ایس معشوق احمد
اس دور اضطراب میں انسان کے گرد اداسی ، پریشانی ، دُکھوں اور مصیبتوں نے ایک بلند و بالا قلعہ تعمیر کیا ہے جس کو پھلانگ کر خوشی کے محل میں داخل ہونا انسان کے لئے ناممکن بن گیا ہے ۔اس انتشار میں اگر کوئی قلمکار کسی کے لبوں پر مسکراہٹ اور ماتھے پر ہنسی اور قہقے کا جھومر سجاتا ہے تو میری نظر میں وہ جنتی ہے اور انسانوں کو خوشی اور مسرت کے لمحات میسر رکھنے کے بدلے بلا حساب بخشا جائے گا۔ طیب احسن تابش نے جنت کما کر رکھی ہے کہ انہوں نے تو تو میں میں جیسی طنزو مزاح سے بھرپور کتاب لکھ کر قارئین کو ہنسی کے لمحات میسر رکھنے کی بھرپور سعی کی ہے۔
طبیب احسن تابش کا تعلق رانچی جھارکھنڈ سے ہے۔ان کی کتاب ’’تو تو میں میں ‘‘2024 ء میں شائع ہوئی ہے۔کتاب میں کل اکتالیس مضامین شامل ہیں۔ طبیب احسن تابش نے دبے لفظوں میں اقرار کیا ہے کہ _ ؎
دنیا نے تجربات و حوادث کی شکل میں
جو کچھ مجھے دیا ہے وہ لوٹا رہا ہوں میں
دنیا میں رونما ہونے والے واقعات سے انہیں جو تجربات حاصل ہوئے اس کو لوٹانے کے لئے انہوں نے طنز و مزاح کا سہارا لیا ہے۔ انہوں نے پہلی ہی مضمون میں خواہشں کی ہے کہ کاش چھپ جاتی میری بھی تصویر اور اخبار میں تصویر آنے کی جستجو میں بیگم سے مشورے کے بعد کبھی وہ بچے کی پیدائش پر حاضر رہتا ہے تو کبھی شادی میں شرکت کرتا ہے ، کبھی جنازے کی پہلی صف میں آن کھڑا ہوتا ہے کہ ان ہی موقعوں پر تصویریں شوق سے اُتاری جاتی ہیں۔جب یہاں کام نہ بنا تو مقرر بن کر اصلاح معاشرے پر تقرر کی ۔سو جتن کے بعد جب ان کی تصویر اخبار میں آئی تو ان کا کیا حال ہوا اُن کی زبانی سن لیجیے:
’’ ابا تصویر کشی کے سخت خلاف تھے۔میں آگے آگے ابا پیچھے پیچھے بھاگے جارہے ہیں۔صبح میں سیر و تفریح پر نکلے لوگوں نے دیکھا ایک بوڑھا ایک جوان کو دوڑا رہا ہے۔لوگ سیلفی لیتے رہے، ان ہی لوگوں میں کچھ میڈیا والے بھی تھے۔ صبح اخبار میں مع تصویر خبر چھپی ’’ ایک بوڑھا ایک جوان کو دوڑا رہا ہے۔‘‘
اس صورت حال سے جھنجلا کر طبیب احسن نے ایک اور مزاحیہ مضمون لکھا دماغ خراب مت کرو اور اس میں ان تمام اشخاص اور رویوں کا ذکر کیا جو دماغ پر اثر ڈالتے ہیں ،جن میں بیوی کی فرمائش ، بچوں کی فرمائش اور شعراء کی کیفیات کا ذکر کیا ہے جو انہوں نے اشعار میں بیان کی ہیں اور جن سے اندیشہ ملتا ہے کہ ہو نہ ہو کسی نہ کسی نے ان کا دماغ ضرور خراب کیا ہوگا۔نیتا کا دماغ جنتا خراب کرتی ہے ، ڈاکٹر کا مریض ، کنڈکٹر کا مسافر ، استاد کا شاگر ، وکیل کا موکل ، پولیس کا ملزم ، میاں کا بیوی۔جب ان کی سمجھ میں کچھ نہیں آتا تو لکھتے ہیں کہ _:’’میری سمجھ میں یہ بات نہیں آتی کہ جسم کے اندر بہت سارے اعضاء ہیں مگر غصے میں کوئی یہ نہیں کہتا کہ دیکھو میرا سر خراب مت کرو ، میرا پیٹ خراب مت کرو، میری کڈنی خراب مت کرو ،دماغ ہی خراب کرنے سے کیوں منع کرتا ہے۔‘‘
تو تو میں میں کوچنگ سینٹر نامی طنزیہ مضمون میں مصنف نے تو تو میں میں کوچنگ سینٹر کا عمل میں آنا ضروری قرار دیا ہے کہ اس کی ضرورت زندگی کے ہر شعبے میں پڑتی ہے۔لڑکیوں کو خاص کر اس سنیٹر میں ضرور داخلہ لینا چاہیے تاکہ سسرال میں اس کوچنگ سے ان کو فائدہ ہو اور ساس ، نند کے سامنے انہیں سہولیات کا سامنا رہے۔تو تو میں میں کس گھر میں نہیں ہوتی ، بیٹا باپ سے ، میاں بیگم سے، مالک نوکر سے ، دوکاندار خریدار سے تو تو میں میں کرتے ہی ہیں۔ آجکل بیٹا باپ سے تو تو میں میں کرے تو وہ ذہین ،چالاک ، اسمارٹ سمجھا جاتا ہے اور باپ کا احترام کرنے والوں کو دنیا دقیانوسی خیال کا حامل تصور کرتی ہے۔ مصنف نے ’’ تو تو میں میں‘‘ کے فائدے گنواتے ہوئے لکھا ہے _:
’’ جب تو تو میں میں نہیں ہوتی مسائل حل نہیں ہوتے۔اس لئے سماج میں پھیلے مسائل کو حل کرنے کے لئے تو تو میں میں ہونی ہی چاہیے ۔اس سے ذہن اور دماغ کے بند دریچے کھلتے ہیں۔‘‘
طبیب احسن تابش کبھی مردوں سے انٹرویو کرنے پہنچ جاتے ہیں تو کبھی فقیروں کی کانفرنس بلا کر ان کا حال دریافت کرتے ہیں۔کبھی گڑگڑاہٹ چومن پوری کے شعری مجموعے کی رسم اجراء کا حال سناتے ہیں تو کبھی آمد اور آورد کی شاعری پر خامہ فرسائی کرتے ہیں۔ انہوں نے گھر سے گھر والی تک کا حال بھی لکھا ہے جھوٹ بول کر اپنا قد اونچا کرنے کی ترکیب آئیے پھینکنا سکھیں میں بتاکر بوتل سے ہوٹل تک کی پوری روداد رقم کی ہے۔کبھی ایک سفر رانچی سے شہر آہن تک کی تفصیل رقم کرتے ہیں تو کبھی حجاب سے خضاب تک میں دونوں کی افادیت بیان کرتے ہیں کہ بنیادی طور پر دونوں کا کام چھپانا ہے کہ حجاب چہرے کو اور خضاب ضعیفی اور سفیدی کو چھپاتا ہے۔احسن تابش کبھی لیٹر سے لو لیٹر لکھنے کا طریقہ سکھاتے ہیں اور اگر بندہ پھنس جائے تو دیکھ لیں گے میں اس کا نسخہ بتاتے ہیں۔غرض انہوں نے تو تو میں میں میں کھانا سے دوا خانہ تک کی داستان بھی دلنشیں انداز میں سنائی ہے اور دامادوں کی کانفرنس کا حال بھی لکھا ہے۔کبھی رشتوں کی ہیرا پھیری کا قصہ چھیڑتے ہیں تو کبھی اس جستجو میں نکلتے ہیں کہ مجھے تلاش ہے ایک جھوٹے انسان کی اور اس کے لئے چندا ماما سے بات چیت کرنے پہنچ جاتے ہیں۔
تو تو میں میں، میں کہیں مزاح کے پھوار پڑتی ہے اور قاری زیر لب مسکراتا ہے تو کہیں طنز کے تیر برسائے گئے ہیں جس سے قاری زخمی نہیں ہوتا بلکہ اس کی سوچ بیدار ہوتی ہے اور وہ ان مسائل کا علاج اور حل سوچنے میں منہمک ہوتا ہے جن پر ان مضامین میں طنز کیا گیا ہے۔بعض مضامین کتاب میں ایسے بھی شامل ہیں جن میں نہ طنز کی کاٹ ہے اور نہ مزاح کا مرہم ۔ان کے مطالعے سے لگتا ہے کہ طنز و مزاح کے سوتے اب خشک ہوگئے ہیں اور بس واقعات کی روداد بیان ہوئی ہے۔اردو پر علاقائی لہجے کا اثر رہا ہے اور بعض علاقوں میں بعض الفاظ کی تذکیر و تانیث بدل جاتی ہے اور واحد جمع کے قاعدے کی بھی پابندی نہیں ہوتی۔’’تو تو میں میں‘‘میں بھی یہ علاقائی اثرات دیکھنے کو ملتے ہیں۔علاقائی اثرات کے تحت کتاب میں امالہ کا خیال نہیں رکھا گیا ہے۔مجموعی طور پر دیکھیں تو کتاب میں طنز و مزاح کا لبادہ اوڑھے مختصر سے مضامین پڑھنے کو ملتے ہیں جن کو پڑھ کر قاری بور نہیں ہوتا بلکہ لطف کشید کرتا ہے۔
رابطہ۔ 8493981240
[email protected]