ملک منظور
کہتے ہیں، تنہائی کا سب سے گہرا زخم وہ نہیں جو ہمیں اکیلے پن میں کاٹتا ہے، بلکہ وہ جو ہمیں ہجوم کے بیچ بھی تنہا محسوس کراتا ہے۔ یہ وہ احساس ہے جب ہم مجمع میں کھڑے ہوتے ہیں، ارد گرد باتیں ہوتی ہیں، قہقہے بکھیرتے ہیں، مگر ہم ایسے ہیں جیسے کسی دوسرے جہاں میں قید ہوں، جیسے ہمارے اور دنیا کے درمیان کوئی شیشے کی دیوار حائل ہو، جس کے پار سب کچھ نظر تو آ رہا ہو مگر ہم چھو نہ سکتے ہوں۔
یہ وہ تنہائی ہے جو انسان کو قطرہ قطرہ پیاسا رکھتی ہے، ایک ایسی تشنگی جو کسی تعلق یا کسی تعلق کی مٹھاس سے بھی، نہیں بجھتی۔ یہ وہ بے نام اداسی ہے جو دل کے دروازے پر دستک تو دیتی ہے مگر اندر آنے کی اجازت نہیں مانگتی، بس خاموشی سے دل میں اتر کر اپنی جڑیں مضبوط کر لیتی ہے۔
زندگی کا المیہ یہی ہے کہ ہم بظاہر جڑے ہوتے ہیں، مگر اندر سے بکھرے ہوتے ہیں۔ رشتے ناطے، دوست احباب، ہنسی مذاق—سب کچھ ہونے کے باوجود ایک خلا سا محسوس ہوتا ہے، جیسے کسی پُررونق بازار میں ایک تنہا مسافر کھڑا ہو، جس کی زبان کوئی نہیں سمجھتا، جس کا حال کوئی نہیں پوچھتا۔ ہم وہ چہرہ اوڑھ لیتے ہیں جو دنیا ہم سے دیکھنا چاہتی ہے، مگر اپنے اصل وجود کو کہیں پیچھے چھوڑ آتے ہیں، جیسے کوئی پرانا لباس جسے وقت کے ساتھ ترک کر دیا جائے۔
یہ تنہائی ایک ایسا سایہ ہے جو ہر وقت ہمارے ساتھ رہتا ہے مگر نظر نہیں آتا۔ کبھی کسی محفل میں، کبھی کسی تقریب میں، کبھی کسی گفتگو کے بیچ، اچانک احساس ہوتا ہے کہ ہم یہاں ہونے کے باوجود کہیں کھو گئے ہیں، جیسے کوئی دریا اپنی گہرائی میں اپنا ہی عکس تلاش کر رہا ہو۔ ہم مسکراتے ہیں، سر ہلاتے ہیں، رسمی جملے دہراتے ہیں مگر اندر کہیں ایک چپی سی ہوتی ہے، ایک خاموشی جو کسی تیز دھار خنجر کی طرح دل میں اترتی جاتی ہے۔
یہ تنہائی اس وقت اور گہری ہو جاتی ہے جب ہمیں یہ احساس ہوتا ہے کہ کوئی بھی ہمیں واقعی نہیں جانتا۔ لوگ ہمیں دیکھتے ہیں مگر پہچانتے نہیں، ہماری باتیں سنتے ہیں مگر سمجھتے نہیں۔ ہماری اصل شناخت کہیں دھند میں گم ہو جاتی ہے اور ہم اپنی پہچان کے سراب کے پیچھے بھاگتے رہتے ہیں، یہاں تک کہ تھک کر رک جاتے ہیں۔
مگر اس تنہائی کے سینے میں ایک خاموش طاقت بھی چھپی ہوتی ہے۔ جب دنیا ہمیں نظرانداز کرتی ہے، تو یہ موقع ملتا ہے کہ ہم خود کو پہچانیں، اپنی حقیقت سے جڑیں۔ تنہائی کی راتوں میں جب خاموشی بولتی ہے، تو وہ سب کچھ کہتی ہے جو ہجوم کی چہچہاہٹ میں دب جاتا ہے۔ یہ وہ وقت ہوتا ہے جب ہم اپنے اندر کے اندھیروں سے نظریں نہیں چرا سکتے بلکہ انہیں دیکھ کر سمجھنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔
یہی وہ مقام ہوتا ہے جہاں ہم اپنے اندر کی روشنی کو تلاش کرتے ہیں، وہ چنگاری جو دنیا کی نظر سے اوجھل ہوتی ہے مگر ہمارے وجود کا سب سے سچا حصہ ہوتی ہے۔ اگر ہم اپنی حقیقت کو قبول کر لیں، خود کو ویسا اپنائیں جیسے ہم ہیں، تو شاید یہ تنہائی ہمیں توڑنے کے بجائے ہمیں مضبوط بنا دے۔
کہتے ہیں، ہر رات کے بعد سحر ہوتی ہے، ہر اندھیرا کسی نہ کسی روشنی کی خبر دیتا ہے۔ تنہائی بھی ایسی ہی ہے—ایک آزمائش، ایک سفر، جو ہمیں خود سے جوڑنے کے لیے ضروری ہوتا ہے۔ کبھی نہ کبھی، کہیں نہ کہیں، کوئی ایسا ضرور ہوگا جو ہماری خاموشیوں کو سنے گا، جو ہمارے اندر کے طوفان کو سمجھے گا، جو ہماری نظروں میں چھپے سوالوں کے جواب دے گا۔ وہ شخص جو ہمارے بکھرے وجود کو سمٹنے دے گا، جو ہمارے اصل کو قبول کرے گا، بغیر کسی شرط، بغیر کسی تقاضے کے۔
تب ہمیں سمجھ آئے گا کہ ہماری اصل کبھی چھپنے کے لئے نہیں تھی، بلکہ وہ تو ہمیشہ چمکنے کے لئے تھی۔ یہ دنیا شاید ہمیں مکمل نہ سمجھے، مگر اس کا مطلب یہ نہیں کہ ہم خود کو بھول جائیں۔ ہمیں اپنی روشنی کو تھامے رکھنا ہے، چاہے کتنی ہی آندھیاں کیوں نہ آئیں، کیونکہ جو دل سچا ہو، جو روح روشن ہو، وہ کبھی ماند نہیں پڑتی۔
تو اگر کبھی تنہائی کا احساس ہو، اگر کبھی لگے کہ دنیا آپ کو نہیں سمجھتی تو خود کو کھونے کی ضرورت نہیں۔ وقت کے ساتھ وہ لوگ، وہ لمحے آئیں گے جو آپ کو مکمل محسوس کروائیں گے اور جب وہ وقت آئے گا، تب آپ کو احساس ہوگا کہ یہ انتظار، یہ سفر، بے معنی نہیں تھابلکہ یہ دراصل خود کو پانے کی ایک کوشش تھی اور اس کوشش کی ہر تکلیف، ہر لمحہ، ہر آزمائش اپنی جگہ قیمتی تھی۔
���
قصبہ کھل کولگام ، موبائل نمبر؛9906598163