نئی دہلی +سرینگر// تہاڑ جیل میں کشمیری اسیران کے ٹارچر کا سنجیدہ نوٹس لیتے ہوئے وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی کی درخواست پر مرکزی داخلہ سیکریٹری نے اس معاملے کی تحقیقات کرانے کی یقین دہانی کراتے ہوئے کہا ہے کہ واقعہ میں جو بھی ملوث ہونگے انکے خلاف کارروائی کی جائے گی۔اس دوران دلی ہائی کورٹ میں بھی یہ معاملہ زیر بحث آیا جس کے بعد معاملے کی جوڈیشل تحقیقات کرانے کا حکم دیا گیا ہے۔محبوبہ مفتی نے جیل میں بند قیدیوں کا جسمانی ٹارچر کرنے پر اپنی شدید تشویش کا اظہار کرتے ہوئے منگل کو یہ معاملہ مرکزی داخلہ سیکریٹری راجیو گوبا کیساتھ فون کرکے اٹھایا اور انہیں معاملے کی چھان بین کرنے اور اس میں مداخلت کرنے کیلئے کہا۔ایک سرکاری بیان میں کہا گیا ہے کہ ہوم سیکریٹری نے وزیر اعلیٰ کو اس بات کی یقین دہانی کرائی کہ واقعہ کی مکمل تحقیقات کی جائے گی اور جس نے بھی جیل مینول کی خلاف وارزی کی ہوگی اسکے خلاف سخت کارروائی کی جائے گی۔تہاڑ جیل میں قیدیوں کے بنیادی اور قانونی حقوق کی خلاف ورزی کا معاملہ منگل کو دلی ہائی کورٹ میں بھی زیر بحث آیا جس کے دوران قیدیوں کو جسمانی ٹارچر کے الزامات کی جوڈیشل تحقیقات کا حکم دیا گیا۔ہائی کورٹ نے 21نومبر کی شب جیل میں قیدیوں پر حملے کو ناقابل برداشت قرار دیتے ہوئے اسے تشویشناک کہا ہے۔قائمقام چیف جسٹس گیتا متل اور جسٹس سی ہری شنکر پر مشتمل ڈویژن بینچ نے کہا’’ ہمیں اسے دیکھنا ہوگا،یہ واقعہ قطعی طور بلا جواز ہے،اگر یہ دلی کی صورتحال ہے تو دیگر جگہوں میں کیا ہوگی‘‘۔انہوں نے کہا’’ معاملہ انتہائی سنجیدہ ہے اور سنجیدہ تحقیقات کا حامل ہے‘‘۔ڈویژن بینچ نے ٹرائل کورٹ کے ڈسٹرکٹ جج کی سربراہی میں تین ارکان پر مشتمل ایک تحقیقاتی کمیٹی تشکیل دی جنہیں اس بات کی ہدایات دی گئی ہیں کہ وہ تہاڑ جیل میں جیل حکام کی جانب سے 18قیدیوں کی مبینہ مارپیٹ کی تحقیقاتی رپورٹ عدالت کے سامنے پیش کرے۔دلی ہائی کورٹ کا ڈویژن بینچ مفاد عامہ کی ایک عرضی کی سمات کررہا تھا جو صلاح الدین کے بیٹے کے وکیل ایڈوکیٹ چنمے کنوجہ کی طرف سے دائر کی گئی ہے، جس میں انہوں نے الزام لگایا کہ انکے موکل شاہد یوسف، جنکی تحقیقات این آئی اے کررہا ہے، اور جس کا کیس زیر تفتیش ہے، کو جیل حکام نے بلا وجہ شدید مارا پیٹا۔ایڈوکیٹ جواہر راجا نے درخواست کی کہ جیل سٹاف نے ایک خاص طبقے کو نشانہ بنایا جس میں شاہد یوسف بھی تھا،جس کے باعث قیدیوں کو شدید چوٹیں آئیں ہیں۔
واقعہ کب ہوا؟
در اصلرواں ماہ کی21تاریخ کو دلی کی تہاڑ جیل میں جیل نمبر1کے وارڈCاور وارڈFمیں جیل کی سیکورٹی پر مامور اہلکاروں کے ذریعے18قیدیوں کی بے تحاشا مارپیٹ کا واقعہ پیش آیا۔تہاڑ کی جیل نمبر ایک کی حفاظت پر تامل ناڈو پولیس کی سپیشل سیل سے وابستہ اہلکار مامور ہیں اور ان کے ساتھ ساتھ کوئیک ریسپانس ٹیم کے اہلکاروں نے بھی نظر بندوں کو بلا وجہ جانوروں کی طرح مارا پیٹا۔زخمی قیدیوں میں بیشتر کشمیری نظر بند ہیں جن میںحزب المجاہدین کے سربراہ سید صلاح الدین کے فرزند سید شاہد یوسف کا نام قابل ذکر ہے۔اس واقعہ میں شاہد سمیت کئی کشمیری قیدی بری طرح زخمی ہوگئے۔واقعہ کے دوروز بعد یعنی23نومبر کو سید شاہد یوسف کے وکیل ایڈوکیٹ جواہر راجا کے معاون وکیل ایڈوکیٹ چنمے کنوجہ جب سید شاہدیوسف سے ملاقات کرنے کیلئے22نومبر کو تہاڑ جیل گئے تو وہاں انہیں واقعہ کا علم ہوا ۔واپسی پر انہوں نے دلی ہائی کورٹ میں ایک مفاد عامہ عرضی دائر کرتے ہوئے عدالت کے سامنے واقعہ کی تفاصیل بیان کرنے کے علاوہ ثبوت کے بطور شاہد یوسف کی خون میں لت پت بنیان بھی پیش کی۔
عدالتی تحقیقات
دلی ہائی کورٹ کی قائمقام چیف جسٹس ، جسٹس گیتا متل اور جسٹس سی ہری شنکر پر مشتمل ڈویژن بنچ نے قیدیوں پر جیل سٹاف کے حملے اور مارپیٹ کو انتہائی پریشان کن اور سنجیدہ نوعیت کا قرار دیتے ہوئے اس کی تحقیقات کیلئے خصوصی جج برجیش سیٹھی کی سربراہی میں سہ رکنی فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی تشکیل دی جس نے جیل کے دورے کے دوران نہ صرف قیدیوں سے بات چیت کی بلکہ جیل نمبر ایک میں نصف سی سی ٹی وی فوٹیج کا بھی جائزہ لیا۔کمیٹی نے عدالت کے سامنے جو عبوری رپورٹ پیش کی ہے، اس میں قیدیوں کی دو یادداشتوں کے ساتھ ساتھ سی سی ٹی وی فوٹیج بھی شامل ہے۔کمیٹی نے واضح کیا ہے کہ جب یہ واقعہ پیش آیا، اس وقت قیدیوں کی طرف سے کسی قسم کی اشتعال انگیزی نہیں کی گئی۔ فوٹیج میں جیل اہلکاروں کو مختلف اوقات میں مختلف وارڈوں میں داخل ہوکر قیدیوں کی جانوروں کی طرح مارپیٹ کرتے ہوئے دیکھا جاسکتاہے۔منگل کو ڈویژن بینچ نے مفاد عامہ عرضی پر فیصلہ سناتے ہوئے ایک سیشن جج کی سربراہی میں 3رکنی ٹیم تشکیل دی جو معاملے کی تحقیقات کرے گی۔ ٹیم کو فوری طور پر رپورٹ ڈویژن بینچ کے سامنے پیش کرنے کو کہا گیا ہے۔