امریکہ کاایک ہدف ایران ہے جسے نہ صرف اپنے جوہری پروگرام کے بھگتان میں مسلسل اقتصادی پابندیوں کاسامناہے بلکہ وہ جوتھوڑابہت تیل فروخت کرسکتاہے ،وہ بھی کوڑیوں کے مول آن پہنچا ہے۔امریکااورسعودی عرب اگرسوچے سمجھے منصوبے کے تحت حادثاتی طورپرروس اور ایران کی معیشت کوتباہی کے دہانے پرپہنچارہے ہیں تواس کاخمیازہ ساری دنیاکوبھگتناپڑے گا ۔تیل کی تجارت جواب ایک جنگ میں بدل رہی ہے۔دنیاکے تیل پیداکرنے والے ممالک لیبیا،عراق، نائجیریا اور شام میں بدامنی کی وجہ سے تیل کی قیمتوں میں کمی امریکامیں تیل کی پیداوارمیں اضافے کی وجہ سے بھی ہوئی ہے اورتیل پیداکرنے والے ملکوں میں سعودی عرب کی حیثیت کیلئے ایک خطرہ بھی ہے اوراس سارے پس منظرمیں روس اورایران خاموش تماشائی نہیں بنے رہیں گے۔روس کی معیشت کاتوانائی کے ذرائع تیل اورگیس پراس حدتک انحصارہے کہ اسے ایک نشے سے تشبیہ دی جاسکتی ہے۔اس معاملے میں تیل کی قیمتوں میں کمی ،روس کوتکلیف دینے کے مترادف ہے اور ایساہی ہے جیسے ایک عادی نشے بازکانشہ یاموادروک لیا جائے ۔ایساواضح طورپرعالمی سیاست میں مخصوص مقاصد کے تحت کیاجارہاہے تاکہ روس کی معیشت کوکمزورکرکے عالمی میدان میں اس کے اثرورسوخ کوکم کیاجاسکے۔افغانستان میں تیل کے خفیف ذخائرتوہیں لیکن اتنے وسیع نہیں جس قدرعراق میں ہیں یااس کے پڑوسی ایران میں ہیں لیکن اس لحاظ سے افغانستان کی جغرافیائی اہمیت ہے کہ یہ تیل اورگیس کے وسیع ذخائر کے اہم برآمدی راستے پرواقع ہے ،بالکل اسی طرح جس طرح مشرقِ وسطیٰ کے تیل کے برآمدی راستے پرمصر کواہمیت حاصل ہے۔دنیاکی بڑی بڑی کمپنیوں کادیرینہ خواب ہے کہ وسط ایشیاکاتیل اورگیس کم سے کم لاگت اورسرعت کے ساتھ برآمدکی جاسکے اوریہ خواب افغانستان کے راستے گوادربندرگاہ پاکستان کے ذریعے ہی شرمندۂ تعبیرہوسکتاہے اوراس میں کوئی شک نہیں کہ اسی مقصدکے حصول کیلئے طالبان کومنظرعام پرلایاگیاتھا۔اس زمانے میں وسط ایشیا کے تیل اورگیس کی اہمیت امریکااورمغرب کیلئے بہت اہمیت ہے اوراس کی برآمدکیلئے سینٹ گیس کے نام سے سات کمپنیوںپرمشتمل ایک کنسورشیم قائم کیاگیاتھاجس میں یونوکیل تیل کمپنی کی قیادت میں چھ بڑی تیل کمپنیاں اورترکمانستان کی حکومت بھی شامل تھی۔اس کنشورشیم کامنصوبہ ترکمانستان کے شہردولت آبادسے سات سونوے میل لمبی گیس کی پائپ لائن بچھانے کاتھاجو افغانستان میں مغربی شہرہرات اورقندھارسے ہوتی ہوئی پہلے پاکستان میں ملتان تک جاتی ،اس منصوبے میں پائپ لائن کی بھارت میں دہلی تک اورکراچی کی بندرگاہ تک توسیع بھی شامل تھی۔ اس منصوبے پرلاگت کااندازہ ایک ارب 80کروڑ ڈالرکاتھا۔اسی کے ساتھ قازقستان اورازبکستان سے تیل کی نکاسی اورترسیل بھی اسی منصوبہ کاحصہ تھا۔
امریکاکے نائب صدرڈک چینی نے 1958ء میں جب وی ایک بڑی تیل کمپنی کے چیف ایگزیکٹو تھے ،کہاتھاکہ ان کے خیال میں دنیاکاکوئی علاقہ نہیں جوکیسپین کی طرح اچانک فوجی اہمیت کے علاقے کی صورت میں ابھراہولیکن وہاں سے نکلنے والے تیل اور گیس کی قدروقیمت نہیں،جب تک یہ دولت برآمدنہ ہوسکے ،واحدراستہ جوسیاسی اوراقتصادی طورپردستیاب ہے،وہ افغانستان ہے۔اس میں کوئی شبہ نہیں کہ کیسپین اوروسط ایشیاکے دوسرے ملکوں کے تیل وگیس کی برآمد کیلئے افغانستان سے بہتر کوئی اورراستہ نہیں ہے۔اگر اس تیل وگیس کی ترسیل روس یاآذربائیجان کے راستے سے ہوتی ہے تواس کی بدولت وسط ایشیاپرروس کے سیاسی اوراقتصادی اثرمیں اضافہ ہوگااورظاہرہے کہ امریکااورمغرب کے ممالک یہ نہیں چاہیں گے اورنہ یہ ممالک چاہیں گے کہ یہ تیل ایران کے راستے برآمدکیاجائے۔
اس میں اب کوئی شک نہیں کہ افغانستان میں طالبان کے قیام میں امریکی تیل کمپنی یونوکیل کی قیادت کاگہراتعلق تھا۔شروع شروع میں طالبان کو اسلحہ اورمالی اعانت کاسب سے بڑاذریعہ یہی کنسورشیم ہی تھا اوربلاشبہ اس میں پاکستان کی بھی بھرپورپشت پناہی شامل حال تھی ۔پاکستان کے مشورے پرطالبان کاایک اعلیٰ وفددسمبر1997ء میں امریکاگیاتھااورٹیکساس میں یونوکیل کے اعلیٰ عہدیداروں سے اس کی ملاقات ہوئی تھی۔ اس وفدمیں طالبان کے امیرخان متقی بھی شامل تھے اور یونوکیل نے اس وفدکی امریکاکے نائب وزیرخارجہ کارل انڈرفرتھ سے ملاقات کااہتمام کیاتھا لیکن 1998ء میں مشرقی افریقہ میں امریکی سفارت خانوں پربم حملوں کے بعدافغانستان میں اُسامہ بن لادن کے تربیتی مراکز پرامریکی میزائل حملوں کے بعدامریکی حکومت کے دباؤ کے نتیجے میں یونو کیل کنسورشیم سے علیحدہ ہوگئے اوربالآخریہ کنسورشیم بھی ختم ہوگیا۔اس زمانے سے امریکااور طالبان کے درمیان ہرقسم کے روابط اورتعلقاے ٹوٹ گئے ۔اس دوران وسط ایشیاکے تیل اورگیس کی بنیادپرایک طرف امریکااورمغربی ممالک اوردوسری طرف روس اورچین کے درمیان عراقی تیل پلانٹ اقتصادی اورسیاسی اثراوراجارہ داری کی جنگ جاری ہے۔یہ حقیقت ہرکوئی جانتاہے کہ پوری دنیاکی معیشت تیل وگیس پرچل رہی ہے۔جب تیل کی قیمتیں گرتےگرتے 26ڈالرتک آگئیں توسعودی عرب نےتیل پیداکرنے والے ممالک کی عالمی تنظیم اوپیک کی سفارشات کے باوجودروزانہ پیداوارمیں کمی سے انکارکردیا۔ان کامؤقف یہ تھاکہ یہ کساد بازاری ہمارے خلاف امریکی سازش ہے اورہم اس کا مقابلہ کریں گے مگراگلے سال یعنی 2015ء میں شاہ عبدللہ بن عبدالعزیز کی وفات کے بعدشاہ سلمان بادشاہ بنے جس کے ساتھ ہی ان کے بیٹے محمدبن سلمان جواس وقت ولی عہد ہے ،نے مملکت کے تمام اختیارات اورفیصلے اپنے ہاتھ میں لے لئے ۔ڈونالڈٹرمپ کے امریکی صدربننے کے بعدحالات میں ایسی ڈرامائی تبدیلی آگئی اور امریکااور سعودی عرب تاریخ کے اہم موڑ پر ایک دوسرے کے اتنے قریب آگئے کہ ٹرمپ نے سعودی عرب کے کہنے پرایران کے ساتھ بین الاقوامی فورم پرکیاگیانیوکلیئرمعاہدہ منسوخ کردیا اورنومبر2018ء سے ایران پرامریکاکی جانب سے معاشی پابندیوں کاآغازہوچکاہے۔اس وقت ایران کی پٹرولیم ایکسپورٹ میں واضح کمی آچکی ہے ۔ دوسری طرف لاطینی امریکاکے اوپیک ممبروینزویلامیں بحران کی وجہ سے وہاں کی حکومت تیل نکالنے میں دشواریاں محسوس کررہی ہے ۔وینزویلاکی یومیہ پیداوارپندرہ لاکھ بیرل یومیہ ہے جب کہ ایران کی دس لاکھ بیرل روزانہ ہے۔ان دوممالک کے آؤٹ ہونے کی وجہ سے تیل کی پیداوارمیں واضح کمی آئی ہے جس کی وجہ سے مارکیٹ میں تیل کی قیمتیں چڑھناشروع ہوگئی ہیں ۔اس صورت حال میں امریکانے سعودی عرب سے درخواست کی ہے کہ وہ اپنی دس لاکھ بیرل روزانہ پیداوارکوبڑھاکردگنی یعنی بیس لاکھ بیرل یومیہ کردے تاکہ دنیامیں پٹرول کی سپلائی اورقیمتوں میں استحکام لایاجاسکے ۔سعودی عرب نے امریکاکویقین دلایاہے کہ وہ دوملین بیرل یومیہ پیداوار کرسکتاہے حالانکہ ماہرین اس پرلچک کااظہارکرتے ہیں کہ سعودی عرب کے پاس اتنی گنجائش نہیں ہے کہ وہ اپنی یومیہ جاری پروڈکشن کودگناکرسکے لیکن سعودی عرب کیلئے خوشخبری یہ ہے کہ اب عالمی مارکیٹ میں ایک طرف تیل کی قیمتیں بڑھنے سے اس کی تیل کی آمدنی میں اچھا خاصا اضافہ ہوگیاہے اوردوسرااس کے تیل کی سیل دوگناہوگئی ہے گویااس وقت سعودی عرب کی پانچوں انگلیاں گھی میں ہیں اوراس وافر فروخت سے سعودی عرب کی آمدنی کئی گنابڑھ جائے گی اورشام اوریمن میں ہونے والے جنگی اخراجات اورگزشتہ کسادبازاری سے ہونے والے سارے نقصانات پورے ہو جائیں گے۔مشرقِ وسطیٰ کاعلاقہ اپنی خاص اسٹرٹیجک پوزیشن اورمالامال قدرتی ذخائرکاحامل ہونے کے سبب ہمیشہ ہی تسلط پسندطاقتوں کی خودغرضی پرمبنی پالیسیوں کانشانہ اورمختلف سازشوں کے خطرے میں رہاہے۔ان سازشوں میںنئے مشرقِ وسطیٰ کاسازشی منصوبہ بھی ہے جس کا محورو مرکز اسرائیل کوسیکورٹی فراہم کرنااورعلاقے میں انرجی کے ذخائرپرتسلط جماناہے۔اس امر کے تناظرمیں شام میں امریکاکے جاری فوجی اقدامات کے سلسلے میں کہناچاہئے کہ شام میں داعش کی شکست پہ شکست کے باوجوداس ملک کے کچھ حصوں پرامریکاکے قبضے کاخطرہ موجودہے کیونکہ شام کے تیل ا ورگیس کے اہم کنوئیں فرات کے مشرق میں واقع ہیں۔امریکاشروع سے ہی شام کے انرجی کے ذخائرپرتسلط حاصل کرنے کی مکروہ کوشش کرتا رہاہے اوراگرخطے کے ممالک امریکی خواہش کوتسلیم نہیں کریں گے توانہیں نئی مگرخطرناک جنگوں اوران کے بھاری اخراجات برداشت کرناپڑیں گے۔خلیج فارس کے کئی ممالک کے مابین ابھی پس پردہ بحران موجودہے جوٹرمپ کے علاقے کے دورے کے بعدشروع ہواہے۔ قطرکی گیس کے وسیع ذخائرپرقبضے کیلئے امریکااوربعض عرب حکام کی سازشوں کاسلسلہ جاری ہے۔ان امورکے پیش نظریہ کہاجاسکتاہے کہ علاقے میں تیل اور گیس کی جنگ کے پیچھے امریکاکاہاتھ ہے۔حالیہ دنوں میں ہم دیکھ رہے ہیں کہ اسرائیل نے لبنان کے تیل کے ذخائرپرقبضہ کرنے کیلئے اس کی بحری حدود میں اقدامات تیزکردئے ہیں ۔امریکا صہیونی حکومت کے ساتھ لبنان کے سرحدی اختلافات کے حل کیلئے ثالثی کی کوشش کے بہانے مداخلت کررہاہے تاکہ لبنان میں اپنے اوراسرائیل کے مذموم مقاصدکے حصول کیلئے زمین ہموار کی جاسکے۔اس کیلئے کچھ بعیدنہیں کہ حزب اللہ کورام کرنے کیلئے ایران پرجاری پابندیوں میں مزیدشدیداضافہ کردیاجائے اوربعدازاں پابندیوں میں نرمی لانے کیلئے درپردہ ایران کوحزب اللہ پراپنے اثرورسوخ کو استعمال کرنے کی کڑی شرط کے ساتھ منسلک کردیاجائے تاکہ خطے سے حزب اللہ کوخاموش کرنابھی ان کے ایجنڈے میں شامل ہے حالانکہ شام میں حزب اللہ کے کردارنے کسی بھی مسلم اتحادکوابھی تک کامیاب نہیں ہونے دیا۔لیبیا کی یومیہ تیل کی پیداوار ساڑھے آٹھ لاکھ بیرل ہواکرتی تھی ،اس وقت وہاں پٹرول میں پیداوارمکمل طورپربندہوچکی ہے کیونکہ سیاسی طور پرلیبیاکودوحصوں مشرقی لیبیااورمغربی لیبیامیں تقسیم کرنے کی جوجنگ جاری ہے ،اس کی وجہ سے وہاں تیل نکالنے کاکام بری طرح متاثرہوا ہے۔ عالمی سطح پرتیل کی قیمتوں میں اضافے کی وجوہات میں لیبیاکاتنازع بھی شامل ہوگیاہے۔2001ء میں جب امریکانے عراق پرحملے کامنصوبہ بنایا تواس پرسب سے زیادہ احتجاج امریکی اورمغربی ممالک کے شہریوں کی طرف سے کیا گیا تھا۔یہ ایک تاریخی حقیقت اورریکارڈ کی بات ہے کہ جب ایک ہی دن دنیاکے 100بڑے شہروں میں بیک وقت مظاہرے کئے گئے تھے اوران مظاہرین نے جوبینر اٹھا رکھے تھے ،ان پرلکھاہواتھا’’نوبلڈفارپٹرول ‘‘یعنی پٹرول کی خاطرخون مت بہاؤ۔ یقیناً لندن کی سڑکوں پرآج تک اس سے بڑامظاہرہ پچھلی چاردہائیوں سے نہیں دیکھاتھا۔اس وقت مڈل ایسٹ میں سعودی عرب اورایران کے درمیان جوتنازع خونریزی کی طرف بڑھ رہا ہے اس کابنیادی نقطہ یہی ہے کہ یہ پٹرول پرقبضے اورمفادات کی جنگ ہے جس میں امریکا نے سعودی عرب کاساتھ دینے کافیصلہ کیاہے ۔اگرچہ یہ سلسلہ اسی طرح چلتارہاتوٹرمپ کے اگلے الیکشن 2020ء سے پہلے تصادم کے امکانات بہت زیادہ بڑھ جائیں گے۔ماہرین کے مطابق 2019ء میں تیل کی اوسط قیمت 66ڈالرفی بیرل ہوگی۔ اگر مشرقِ وسطیٰ میں ایران اورسعودی عرب کے درمیان تصادم کی نوبت آئی توپٹرول کی قیمتیں مزید بڑھ جائیں گی۔اس ضمن میں شام اوریمن پر کنٹرول حاصل کرنے کے سنہری خواب جس طرح چکناچورہوئے ہیں ،سعو دی عرب کوسوچنا ہو گاکہ ایران ان دونوں سے زیادہ مشکل ہدف ہے اوراگرایک دفعہ جنگ شروع ہوگئی توحالات پر سعودی عرب اورخودامریکاجواس سازش کاسب سے بڑاکردارہے،اس کے بس اورگرفت میں بھی نہیں رہے گی۔صنعت ومعیشت کاآپس میں چولی دامن کاساتھ ہے ۔جس وقت ہماری دنیابائی پول(روس اورامریکا) سے گزررہی تھی ،اس وقت روس صنعتی اور معاشی اعتبارسے دنیاکی دوسری بڑی طاقت تھا،اب بکھرے ہوئے روس کی وسط ایشیائی ریاستوں کاجھکاؤروس کی بجائے چین کی طرف زیادہ ہے، مثلاً ازبکستان سے نکلنے والی گیس کاسب سے بڑاخریدارچین ہے ، روس کے پاس بھی گیس ہے اورروس کی معیشت کادارومدار80٪سے زائدتیل و گیس پرہے بلکہ زیادہ تیل پرہے جب کہ تیل کی عالمی قیمتیں اب شائداس دورمیں واپس نہ جاسکیں، جہاں روس اورسعودیہ جیسے ممالک تیل پر مکمل انحصارکرسکیں۔امریکاکوتیل کی بابت کوئی خطرہ نہیں کیونکہ اپنی ضرورت کا75٪وہ خودپیداکرتاہے ۔علاوہ ازیں اس نے اپنے ملک کی یومیہ استعمال کے پیش نظرچھ ماہ کاتیل الگ سے ذخیرہ بھی کر رکھاہے اورامریکاجلدہی شالے ٹیکنالوجی کے حصول کے بعدیہ 25٪بیرونی تیل خریدنے سے بھی بے نیازہوجائے گا اورکھل کردوسروں کے تیل کوعالمی بساط پرحریفوں کو سیدھاکرنے کیلئے استعمال کرپائے گا۔امریکااس وقت چین سے میچ کھیل رہاہے اورخلیجی ریاستیں آج بھی امریکی الیون کاحصہ ہیں۔
سابقہ سردجنگ اسلامی نظریاتی جنگ میں بمقابلہ اشتراکیت سمجھ میں آتی ہے جس میں سرمایہ دارانہ نظام یاامریکانظرنہیں آتالیکن اس نے سردجنگ کے دورمیں اپنے مفادات کیلئے اسلام کو استعمال کیا،جب کہ آج پھرہمیں گروہی اورمذہبی رنگ میں رنگی ہوئی سیاست دیکھ رہے ہیں جس میں روس پھرسے سرگرام کرداراداکرنے کیلئے پرتول رہاہے، جب کہ چین دنیاکومعاشی میدان میں مات دینے کیلئے تیاربیٹھاہے ۔دوسری طرف امریکا کاعالمی اثرورسوخ دن بدن کم ہوتا جارہاہے۔یورپ ویسے ہی جمودکاشکارہے ۔امریکاچین سے معاشی طورپرخفانظرآتاہے تو امریکاکو شمالی کوریاکی دھمکیاں اورٹرمپ کی ایران کوایٹمی ڈیل ختم کرنے کی د ھمکی۔ جنوبی ایشیامیں بھارت کواہم کرداراداکرنے کیلئے چارو ناچار تیار کرنا،افغان ایشوکوکسی حل کی طرف نہ لے جانا،روس کانئے نئے ایٹمی ہتھیاروں کاتجربہ شام پربعض اتحادیوں کی مخالفت کے باوجود ٹرمپ کاحملے کااحمقانہ فیصلہ جب کہ روسی اڈہ وہاں پہلے ہی موجودہے۔کیاایسے میں روس، چین ،شمالی کوریا،ایران،افغانستان اورکسی حدتک پاکستان اوربعض اتحادیوں کی مخالفت اور دنیا میںامریکاکاکم ہوتا عالمی اثرورسوخ دنیا جہاںکوسرد جنگ سے نکال کر ایک تیسری خوف ناک عالمی جنگ کی طرف دھکیل رہا ہے؟
(ختم شد)