گزشتہ دنوںسری نگر میں پیش آنے والے ایک اندوہناک و اقعے میں حول میں ایک 24 سالہ لڑکی کے چہرے پر تیزاب پھینکا گیا۔اب تک اس معاملے میں تین لوگوں کو گرفتار کیا گیا ہے جبکہ تحقیقات جاری ہے۔ ڈاکٹروں کے مطابق متاثرہ کا چہرہ سب سے زیادہ متاثر ہوتا ہے اور اسے مزید علاج کے لئے اب شاید چنئی بھیجا جائے گا۔ تیزاب کے حملے مختلف وجوہات کی بنا پرکئے جاتے ہیں، تاہم ان میں سے زیادہ تر ہمیشہ پدرانہ ذہنیت کے گرد گھومتے ہیں۔ زیادہ تر معاملات میں عورت کی طرف سے شادی کی پیشکش یا محبت کے رشتے سے انکار مرد کیلئے ناقابل قبول ہو جاتا ہے جو پھر اپنی انا کی تسکین کے لئے بدلہ لیتا ہے۔ اعداد و شمار پر نظر ڈالیں توہمارے ملک میں تیزاب کے حملے ہر سال بلند ترین سطح پر ہیں اور ہر سال بڑھ رہے ہیں۔ہر سال 250 سے لیکر300 واقعات رپورٹ ہوتے ہیں۔ تاہم، ایسڈ سروائیورز ٹرسٹ انٹرنیشنل کے مطابق حقیقی تعداد 1,000 سے تجاوز کر سکتی ہے۔یہ حملے متاثرین کو زندگی بھر کیلئے تباہ کن اثرات کے ساتھ چھوڑ دیتے ہیں۔ جسمانی درد اور طبی پیچیدگیوں کے علاوہ متاثرہ شخص زندگی کے لئے ناقابل تلافی نفسیاتی صدمے سے گزرتا ہے۔اس لیے چند سال قبل لاء کمیشن، خواتین کے قومی کمیشن اور دیگر حقوق نسواں کی تنظیموں نے تیزاب حملوں کے واقعات سے نمٹنے کے لئے ایک مخصوص قانون کا مطالبہ کیا تھا۔جلد ہی فوجداری قانون (ترمیمی) ایکٹ، 2013 کے تحت تیزاب گردی کے جرم کے خلاف بھی آئی پی سی اور سی آر پی سی میں ترامیم کی گئیں۔ ان ترامیم میں خواتین کے خلاف تشدد سے متعلق دفعات کو مزید سخت بنانے کی کوشش کی گئی تھی۔آئی پی سی میں جو ترامیم کی گئیں،اُن کے مطابق کوئی بھی شخص، جو جسم کے کسی حصے کو مستقل یا جزوی نقصان پہنچاتا ہے، خرابی پیدا کرتا ہے، جلاتا ہے، معذور کرتا ہے، بگاڑ دیتا ہے یا معذور کرتا ہے یا اس شخص پر تیزاب پھینک کر یا اس کے ذریعے جان بوجھ کر شدید چوٹ پہنچاتا ہے، اسے دس سال سے کم کی سزا نہیں ہوگی اور ا سکو عمر قید تک بڑھایا جاسکتا ہے اورساتھ میں جرما نہ بھی ہوگاجو کہ متاثرہ کے علاج کے طبی اخراجات کو پورا کرنے کے لیے منصفانہ اور معقول ہو گا اور اس دفعہ کے تحت لگائی گئی جرمانہ کی رقم متاثرہ کو ادا کی جائے گی۔اسی طرح دفعہ 326B کے تحت ایسے جرم کے ارتکاب کیلئے کم سے کم پانچ سال قید کی سزا دی جائے گی جس میں سات سال تک توسیع کی جا سکتی ہے، اور جرمانے کے بھی مکلف ہوں گے۔اسی طرح سی آر پی سی میں ترامیم کرکے ضابطہ فوجداری کی دفعہ 357A میں مزید دو دفعات شامل کرکے واضح کیاگیا ہے ریاستی حکومت کی جانب سے متاثرہ کو ادا کیا جانے والا معائوضہ اُس جرمانہ کی رقم کے علاوہ ہوگا جو مجرم پر عائد کیا جائے گا اور متاثرہ کو مفت طبی امداد فراہم کی جانی ہے۔ قانون میں ترامیم اور نفاذ کے ذریعے سزا کو پرانے دور کے مقابلے میں زیادہ سخت کر دیا گیا ہے لیکن یہ سوال پھر بھی اپنی جگہ پر قائم ہے کہ آخر یہ جرم کب ختم ہوگا؟۔متاثرہ اور اس کے خاندان کو جو جسمانی، نفسیاتی، سماجی اور معاشی نقصان پہنچتا ہے وہ ناقابل تلافی ہے۔ تیزاب کے حملے سے بچ جانے والے ہر فرد کے لئے مضبوط رہنا اور حملے کے بعد ہونے والی تبدیلیوں سے نمٹنا آسان نہیں ہے۔ اس لئے بغیر قابل عمل اجازت کے تیزاب کی ذخیرہ اندوزی اور فروخت کو مقامی منتظم کے ذریعے کنٹرول کیا جانا چاہئے۔ تحقیقات، استغاثہ، اور سزائیں وقت پر اور بغیر کسی رکاوٹ کے ہونی چاہئیں تاکہ انصاف میں تاخیر نہ ہو۔ایسے جرائم کا ارتکاب کرنے والے مجرم کسی رحم کے مستحق نہیں ہیں۔ اس لئے سزا اتنی سخت ہونی چاہیے کہ کوئی ایسا جرم کرنے سے پہلے سو بار سوچے کہ اس کا انجام کیا ہوگا۔اس کے ساتھ ساتھ ہمیں بھی سماجی سطح پر ایک صالح معاشرہ کی تعمیر کیلئے اپنا کردار ادا کرنا ہوگا کیونکہ جب معاشرے میں ہمارے نوجوان صالح بن جائیں تو ایسے جرائم خودبخود ختم ہوجائیں گے ۔اس کیلئے تعلیم ہی محض ایک ہتھیار نہیںہے بلکہ ہمیں اپنے بچوںکی اخلاقی و دینی تعلیم پر بھی توجہ دینے کی ضرورت ہے تاکہ وہ حقیقی معنوں میں انسان بن سکیں کیونکہ جس دن وہ انسان بنیں گے ،اُس دن وہ ایسے جرائم کے بارے میں سوچیں گے بھی نہیں۔