بلال فرقانی
سرینگر //وادی میں حالیہ دنوں خراب اور ناقص گوشت کی بڑی مقدار میں ضبطی کے بعد جہاں عوام میں گہرے خدشات نے جنم لیا ہے، وہیں تیار پکوان، وازوان، کباب اور گوشت فروشوں کا کاروبار بھی بری طرح متاثر ہوا ہے۔تیار پکوان(ریڈی میڈ گوشت) اور وازوان فروخت کرنے والے درجنوں چھوٹے کاروباری افراد، ہوٹل مالکان اور ریڑی فروش موجودہ صورتحال سے مایوس دکھائی دے رہے ہیں۔ شہر کے مختلف علاقوں میں گاہکوں کی تعداد میں نمایاں کمی دیکھی جا رہی ہے، جس سے ان افراد کا روزگار داو پر لگ چکا ہے۔حالیہ مٹن سکینڈل کے بعد لوگ ہوٹلوں، خوانچہ فروشوںاور تیار گوشت فروخت کرنے والوں سے گریز کرنے لگے ہیں۔ گوشت کے ماخذ، معیار اور حتی کہ حلال ہونے پر بھی شکوک و شبہات عوامی بحث کا موضوع بن گئے ہیں۔ صارفین کا کہنا ہے کہ وہ شاذ و نادر ہی کسی سرکاری اہلکار کو ان دکانوں کی نگرانی کرتے دیکھتے ہیں، اور سڑے ہوئے گوشت کے معاملے کے بعد تو انہوں نے ان سے مکمل طور پر فاصلہ اختیار کر لیا ہے۔ ایک معروف کیٹرنگ کنٹریکٹر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر کہا حکام اکثر ہوٹلوں اور فوڈ آوٹ لیٹس کی جانچ کرتے ہیں، مگر اصل سوال یہ ہے کہ یہ گوشت کہاں سے آ رہا ہے؟ کیا یہ حفظانِ صحت کے اصولوں کے مطابق ہے؟ کیا یہ واقعی حلال ہے؟ سوال تو بے شمار ہیں لیکن واضح جواب بہت کم ملتے ہیں۔خیام میں سڑک کنارے کباب بیچنے والے محمد رفیق نے کہا، خراب گوشت کے انکشاف کے بعد ہمارا کاروبار بری طرح متاثر ہوا ہے۔ ہم جیسے افراد جو ایمانداری سے کام کر رہے تھے، ان پر بھی شبہ کیا جا رہا ہے۔ ہم چاہتے ہیں کہ کارروائی ضرور ہو، لیکن سب کو ایک ہی نظر سے نہ دیکھا جائے۔ جب تک دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی الگ نہیں کیا جائے گا، تب تک ہمیں نقصان ہی اٹھانا پڑے گا۔ڈرگس اینڈ فوڈ سیفٹی آرگنائزیشن نے شمال و جنوب میں چھاپہ ماری اور معائنوں و نگرانی کا سلسلہ دراز کیا ہے،تاکہ ناقص گوشت کی سپلائی چین کو طشت از بام کیا جاسکے۔متعلقہ محکمہ نے سڑک کناروں پر سیخ کباب فروخت کرنے والوں کے معائنوں کا سلسلہ بھی تیز کیا ہے۔قمر واری کے امتیاز احمد، جو گزشتہ 30 سال سے ریڑی پر سیخ کباب فروخت کرتے آ رہے ہیں، نے اعتراف کیا کہ لوگوں کے خدشات بجا ہیں۔ان کا کہنا تھاایک مچھلی سارے تالاب کو گندہ کرتی ہے۔ لیکن یہ بھی سچ ہے کہ ہمارے مستقل خریدار جانتے ہیں کہ ہم کہاں سے مال خریدتے ہیں اور کس معیار کا گوشت استعمال کرتے ہیں۔ ڈلگیٹ کے محمد امین، جو ریڈی میٹ پکوان کی دکان چلاتے ہیں، نے کہا کہ اگرچہ ان کے خلاف کبھی کوئی شکایت سامنے نہیں آئی، مگر موجودہ حالات میں محض چند خریدار ہی دکان پر آ رہے ہیں۔ انہوں نے محکمہ خوراک و ادویات سے اپیل کی کہ وہ ان عناصر کو بے نقاب کریں جو اس پورے نیٹ ورک میں ملوث ہیں، تاکہ ایماندار کاروباری افراد کو بلاوجہ کی سزا نہ ملے۔اسی طرح جواہر نگر کے معروف احمد، جن کی سرینگر میں 5 دکانیں ہیں، کا کہنا تھا،ہم ہمیشہ سے شفاف انداز میں کام کر رہے ہیں، لیکن موجودہ ماحول میں لوگوں کا اعتماد کم ہوا ہے، اور خریداروں کی آمد میں نمایاں کمی دیکھی جا رہی ہے۔اس صورتحال میں کشمیر ہوٹل اینڈ ریسٹورنٹ اونرز ایسوسی ایشن کے سابق صدر سراج احمد سراج نے کہا کہ محکمہ ڈرگس اینڈ فوڈ سیفٹی کو چاہیے کہ وہ اپنی کارروائیوں میں مزید شدت لائے اور جو لوگ مضر صحت گوشت کے دھندے میں ملوث ہیں، ان کے خلاف قانونی کارروائی کی جائے۔ ان کا کہنا تھا بڑے ہوٹلوں کو زیادہ نقصان نہیں پہنچا کیونکہ صارفین کو معلوم ہے کہ یہاں معیار کا خیال رکھا جاتا ہے۔جموں و کشمیر ہوٹل اینڈ ریسٹورنٹ اونرس ایسوسی ایشن کے صدر بابر چودھری نے بھی واضح کیا کہ معروف ہوٹل روزانہ تازہ گوشت استعمال کرتے ہیں، جس کا باقاعدہ اندراج ہوتا ہے۔ انہوں نے کہا،ہمارے ہوٹلوں میں گوشت کو مخصوص درجہ حرارت پر محفوظ کیا جاتا ہے اور استعمال شدہ مقدار کا حساب رکھا جاتا ہے۔ شفافیت ہی ہماری پالیسی کا حصہ ہے۔بابر چودھری نے مزید کہا کہ اگرچہ عوامی خدشات برحق ہیں، تاہم ان کے ادارے پر اعتماد کی وجہ سے ان کا کاروبار متاثر نہیں ہوا۔ ان کا کہنا تھاہم چاہتے ہیں کہ متعلقہ محکمہ اس معاملے کی تہہ تک پہنچے، اور ہم ہر ممکن تعاون فراہم کرنے کو تیار ہیں۔اسسٹنٹ کنٹرولر ،فوڈ سیفٹی آرگنائزیشن ہلال احمد میر نے کہا کہ محکمہ متواتر طور پر ریڑیوں پر سیخ گوشت فروخت کرنے والوں کا بھی معائنہ کرتا رہتا ہے۔انہوںنے کہایہ خوانچہ فروش ادارے کی نگرانی میں ہیں اور آئندہ بھی نگرانی جاری رہے گی۔کمشنر فوڈ سیفٹی آرگنائزشن سمیتی سیٹھی نے کہا کہ ریڑیوں پر کھانے پینے کی اشیا فروخت کرنے والوں کا معائنہ کیا ایک متواتر عمل ہے تاہم جس جگہ سے بھی ادارے کو شکایت ملتی ہے وہاں پر خصوصی مہم چلائی جاتی ہے۔