پونے //ریاستی گونر این این وہرا نے کہا ہے کہ ثقافتی خوبصورتی کو جغرافیائی اور ریاستی حدود میں قید نہیں کیاجاسکتا ۔ انہوں نے کہا کہ مختلف ثقافتوں کی موجودگی ہی ہمارے ملک کی خاصیت ہے اوران ثقافتوںکو سمجھتے ہوئے ہمیں کشمیر کی مسئلے کا حل تلاش کرنا ہوگا۔ گونر این این وہرا ڈاکٹر ارونا دھیرے اور پرشانت تلنیکار کی طرف سے پنڈت کلہن کی لکھی ’’راج ترنگنی‘‘ کے مراٹھی ترجمہ کی رسم رونمائی کی تقریب پر خطاب کررہے تھے۔ پونے میں سرحد نامی تنظیم کی جانب سے کتاب کی رسم رونمائی کی تقریب میں معروف کشمیر قلمکار پران کشور کول، چیرمین فورس موٹر ابھے فرودی اورسرحد نامی تنظیم کے صدر اور بانی سنجے نہر بھی موجود تھے۔ اس موقعے پر گونر این این وہرا نے خطاب کرتے ہوئے کہا ’’کبھی کھبار وادی میں ناسازگار حالات کی وجہ سے سکولوں میں بچوں کی تعداد کم ہوجاتی ہے۔‘‘ انہوں نے کہا کہ ناسازگار حالات کی وجہ سے معمول کی زندگی درہم برہم ہوجاتی ہے اور کسی نہ کسی کو ناسازگار حالات میں اپنی جان گنوانی پڑتی ہے مگر مجھے اُمید ہے کہ ایک دن پوری کشمیر وادی میں ہم آہنگی ہوگی۔ انہوں نے کہا کہ وہاں عام آدمی کافی مشکلات کا سامنا کرتا ہے اور یہی وجہ سے کہ وہاں کے چند نوجوان تعلیم حاصل کرنے کیلئے پونے منتقل ہوئے ہیں تاکہ وہ اپنے مستقبل کو تاب ناک بنائیں۔ انہوں نے کہا کہ مہاراسٹرا اور کشمیر وادی میں رشتہ جوڑ کر سنجے نہر ایک بڑا کام کررہے ہیں اور اس موقعے پر مجھے پونے میں کئی کشمیری نوجوانوں سے ملاقات کرنے کا موقعہ ملا ہے۔ انہوں نے کہا کہ 7ویں صدی سے لیکر آج تک کشمیر میں کئی سکالر اور فلاسفر آئے۔ انہوں نے کہا کہ کشمیری ثقافت کو بڑھا اور اسی ثقافت کی وجہ سے کشمیر بھارت کے ساتھ رابطے میں تھا۔ انہوں نے کہا کہ 12ویں صدی میں لکھی گئی ’’راج ترنگی ‘‘ کی وجہ سے ہمیں پتا چلتا ہے کہ کشمیر کتنا خوشحال تھا۔ ووہرا نے کہا کہ راج ترنگی سے ہمیںکشمیر کی سماجی، سیاسی اور اقتصادیات کے بارے میںجانکاری ملتی ہے جیسا کہ پنڈت جواہر لال نہرو نے کہا ہے اور یہ سچ بھی ہے اور یہ بہت ضروری تھا کہ اس کتاب کا مراٹھی ترجمہ کیا جائے۔ انہوں نے کہا کہ ثقافت کے ذریعے ادبی علوم کی منتقلی ہوتی ہے اور ادبی علم ہمارے کلچر کا ایک اہم حصہ ہے۔ چیرمین فورس موٹرس ابھے فرودے نے کہا ’’ہم کشمیر کو مذہب اور سیاسی نظریہ سے دیکھتے ہیں جبکہ ہندو بمقابلہ مسلمان ایک اور سوچ ہے انہوں نے کہا کہ جغرافیائی اور سیاسی نظریہ جو پچھلے 100اور 150سال میں پیدا ہوا ہے، کشمیر کو دیکھتے ہیں مگر اس سے قبل یہ علاقہ اپنی ثقافت کی وجہ سے مشہور تھا۔ انہوں نے کہا کہ بھارتی ثقافت مختلف ثقافتوں سے بنی ہوئی ہے جن میں زبانیں، ادب، ناچ اور خوراک شامل ہے اور کشمیر ہمارے ملک کی ثقافت کا بھی حصہ ہے اور یہ اس کتاب میں لکھا ہوا ہے۔ رسم رونمائی کی تقریب پر خطاب کرتے ہوئے ’’سرحد‘‘ نامی تنظیم کے صدر اور بانی سنجے نہار نے کہا کہ کشمیر کی تاریخ بہت پرانی ہے۔ ہمیں تاریخ کے حساب سے ہی آگے بڑھنا چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ راج ترنگنی جموں و کشمیر اور مہاراشٹرا کے لوگوں کو جوڑے رکھے گی اور یہ دنوں ریاستوں کی آپسی سوچ بڑھانے میں مدد دے گی۔