سرینگر// جماعت اسلامی نے جامع مسجد سرینگر میں نمازیوں پر طاقت کے استعمال کی مذمت کرتے ہوئے اسے جارحانہ اقدام سے تعبیر کیا ہے۔پارٹی کے ترجمان ایڈوکیٹ زاہد علی نے کہا کہ اس طرزعمل سے واضح ہوتا ہے کہ ان اہلکاروں کو کشمیری مسلمانوں کے مال و جان کی کوئی پرواہ نہیں اور انہیں یہاں قتل عام کی کھلی چھوٹ ملی ہوئی ہے۔انہوں نے کہا کہ اگر ایسا نہیں ہوتا تو اس دلدوز واقعہ کے فوراً بعد ملوث اہلکاروں کے خلاف باضابطہ کیس رجسٹر ہوا ہوتا اور اُن کی گرفتاری بھی عمل میں آئی ہوتی! انہوں نے مزید کہا کہ وادی کشمیر کو ایک پولیس سٹیٹ بناکر رکھا گیا ہے اور اس کی باگ ڈور اُن افسروں کے ہاتھوں میں تھمادی گئی ہے جن کو یہاں کے عوام کے جینے مرنے سے کوئی واسطہ ہی نہیں البتہ وہ اُن کو ہر سطح پر دبانے کی خاطر اپنے اختیارات کا انتہائی بے جا استعمال کرتے ہیں اور اُن کی کوئی بھی جائز اور مبنی بر حق بات کو سننے سمجھنے کے لیے قطعاً آمادہ نہیں ہیں۔ترجمان کے مطابق ہر جمعہ کو جامع مسجد سرینگر کے ارد گرد بھاری فورسز کا حصار قائم کرکے لوگوں کو اشتعال دیا جاتا ہے اور وہ کوئی عبادت گاہ نہیں بلکہ ایک فوجی چھاونی لگتی ہے۔انہوں نے کہا کہ دراصل ایک منظم سازش کے تحت جامع مسجد کی اہمیت کو ختم کرانے کی خاطر جان بوجھ کر ایسے مجنونانہ اقدامات کئے جاتے ہیں تاکہ عوام جامع مسجد میں اللہ کی عبادت ترک کریں اور اس طرح اس کی تاریخی اہمیت ختم کی جائے۔انہوں نے مزید کہا کہ عوام کی برحق آواز دبانے کی خاطر ایک اور حربہ استعمال کیا جارہا ہے جس کے تحت یہاں کے حریت پسند لیڈروں اور کارکنوں کو بے بنیاد کیسوں میں پھنسا کر نظر بند کیا جاتا ہے اور انہیں عوام کے ساتھ رابطہ کرنے کا کوئی موقعہ فراہم نہیں کیا جاتا ہے ۔جماعت کے مطابق بالخصوص حریت (گ) چیئرمین سید علی گیلانی کو اسی وجہ سے سالہاسال سے گھر میں نظربند رکھا گیا ہے۔ جماعت اسلامی نے انسانی حقوق سے متعلق اداروں پر زور دیا ہے کہ وہ ان واقعات کا سنجیدگی کے ساتھ نوٹس لیتے ہوئے ان کی ایک غیر جانبدارانہ ایجنسی کے ذریعے تحقیقات کروائے۔ نیز جماعت اس المناک واقعہ میں زخمی ہوئے تمام افراد کی جلد صحت یابی کی متمنی ہے اور اُن کے ساتھ مکمل یکجہتی کا اظہار کرتی ہے۔