افسانچے
قیوم خان جب بیمار ہوا تو اس نے وہ تھیلہ المای سے نکال کر اپنے تکیے کے نیچے رکھ لیا۔اس کی بیماری نے طول پکڑا اور اس کے بیٹوں نے بڑے بڑے ڈاکٹروں سے اس کا علاج کروایا جب کہ دونوں بہوئویں بھی جی جان سے اس کی خوب خدمتیں کرتی رہیں۔
تین سال پہلے جب قیوم خان کی بیوی فوت ہوئی تو تب سے وہ اس تھیلے کو اپنے سے ایک پل کے لئے بھی جدا نہیں کرتا تھا ۔ گھر سے باہر جب جاتا تو تھیلہ ساتھ لے کر جاتا واپس آکر تھیلے کو الماری میں رکھ کر الماری کو تالا لگا دیتا ۔اس کے بیٹے اور بہوویں اس تھیلے کو لے کر سخت تذبذب میں تھے ۔بچے جب اسے تھیلے کے بارے میں پوچھتے تو انہیں ٹوکتے ہوئے کہتا تھا یہ جا دوئی تھیلہ ہے ۔بہر ہال بہترین علاج معالجہ اور سخت خدمت کے با وجود قیوم خان جانبر نہ ہو سکا اور اللہ کو پیارا ہوگیا ۔اس کے بیٹوں نے اولین فرصت میں وہ تھیلہ اٹھایا اور سنبھال کے رکھ دیا اور تجہیز تکفین کے بعد شام کو اس کے بڑے بیٹے نے سارے افراد خانہ کے سامنے وہ تھیلہ کھولا تو اس میں سے بوسیدہ کاغذ کے ٹکڑے اورسوکھے پتے نکلے،جنہیں دیکھ کر انہیں سخت صدمہ ہوا ۔
بھول
’’ آئو مجھے گلے لگائو۔۔۔۔۔۔دیکھو میں کتنی خوب صو رت اور پرکشش ہوں‘‘ ۔
جب سے اُس نے ہوش سنبھالا تھا تو اس پر کشش قاتل حسینہ نے اسے اپنی طرف مائل کرنا شروع کردیا، لیکن نہ جانے کیوں وہ اپنی ہی دھن میں مست ہمیشہ اسے نظر انداز کر کے چلتا رہا ۔جب اس کی عمر کچھ زیادہ ہوگئی تو اس حسینہ نے بھی اسے اپنے جال میں پھانسنے کے لئے اپنی کوششیں تیز کردیں، لیکن جب اس کی ساری تدبیریں نا کام ہوگئیں تو ایک دن وہ اس کے روبرو ہو گئی۔۔۔۔۔۔
’’ تم مجھے اس قدر کیوں نظر انداز کر رہے ہو ،دیکھو میرے چاہنے والے کس قدر عیش و عشرت سے زندگی گزار رہے ہیںاور تم فقیروں جیسی ۔۔۔۔۔۔‘‘۔
’’مجھے تم میں کچھ خاص نظر نہیں آرہا ہے سوائے دھوکے اور فریب کے ۔تمہاے جال میں وہ نادان پھنستے ہیں جو تم کو پہچاننے میں بھول کرتے ہیں‘‘ ۔
اس نے اس کی بات کاٹ کرپائے حقارت سے ٹھکراتے ہوئے کہا۔
’’ تم ایسا کیوں سوچتے ہو ؟‘‘
’’ کیوں کہ عارضی رنگینیوںاور عیش وعشرت میں الجھا کر تم نادان لوگوں کو اپنے جال میں پھانستی ہو اور ان کا اصل سرمایہ لوٹ کر فنا کے گھاٹ اتار دیتی ہو‘‘
اس نے قبرستان کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا ۔
طارق شبنم
اجس بانڈی پورہ کشمیر
ای میل؛[email protected]