اس کی دھجیاں اڑائیں۔خطییب کو بھی اپنی تعریف سننے پر اللہ تعالی کا شکر ادا کرنا چاہئے کہ اس کی بات سامعین تک پہونچ چکی ہے، اللہ اس کے کام سے راضی ہے نہ کہ اپنی منفی سوچ سے مسجد کا راستہ ہی ترک کرے کہ مبادا خطیب اللہ کے حضور تکبر کے زمرے میں آئے اور سارے اعمال سراب بن جائیں۔ والدین کو بھی بچوں کا خیال کرکے ان کی ہر جائز ضرورت پوری کرنی چاہئے۔ غریب گھر کی بیٹیوں سے رشتہ جوڑنے سے ذات پات کا وجود ہی ختم ہوجا ئے، سے پھر سے صاف ستھرا معاشرہ تشکیل پاسکتا ہے، یہی حقیقت ہے اور یہی سب مسائل کا حل ہے۔