تنائو زدہ لوگ ! جنہیں دوائے دِل کی تلاش ہے

بشارت بشیرؔ
شہر و دیہات کے کسی بھی ہسپتال میںجائیے یا پرائیوٹ طور پر علاج کرنے والے ڈاکٹروں کے کلینکوں کا رُخ کرلیجئے تو ہر جگہ مریضوں کی بھیڑ نظر آئے گی۔مرجھائے ہوئے چہرے اندر دُھسنی ہوئی آنکھیں ، نڈھال ونحیف اعضاء رکھنے والے یہ پریشان حال لوگ زرق برق لباس میںملبوس یہ باور کرنے کی انتھک کاوشیں کرتے ہیں کہ اُنہیںکوئی خاص بیماری تو نہیں لگی ہے لیکن ان کا چہرہ اور اندر دھنسی ہوئی آنکھیں اُن کی چغلی کھا کر ان کے باطن کو عیاں کردیتی ہیں۔ اَن گنت جانچ رپوٹیں، بے شمار ایکسرے فوٹو کاپیاں ہاتھ میںلئے یہ لوگ ہسپتالوں اورڈاکٹروں کے مطبوں میںحیران وسرگرداں پھر کردوائے دل کی تلاش میںاپنا شب وروز ایک کررہے ہیں۔ کوئی معدہ کی نافرمانی کا رونا رو رہا ہے اور کوئی گردن وکمر کو پکڑے کمزوری کی دہائی دے رہا ہے۔ کوئی سرتھامے بلڈ پریشر کے عارضہ کا شاکی ہے اور کوئی کسی اور بیماری کو کوس رہا ہے۔ مگر تقریباً ہر شخص نالاں کہ لاکھ علاج کرنے پر بھی اُس کے درد کا مداوا ڈھنگ سے نہیں ہورہا ہے ۔ آخر ایسا کیوں؟غور سے دیکھا جائے اور اس حوالہ سے ماہرین امراض کے تبصرہ اور تجزیوں کو پڑھا سنا جائے تو یہ حضرات اس بات پر متفق نظر آتے ہیں کہ اَن گنت بیمارلوگوں میںاکثریت اُن مریضوں کی ہے جو نفسیاتی عارضوں کے شکار ہیں۔ کسی تنائو کے شکار ہیں۔ کوئی غم اُنہیں کھائے جارہا ہے۔ اور کوئی پریشانی ہے جو اُنہیں نیند کی آغوش میںبھی نہیں جانے دیتی ہے جو اُن کے قلب ناتواں کو مضمحل اور روح وذہن کی دنیا میں پریشان کن انقلاب بپا کئے ہوئے ہےاور بہت کم لوگ ان میں ایسے ہیں جو واقعی بدنی امراض کے شکار ہیں ۔ یوں بھی کسی مجلس میںجایئے کسی شادی بیاہ کی تقریب میں شامل ہوجائیے۔ تعزیت کی محفل میںشریک ہوں تو بس ہر شخص اس فائل کی ورق گردانی کرتے نظر آئے گا کہ ٹینشن انسانی وجود پر مکمل حکمرانی قائم کرچکا ہے اور کوئی بھی علاج ومعالجہ کار گر ثابت نہیں ہورہا ہے۔ اپنے گرد وپیش میںنگاہ دوڑائیے ۔ راستے چلتے ہوئے دیکھئے گاڑی کا ڈرائیور ہزار ہارنیں بجا کر راہ گیر کو ہٹنے بچنے کے لئے صدائیں دے رہا ہے۔ لیکن راہ گیر ہے کہ ٹس سے مس نہیں ہورہا ہے، اپنی ہی دنیا میںگم وہ وہاں پہنچ چکا ہے ،جہاں اُسے دنیا وما فیھا کا کوئی منظر دکھائی نہیں دیتا ۔ اور ڈرائیور صاحب اس چلتے ہوئے ہڈیوں کے ڈھانچے کے اندرون سے ناواقف اندر ہی اندر اور کبھی گاڑی کو سائڈ میںرکھ کر اسے کوس رہا ہے بد دعائیں دے رہا ہے اور کبھی نوبت یہاں تک پہنچتی ہے کہ بدزبانی پر بھی اُتر آتا ہے۔ لیکن راہ گیر ہے کہ اندر ہی اندر تو گھل سڑ چکا ہوتا ہے لیکن ظاہر اً اپنے دفاع کے لئے ہزار تاویلیں اور لاکھ دلائل پیش کرتا ہے۔ آخر ایسا کیوں ہورہا ہے …؟
غور سے دیکھا جائے تو یہ بات الم نشر ح ہوکر سامنے آجائے گی کہ انسان جس کی دنیا میںاخلاق اور روحانی نشو ونما ہونی تھی ۔ اپنے مقصد وجود سے ہٹ کر مادی راحتوں کی دنیا میںکھو گیا ہے۔سادگی اُس سے رخصت ہوئی ہے۔ نام ونمود شہرت و ریا نمائش ودکھاوے کی دوڑ میںاپنے گھوڑے کو اول نمبر پر رکھنے کیلئے اُس نے ایڑی چوٹی کا زور لگانے کی کیا کوشش کیں، اُسے تمام اخلاقی اور روحانی اقدار کو پامال کرنا پڑا،تہذیب وشائستگی کے حد ود کو روندنا پڑااور اُس کے سر پر دھن دولت یوں سوار ہوئے کہ جیسے دھن اُس کے لئے نہیں بلکہ وہ دھن کے لئے پیدا کیا گیا ۔ سماج میں جھوٹی شان کے بھرم کو قائم رکھنے کے لئے وہ کون سا گُر ہے جو نہیں آزماتا ۔ حلال وحرام کی کوئی تمیز نہیں ہوتی ۔ انصاف ورحم اور شفقت وراحت کے جذبات کا جنازہ وہاں بڑی دھوم سے خود اپنے ہاتھوں سے اُٹھاتا ہے۔ مادی لحاظ سے وہ کتنی بلندیوں کو چھوئے لیکن اخلاقی پستیوں کی ایسی گہرائیوں میںاس کا ذہن وضمیر دفن ہوکے رہ جاتا ہے کہ وہاں سے سلامت واپس نکلنے کا کوئی راستہ نظر نہیں آتا ۔ یہ تو رہا سماج کا ایسا طبقہ جو دھن کی دوڑ میںمن کو قربان کرکے خود اس کے جنازہ کی پیشوائی کرتا ہے۔لیکن ایک ایسا گروہ بھی ہے جو یہ فن نہیں جانتا اور کمزور طبقوں میںآکر شمار ہوتا ہے لیکن متذکرہ ’’بڑے لوگوں‘‘ نے ناپاک دھن کے بل پر سماجی تقاریب اور دیگر مواقع کے لئے جو قواعد وضوابط مقرر کئے ہیں ۔ غریب ومتوسط طبقے کو ان پر اُترنے کی صلاحیت نہیں ۔
نتیجتاً وہ جہاں ایک جانب احساس کمتری کے شکار ہوکر پہلی بیماری کے شکار ہوتے ہیں۔ وہاں یہ سمجھ کر اگر ان پر وہ اُتر نہیں سکے تو سماج میںان کی ناک کٹ جائے گی۔ اور پھر اس گاڑی میںسیٹ پانے کی خواہش تو درکنار شائد انہیں کھڑے رہنے کیلئے بھی یہاں جگہ نہ ملے۔نتیجتاً وہ اعصابی بیماریوں اور نفسیاتی روگوں کے شکار ہوجاتے ہیں کہیں جوان بیٹی کا مرجھایا چہرہ ان کے ظاہر وباطن کو تہہ وبالا کرکے رکھ دیتا ہے اور کبھی گھر کی پائی پائی کو پھونک کر ، بالغ بچے کو پڑھا لکھا کر اُس کی بے روزگاری اور بے کاری اُن کی نیند حرام کردیتے ہیں۔ کبھی شادی وغمی کی تقاریب میں ہونے والے رسوم رواج میںاپنی تنگ دستی کی وجہ سے عدم شمولیت نہ صرف اُسے بلکہ گھر کے ہر چھوٹے بڑے کو ایک قسم کی ہیجانی امراض میں مبتلا کردیتی ہے۔ اور ذہنی و قلبی روگوں کو لامتناہی سلسلہ اُن کے گھروں پر دستک دیتا ہے ۔ عدم اطمینان انہیں بے چین وبے سکون کرکے رکھ دیتا ہے۔ بات جو اصل کہنے کی ہے ۔ وہ یہ کہ انسان اطمینان وسکون کی دولت سے محروم ہورہا ہے اور ہم نے جن مصنوعی اشیاء اور خرافات میںاس دولت کو ڈھونڈنے کی کاوشیں کی ہیں یہ سب لاحاصل ثابت ہورہی ہیں۔ اور قرآن نے اگر انسانی قلوب کے اطمینان کے لئے کوئی دوا تجویز کی تھی۔ تو وہ{الا بذکر اللّٰہ تطمعن القلوب }والی دوائی ہے ۔ یعنی صرف اللہ کی یاد میںتسکین وقرار مخفی ہے اور حالیہ سائنسی رپورٹ بھی اس امر پر گواہ ہیں کہ صرف اللہ سے لو لگانا اور قرآن حکیم کی مسلسل تلاوت انسانی ذہنی کرب اور روحانی بیماری کا کارگر علاج ثابت ہوسکتی ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ خوب سمجھ لو کہ جسم میں گوشت کا ایک ٹکرا ہے ۔ جب یہ ٹھیک ہوتا ہے تو سارا جسم ٹھیک ہوتا ہے اور جب یہ بگڑجاتا ہے تو سارا جسم بگڑ جاتا ہے۔
صاف ظاہر ہے کہ انسانی روحانی خوشی اور جسم وصحت کی تندرستی کے لئے ضروری ہے کہ دل صحت مند ہو،اور دل کی صحت مندی یہ ہے کہ یہ کسی کی عداوت ، نفرت ، حسد اور بغض ، کینہ وکپٹ اور نفاق کے شدید روگ سے صاف وپاک ہو۔ جسم و نفس کا باہمی تعلق اور انحصار ایک دوسرے کو ضرورمتاثر کردیتا ہے۔ ذہن ودل کے بگاڑ سے جسم متاثر ہوتا ہے ۔ اس طرح جسم کی تکلیف ذہن کو متاثر کردیتی ہے۔ غرض دل کی صحت مندی میںہی انسان کی اخلاقی اور روحانی صحت مندی پوشیدہ ہے۔ یہ دل سادہ وصاف زندگی گذارنے پر آمادہ ہوجائے ۔
دنیا کی اس دھکم پیل میںاپنے سے اوپر والے کی جانب نہیں ۔ اپنے سے نیچے والے کی جانب دیکھ کر ملی نعمتوں پر شکر وسپاس ادا کرے تو دنیا کی بڑی بیماریوں کا خاتمہ ہونا ناگزیر بن جائے گا۔ اور یہ بات جب ہی ممکن ہوگی جب دل میں یہ بات رچ بس جائے کہ انسان اس دنیا میںایک خانہ بدوش کی حیثیت سے آیا ہے۔ کچھ دیر یہاں سستایا اور پھر کچھ دیر کے بعد ہی یہاں سے ایک ایسی منزل کی جانا ہوگا۔ جہاں کا عیش ونشاط ہی حقیقی ودائمی ہوگا… اور جہاں کی’’ذلت ‘‘ کا مقابلہ کوئی اور ذلت نہیں کرسکتی ہے۔
(رابطہ۔7006055300)