بقول ڈاکٹر عامر سہیلؔ یہ بات بھی ملحوظ رہے کہ افسانچے کو سمجھنے کے لئے ہمیں فن افسانہ نگاری سے مدد لینی پڑے گی ۔اس لئے دونوں اصناف افسانچہ اور افسانہ میں چند فنی چیزیں مشترک اہمیت کی حامل ہیں۔مثلا افسانویت،اسلوب وعنوان وغیرہ۔ کہانی ہو یا افسانہ،دونوں میں اول سے آخر تک یہ تجسس رہتا ہے کہ بالآخرکون سا نتیجہ بر آمد ہوگا۔اس بنیاد پر افسانچہ میں بھی پہلے لفظ سے آخری لفظ تک تجسس بر قرار رہتا ہے کہ ا ٓخر میں کیا ہوگا یا کیا نتیجہ نکلے گا اور یہ تجسس رہنا بھی چاہیے،لیکن یاد رہے افسانہ میں گرہ اس طرح نہیں چھپائی جاتی جس طرح افسانچے میں حھپائی جاتی ہے۔‘‘(ماہنامہ۔۔فن زاد سر گودھا۔۔اپریل ،2019۔ص۔۔96۔افسانچہ نگاری حدود و امتیازات)۔
ادب کی اس خوبصورت نثری صنف کو نکھارنے میں دبستان کشمیر کے فکشن نگار سر فہرست نظر آتے ہیں ۔یہاں کے فکشن نگاروں نے اس صنف کو اپنی اولاد کی طرح پرورش کی ہیں اور کرتے بھی رہتے ہیں،جن میں ڈاکٹر نذیر مشتاقؔ خاص اہمیت کے حامل ہیں۔جموں وکشمیر کے ادبی حلقوں میں ڈاکٹر نذیر مشتاقؔ کسی تعارف کے محتاج نہیں ہیں۔ آپ کا اصلی نام نذیر احمد لون اور قلمی نام نذیر مشتاقؔ ہے۔1970 میں ان کا پہلا افسانہ ’’بد نصیب ‘‘ روزنامہ آفتاب میں شائع ہوا ہے۔اس کے بعد انھوں نے ادب کی مختلف نثری اصناف میں طبع ازمائی کی جن میں ریڈیو کہانیاں،ٹی وی فلمیں،ناول،سٹیج ڈرامے اور کالم بھی شامل ہیں۔نذیر مشتاق ؔچونکہ پیشے سے ایک معالج ہیں۔اس لئے انہوں نے صحت اور طب کے معاملوں پر بھی تواتر کیساتھ لکھا۔ جموں و کشمیر کے معروف روزنامہ کشمیر عظمیٰ میں انہوں نے طبی مسائل کےحوالے سے واقفیت بہم پہنچانے کے لئے ’’فکرِ صحت‘‘ کے عنوان سے کئی برسوں تک ایک ہفتہ وار کالم تحریر کیا، جو شائد اُردو صحافت میں ایک اولین کوشش بھی ہے۔ بعد ازاں ڈاکٹر صاحب نے اُن کالموں کو ایک کتابی روپ دے کر ’’صحت کامل‘‘ کے عنوان سے اپنی صلاحیت کا لواہا منوایا۔حال ہی میں ان کے افسانچوں کا مجموعہ ’’تنکے ‘‘ کے نام سے منصہ شہود پر آ گیا ، جو کہ 100افسانچوں پر مشتمل ہیں ۔مجموعے کے بیشتر افسانچے کشمیر عظمی کے گوشہ ادب کی زینت بن چکے ہیں۔کہانی اور افسانچہ ان کی نس نس میں پنپتا ہوا نظر آتا ہے۔ان کے افسانچوں میں انسانی قدروں کا قتل،کرب و اذیت اور دور حاضر کی خوفناک صدائیں بڑے پیمانے پر سنائی دیتی ہے۔
زیر نظر کتاب ’’تنکے‘‘ میں انھوں نے دیانتداری کے رجحان کی پامالی پر بڑے نشتر چلائے ہیں اور ہمیں یہ پیغام دینے کی سعی کی ہے کہ دیانتداری دنیا کا سب سے بڑا قیمتی وصف ہے۔ایک فرد کا اپنے آپ اور اپنے بچوں کے آرام کے لئے دیانتداوی سے کام کر کے اپنے بچوں کی پرورش اور ان کی نگہبانی کرنا ایک مشکل عمل ہے کیونکہ ہمارے آس پاس کے حالات تیزی سے بدل رہے ہیں۔یہ حالات انسان کو مجبور کر رہے ہیں کہ آرام سے زندگی بسر کرنے کیلئے آپ کو غلط راہ اخیتار کرنی پڑی گی لیکن اس کے باوجود بھی سماج میں مجیب الرحمن ؔ جیسے لوگ دیانتداری کی رسی کو مضبوطی کے ساتھ پکڑ کر زندگی کے راستے پر رواں دواں نظر آتے ہیں۔بقول ڈاکٹر نذیر مشتاقؔ:’’رات کا کھانا کھانے کے بعد اس کی بیوی نے سے یا دلانے کے انداز میں کہا’’کیوں جی رویپوں کا انتظام ہوا۔۔ڈاکٹر نے کہا ہے کہ اگر جلدی سے آپریشن نہیں کیا گیا تو ہمارا اکلوتا بیٹا۔۔۔اگر اسے کچھ ہوا تو میں اپنی جان دے دوں گی۔۔اچانک وہ اپنی جگہ سے اٹھا اور بیڈکے نیچے سے روپیوں سے بھر ا بیگ نکلا اور کئی بنڈل ہاتھ میں لئے۔چند لمحے سوچتا رہا پھر مسکرا کر روپے کے بنڈل بیگ میں واپس رکھ دیئے اور واپس آکربیوی سے کہا ۔۔گھبرائو نہیں۔کل میں اپنی ایک کڈنی بیچ کر بیٹے کے آپریشن کے لئے روپے لائوں گا۔‘‘(دیانتدار۔۔ص۔96 )
نفس جب انسان کے قابو میں نہیں رہتا تو یہی نفس انسان کو برے کام کرانے پر اکساتا ہے۔اس کو شراب نوشی ،بدکاری ،بے حیائی اور بے شرمی کے کاموں میں غرق کرتا ہے۔ایسے برے کاموں میں مبتلا ہو کر انسان کا سب کچھ تباہ وبرباد ہوجاتا ہے۔نفسانی خواہشات کے پیچھے پڑنے سے انسان کبھی کبھی اپنے اہل و عیال کی زندگیوں کو بھی آگ کی ندر کرتا ہے ۔ ڈاکٹر نذیر مشتاقؔ اپنے افسانچوں کے ذریعے انسانی نفسیات کے مختلف پہلوئوں کی عکاسی کرتے ہوئے جہاںنفس کے منفی پہلوئوں کو اجاگر کرتے ہیں وہیں دوسری طرف ہمارے آس پاس میں نفس کو بے لگام چھوڑنے سے پنپ والی برایئوں کی بھی تصویر کشی کرتے ہیں۔افسانچہ’’راز‘‘ میں رقمطراز ہیں:’’میں ویسا کروں گی مگر پہلے یہ بتائو کہ بچے کا باپ کون ہے؟مریم نے تحکمانہ لہجے میں پوچھا۔۔’’میں نہیں کہہ سکتی۔۔نہیں کہہ سکتی۔۔شکیلہ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔کیوں نہیں بتا سکتی۔مریم نے اُسے جھنجھوڑتے ہوئے کہا۔۔میں نہیں بتا سکتی مریم نہیں بتا سکتی۔شکیلہ کی آواز ڈوبنے لگی۔۔کہیں وہ تمہارا۔۔۔ب۔۔۔مریم نے پھٹی پھٹی آنکھوں سے اسے دیکھتے ہوئے کہا اور شکیلہ نے اسکی بات کاٹ کر چلاچلا کر کہا۔۔’’ہاں ہاں اس بچے کا باپ میرا اپنا باپ ہے۔۔۔؟؟؟‘‘۔ (راز۔۔ص۔۔106 )
اکیسویں صدی انفارمیشن ٹیکنالوجی کی صدی ہے۔ اس صدی میں انٹرنیٹ پر سوشل میڈیانے ایک انقلاب برپا کردیا،جس کا اثر سماج کے ہر ایک فرد نے جلدی قبول کرلیا۔سمندر کو کوزے میں قید کرنے والی سوشل میڈیا ایپلیکشنز نے دنیا کے ایک کونے کو دوسرے کونے سے اس طرح مربوط کردیا ہے کہ اب تعلقات اور معلومات کی ترسیل دنوں یاگھنٹوں کی بات نہیں ،بلکہ سیکنڈوںیا لمحوں کی بات ہو کر رہ گئی ہے۔جہاں لوگوں کو اس کا صحیح استعمال کرنا تھا وہیں لوگوں نے اس کا غلط استعمال کر کے اپنے اخلاق وعادات کو بگاڑ دیا۔اسی ٹیکنالوجی کا سہارا لے کر سماج کے بے غیرت لوگوں نے احساس مروت کوپاش پاش کر کے انسانی زندگی کا مذاق اڑایا ، جس سے سماج پر اسکا الٹا اثر پڑ چکا ہے۔بقول ڈاکٹر نذیر مشتاقؔ:’’دوسرے دن سے آفتاب اسکول جانے لگا اور خوب محنت کرنے لگاتا کہ وہ بھی ایک کامیاب ڈاکٹر بن سکے۔ایک دن وہ اسکول جارہا تھا، اسکے ساتھ کئی اور لڑکے بھی تھے کہ اچانک ایک چورا ہے پر وہ چکر کر گرپڑا ۔۔۔اس کا جسم یوں ہل رہا تھا جیسے اسے بجلی کے جھٹکے دئیے جارہے ہوں۔اس کے منہ کے کونوں پر ڈھیر ساری جھاگ جمع ہوگئی تھی۔اس کے اردگرد کافی بھیڑ جمع ہو چکی تھی۔ ہر کوئی اپنے اپنے فون سے اس منظر کا ویڈیو بنانے میں مصروف تھا اور وہ جل بن مچھلی کی طرح تڑپ رہا تھا۔‘‘(ٹیکنالوجی۔۔ص۔۔135 )
افسانچہ ’’باپ بیٹا‘‘ میں رشتوں کا قتل ،انسانی قدروں کی خستہ حالی اور نفسیاتی کشمکش کو اجاگر کیا گیا ہے۔اس افسانچہ میںگھر کی ایک عظیم ہستی یعنی باپ کو کس طرح پیش کیا گیا وہ ایک باشعور اولاد کیلئے قابل غوروفکر ہے کیونکہ دینا اور آخرت کی بھلائی ،باپ کی فرماں برداری اور حقوق کی ادائیگی سے حاصل ہوتی ہے۔باپ عاشق کی صحیح تعلیم وتربیت ،پرورش ،خوراک وپوشاک اور اس کا بیاہ کرنے کے لئے کتنی سختیاں جھیلتاہے اس کا اندازہ عاشق کی بیوی کو نہیں ہوتا ہے ۔عاشق اپنی بیوی کے ساتھ منصوبہ بنا کر اپنے ہی والدین کو موت کے گھاٹ اتار کر خوشی خوشی اپنے زندگی بسر کرنا چاہتا ہے۔بقول ڈاکٹر نذیر مشتاقؔ:’’آج میں نے بڑھے کو بے وقوف بنایا ،اسے پتہ بھی نہیں چلے گا کہ اس کا بیٹا کتنا چالاک ہے۔۔عاشق نے اپنے آپ سے کہا۔۔۔چار دن بعد مختار احمد اس دینا سے چلا گیا ۔میت کو غسل دینے سے پہلے جب کپڑے بدلے گئے تو اس کی قمیض سے کاغذ کا ایک ٹکڑا ملا۔ عاشق نے وہ پڑھا ،لکھا تھا’’میرے پیارے بیٹے ،مجھے معلوم ہے تم نے میری دوا بدل دی ہے ،میں اپنی مرضی سے یہ دوائی لے رہا ہوں ،اب تم پر بوجھ بن کر زندہ نہیں رہنا چاہتا ہوں۔اولاد خوش رہے یہی ایک باپ کی سب سے بڑی تمنا ہوتی ہے۔تم دونوں سدا خوش رہو ۔میں تم دونوں کو اپناخون معاف کرتا ہوں۔۔۔؟؟؟‘‘(باپ بیٹا۔۔ص۔۔146 )
خالق کائنات نے اس کائنات کی چمک دھمک اور اس کی زیب و زینت کے لئے مرد و عورت کے نام سے دو جنسوں کے ذریعہ اس کائنات کا سلسہ جاری فرمایا۔ ہر صنف میں دوسری صنف کی طلب اور جذبات ایک دوسرے میں پنہاں رکھے تاکہ عورت مرد کی رفیق حیات بن کر زندگی کے نشیب وفراز میں ،ہر ہر قدم پر اس کا ساتھ دے سکے اور اس کی ہم سفربن کر زندگی کی گاڑی کھینچ سکے تاکہ یہ سفر کامیابی کی منزلیں طے کرے۔ اس کے برعکس گھر سے باہر ہو یا گھر کے اندر خواتین کے ساتھ جانوروں سے بھی بدتر سلوک روارکھا جاتا ہے بلکہ متعصبا نہ سماجی رویے اور استحصال بھی کیے جاتے ہیں۔ افسانچہ ’’پرائی ‘‘اس کی عمدہ مثال ہے جس میں مریم کے ساتھ اس کے سسرال والے کس طرح کا سلوک روا رکھتے ہیں۔افسانچہ کا یہ اقتباس ملاحظہ فرمائیں:’’جہاںاس کی زبان پر تالا نہ چڑھے جہاں وہ دل کھول کر باتیں کرسکے۔اس کی شادی ہوگئی تو وہ خوشی سے پھولے نہیں سمائی ۔وہ اپنے شوہر کے گھر آئی اور دن رات سپنوں کی وادی میں بھٹکنے لگی۔اس روز وہ اپنے بیڈ روم سے نکل کر کچن کی طرف آرہی تھی ۔کچن میں اس کا سسر ،شوہر،دیور اور اسکی ساس کسی بحث میں الجھے ہوئے تھے۔وہ دروازے پر رک گئی۔اس کے کانوں سے ساس کی آواز ٹکرائی ۔۔خدا کے واسطے اب تم لوگ سوچ سمجھ کربات کیا کرو۔اب اس گھر میں ایک پرائی لڑکی بھی رہتی ہے‘‘۔ (پرائی۔۔ص۔۔27 )
ان کے افسانچوں میں سماج کا عکس دھندلا ہوا دیکھائی دیتا ہے۔ سیاسی، سماجی ،تہذیبی ،ادبی ،مذہبی اور سائنسی منی کہانیاں بھی ’’تنکے‘‘ میں شامل ہیں۔ان کی نگاہیں سماج کے ظاہرو باطن پر یکساں پڑتی ہیں۔زندگی کے چھوٹے چھوٹے غم اور خوشیاں ،لوازمات اور کرامات ان کے افسانچوں میں نظر آتی ہیں نیز جب وہ اپنے آنگن میں ایک عجیب سی وحشت بھری زندگی دیکھتے ہیں تو افسانچہ’’ماتم‘‘ وجود میں آتا ہے۔مذکورہ بالا افسانچوں کے علاوہ عشق، فرق، نمازی، سوتیلی، پالن، بھکاری، علاج، بھول، دعا، سودا، بھرم، مزدور، لوگ، فکر، کفن، امتحان، چور، نامکن، میڈم،سماج، راز،شاشو،اندھیرا،بھروسہ ،قول ،کچرا، گناہ،نصیب،نیت ،نشان،شونا اور روبوٹ وغیرہ یہ تمام افسانچے اس کتاب کی زینت بنے ہیںجس میں انھوں نے ان گنت مصائب،بے ادب اور ایثار و محبت سے عاری سماج کی بھر پور عکاسی کی ہے۔جہاں ان کے افسانچوں کے کردار ہمارے آس پاس ہی نظر آتے ہیں وہیں ان کی زبان شستہ اور صاف و شفاف بھی ہے۔ڈاکٹر نذیر مشتاق ؔکے افسانچوں کی کائنات کی سیر کرنے کے بعد یہ عیاں ہوتا ہے کہ انھوں نے ’’تنکے‘‘ میں سماج کی بے بسی اورزبوںحالی کو ہی نہیں بلکہ عصری مسائل ومشکلات کو مختلف طریقوں سے پیش کر کے افسانچوں کی کائنات میں ایک اہم مقام حاصل کیا ہے۔
���
رعناواری سرینگر
موبائل نمبر؛9103654553