سجاد احمد ڈار
ہندوستان اپنے تہذیب و تمدن کے اعتبار سے پورے عالم میں منفرد مقام رکھتا ہے۔ہڑپا اور موہنجودارو کے کھنڈرات سے یہ واضح ہوا کہ آج سے تقریباًپانچ ہزار سال پہلے یہاں کے لوگ کس قدر ترقی یافتہ اور مہذب تھے ۔موہنجودارو میں دریافت شدہ فن پاروںاور برآمد شدہ اشیاء سے پتہ چلتا ہے کہ اُس زمانے میں ہر طرح کا فن بام عروج پر تھا ۔فن تحریر میںاولین اساس ویدک کتابیں ہیں ۔یہ چار قسم کی کتابیںرگ وید،سام وید،یجر وید اور اتھر وید ہیں ۔ان تمام کتابوں کی تالیف غالباً ۱۵۰۰ قبل مسیح اور ۹۰۰ قبل مسیح کے درمیان ہوئی۔ویدک ادب چار ویدوںسمیناس،برہمناس ،آرایئاکاس اور اپنشیدوں پر مشتمل ہے ۔یہ کتابیں کردار کے اعتبار سے ایک جیسی نہیںہیں ۔انہیںمختلف ادوار میںمرتب کیا گیا ہے ۔آج کے دور میںسائنس نے حفظان صحت کے شعبے میں جو ترقی کی ہے ۔اسکے ابتدائی نقوش اُنہی ویدوںمیں موجود ہیں بلکہ ہندستانی نظام صحت کی بنیاد آیوروید پر ہی منحصر ہے ۔ذہنی و جسمانی صحت کے لیے یوگ کی اہمیت کو پورے عالم نے تسلیم کرلیا ہے۔
۳۱۴ ق۔م میں چندر گپت موریہ نے مملکت موریہ کی بنیاد رکھی ۔ان کو بھارت کے نامور مصنف و فلسفی چانکیہ کی رہبری اور مدد حاصل تھی ۔آپ مشہور تصنیف ارتھ شاسترموری مملکت کے متعلق ایک شاہکار ہے۔چندر گپت موریہ ہندستان کا پہلا تاریخی حکمران تھا ۔اس دور کے فن تعمیر میں سار ناتھ کے مجسمہ کو قومی نشان کا درجہ حاصل ہےجوتابناک ماضی کی واضح دلیل ہے ۔اسی دور میں سب سے پہلے منتری پریشد بنی ، جس کی تقلید آج تک ہو رہی ہے ۔
سنگم دور کو تامل ادب کا سنہری دور کہا جاتا ہے۔اس دور کا ادب ایک ہزار سال کے عرصہ پر پر محیط رہا ۔کشان دور ہندوستان کی تاریخ کا عظیم دور رہا ۔انکی حکومت افغانستان تک پھیلی ہوئی تھی ۔ساتا واہنا دور میں آرٹ آسمان کی بلندیوں کو چھونے لگا ۔انہوں نے مغربی دکن میںچٹانوںکو تراش کر منادر بنائیے۔گپت دور میں مصوری،موسیقی اور رقص کا فن بام عروج پر تھا ۔اسی دور میں اعظیم شاعر اور ڈرامہ نویس کالیداس پیدا ہوئے۔ان کے عہد آفرین ڈرامہ ’’ابھیج نانا شکنتلا ‘‘کو سنسکرت ادب کا بہترین ڈرامہ تصور کیا جاتا ہے ۔اس دور میںمشہور فلکیات آریہ بھٹ کا ظہور ہوا ،جنکی کتاب آریا بھاٹم کو آج بھی کافی اہمیت حاصل ہے ۔اس دور میں علمِ طب کو کافی فوقیت ملی اور واگ بھٹ نے اشٹگا سمگرا با لکھی جو ہندوستانی طب پر پہلا مقالمہ تھا ۔ہرش وردھن نے اپنی قابلیت اور قیادت سے ایک چھوٹی سی مملکت کو عظیم سلطنت میں تبدیل کر دیا ۔ہرش وردھن علم و ادب کا سر پرست ہونے کے ساتھ ایک ممتاز ڈرامہ نویس بھی تھا ۔انہوں نے اپنی سلطنت کو علم و ادب کا گہوارہ بنا دیا ۔
تہذیب و تمدن اور علوم وفنون میں ہندوستان کی عظمت یہ تھی کہ جب عربوں نے ہندوستانی سر زمین پر قدم رکھاتو انہوں نے فلسفہ ،فلکیات ،ریا ضیات ،طب اور دوسرے علوم سیکھنے شروع کئے ۔ہندوستانی دانشوروں کو بغداد بلایا گیا اور ان سے عرب عالموں نے ہندوستانی سائنسی علوم سیکھے ۔ممتاز شاعر امیرخسرو لکھتے ہیں کہ ایک عرب ماہرِ فلکیات ابو میثر سنسکرت اور فلکیات کا علم سیکھنے کے لیے بنارس میں دس برس تک مقیم رہا اورسنسکرت کی قدیم تصانیف کا عربی میں ترجمہ کیا گیا ۔چنانچہ جس تہذیب کی ابتدا تقریباً ۵۰۰۰ ہزار برس سے پہلے ہوئی ہے، وہ آج بھی اپنے اصلی رنگ وروپ میں قایم ہے ۔ ملک کے عظیم فنکاروں نے عرق ریزی و جان فشانی سے محنت کر کے اپنی میراث کو نسل در نسل منتقل کر کے آنے والی نسلوں کے لیے محفوظ رکھا ہے۔تبھی آج بھارت علم وہنر کے ہر شعبے میں اپنامنفرد مقام رکھتا ہے ۔
آج کی تاریخ میں اپنی تہذیب و تمدن ،قومی میراث کا محافظ بن کر اگر کوئی کھڑا ہے تو وہ ثقافتی تحقیق وتربیتی مرکز نئی دہلی ہے ۔کیونکہ اس ادارے نے اپنے آباواجداد سے ملی میراث کو محفوظ رکھنے اور اسے آنے والی نسلوں تک پہنچانے کا بیڑا اٹھایا ہے ۔یہ ادارہ سنہ ۱۹۷۹ میں قایم ہوا ۔اس ادارے کے قیام میں شریمتی کملا دیوی اور ڈاکٹر کپلا وتساین کا کلیدی رول رہا ۔یہ ادارہ ثقافتی وزارتِ کے تحت خود مختار حیثیت کے طور پر وجود میں آیا ۔سی۔سی آر ۔ٹی نامی اس ادارے نے آج تک سرکاری اسکولوںمیںکام کررہے لاکھوں اساتذہ صاحبان کو تربیت دی ۔ ان اساتذہ صاحبان کی وساطت سے زمینی سطح اپنے تہذیب وتمدن کے بارے میں آگاہی دی جارہی ہے اور طلباء کو اپنی میراث کے بارے جانکار اور حساس بنایا جارہا ہے ۔اس کے علاوہ مذکورہ ادارہ اُن طالب علموں کی حوصلہ افزائی کے لیے وظیفہ مقرر کرتا ہے جنکو کسی بھی فن مثلاً گیت ،سنگیت ،رقص،مصوری ،شاعری ،ڈرامہ اداکاری ،تخلیقی ادب وغیرہ میں تھوڑی بہت مہارت یا دلچسپی ہو ۔اس اسکیم کے تحت ہر سال کروڑوںروپے خرچ ہوتے ہیں۔جسکا مقصد یہی ہے کہ ملک کے فنکاروں کا تسلسل کہیں ٹوٹ نہ جائےبلکہ اس میں روز افزوں اضافہ و ترقی ہو جائے ۔قومی سطح کا یہ ادارہر سال سسمر کیمپ کا انعقاد کرکے کمسن بچوں کو کلچر کی تعلیم دے کر انہیں اپنی تہذیب و تاریخ سے آگاہ کر تے ہیں ۔اس کے علاوہ یہ ادارہ ملک کے مختلف شہروں میںایسے تربیتی پروگرام منعقد کرتا ہے جنکا مقصد لوگوں کو اپنے کلچر کو بچانے کے لیے بیدار کرنا ہے ۔
اپنے تہذیب و تمدن کے فروغ کے لیے سی۔سی۔آر۔ٹی ان تمام اسکولوں میں اپنے مالی تعاون سے کلچرل کلب کھولتی ہے، جن میں اس کے تربیت یافتہ استاد کام کر رہے ہیں ۔ان کلچرل کلبوں کے ذریعے ان اسکولوں میں بچوں کو اپنے فن کا مظاہرہ کرنے کے لئے پلیٹ فارم مہیا ہوتا ہے اور انہیں یہیںسے آگے بڑھنے کے لئے راہ ہموار ہوتی ہے۔ یہ موقر ادارہ ہر سال ملک کے عظیم فنکاروںکی حوصلہ افزائی کے لئے مختلف پروگراموں کا انعقاد کرتا اور اپنے فن میں کارہائے نمایاں انجام دینے والے فنکاروںکو توصیفی اسناد و انعام سے نوازا جاتا ہے اور ہر سال ایسے اساتذہ صاحبان کو ایوارڈدیتا ہےجو کلچر کے فروغ میں اپنا کلیدی کردار نبھاتے ہیں۔
اس ادارے نے آزادی کا امرت مہا اتسو کے بینر تلے ان گمنام ہیروں پر ۵۰۰۰ہزار سے زاید دستاویزی فلمیں تیار کیں، جنہوں نے آزادی کی لڑائی میں حصہ لیا تھا ۔اس کام کے لیے انہوں نے اپنے تربیت یافتہ اساتذہ کرام سے بھی کام لیا ۔اس ادارے نے اپنے ملک کے تہذیب وتمدن کو سنبھال کر اور سجا کر رکھنے کے لیے ایسی آرٹ گیلری بنائی جو ہمارے شاندار ماضی کی آئینہ دار ہے ۔واقعی ثقافتی تحقیق و تربیتی مرکز کو ہمارے میراث کے محافظ ہونے کا شرف حاصل ہے ۔