دنیا میں کسی بھی مذہب یا نظریہ نے علم وحکمت کی اہمیت و ضرورت کو اتنا اجاگر نہیں کیا جتنا اسلام نے کیا ہے۔ صحیح علم کی رہنمائی،اس کا شوق دلانے،اس کی قدر و منزلت،اہل علم کی عزت افزائی کرنے،اس کے آداب بیان کرنے اوراس کے اثرات ونتائج واضح کرنے میں اسلام نے جو بھرپور اور مکمل ہدایات پیش کی ہیں،ان کی مثالیں کہیں نہیں ملتی ہیں۔قرآن مجید میں علم کا ذکر دیگر مشتقات کے ساتھ آٹھ سو سے زائد بار ملتا ہے۔ اس سے علم و حکمت کی افادیت و اہمیت کا پتہ چلتا ہے ۔اسی طرح سے جب ہم حدیث کی کتابوں کا مطالعہ کرتے ہیں تو ان میں علم سے متعلق مکمل ابواب کی شکل میں ملتے ہیں۔مثلا صحیح بخاری میں وحی کی ابتدا اور ایمان کے باب کے بعد ہی علم کا باب شروع ہو جاتا ہے۔جس طرح اللہ تعالیٰ نے علم کو عزت بخشی اسی طرح علم کے حصول میں مددگار چیزوں کو بھی عزت بخشی ہے۔اللہ نے قرآن مجید میں سب سے پہلے قلم کا ذکر کیا ہے اور یہ قلم کی نہایت عزت افزائی ہے.ارشاد باری تعالیٰ ہے : قسم ہے قلم کی اور جو کچھ لکھتے ہیں۔(سورۃالقلم:1'2)
یہاں قلم کے ساتھ قلم سے لکھی جانے والی چیز کا بھی ذکر کیا گیا ہے۔علم کی روشنی کو سورج،چاند اور ستاروں کی روشنی پر ترجیح دی گئی۔قرآن میں علم اور علم سے متعلق چیزوں کا ذکر بھی اللہ تعالیٰ سے منسوب ہوا،کھبی رسولوں سے منسوب ہو کر، اور کھبی لوگوں کی نسبت سے اور خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ دعا سکھائی گئی۔(وقل رب زدنی علما) سورۃ طٰہ 114(اور کہے میرے علم میں اضافہ فرما)۔امام قرطبی رحمہ اللہ تعالیٰ لکھتے ہیں کہ اگر کوئی چیز علم سے افضل اور برتر ہوتی تو اللہ تعالیٰ اپنے نبی کو حکم دیتا کہ وہ اس میں سے مزید طلب کرے جیسا کہ مزید علم طلب کرنے کا حکم دیا گیا۔اس لیے رسول اللہ صلی اللہ وسلم نے علماء کی روشنائی کو شہیدوں کے خون کے مساوی قرار دیا ہے۔علم ان مادی چیزوں کا تبھی احاطہ کرتا ہے جو کائنات میں ظاہر یا پوشیدہ ہے۔مثلا سائنسی علوم، علم کیمیاء ،فزیالوجی،فلکیات، طب اور انجینئرنگ،وغیرہ جو مشاہدے اور تجربے پر مبنی ہے، لیکن مغربی اصطلاح میں علم کا محدود تصور ہے جس کے مقابلے میں اسلامی تعلیمات میں دینی و دنیوی تمام علوم پر علم کا اطلاق ہوتا ہے مغرب جہاں علم کو دنیوی کامیابی کا ذریعہ اور زینہ سمجھتا ہے، اسلام اسے آخرت کی سرخ روئی اور دنیا میں کامیابی دونوں کا ذریعہ قرار دیتا ہے۔وہ دین ودنیا کو الگ الگ خانوں میں تقسیم نہیں کرتا۔اسی لئے قدیم و جدید یا دینی و دنیوی علوم کی تفریق غلط بنیاد پر قائم ہے البتہ آخرت کی سرخروئی اور دنیا میں سر بلندی کے لحاظ سے جو علم جتنا ضروری ہے اسی کے بقدر اس کی اہمیت سمجھنا چائیے۔
علم کو صدیوں سے جتنا نظر انداز مسلمان کرتے آرہے ہیں ،اتنا کسی اور قوم نے نہیں کیا۔دنیوی علوم میں بھی یہی حال ہے اور دینی علوم میں کی بھی یہی صورت حال ہے۔ ایسا بھی نہیں ہے کہ ملت کے افراد دینی علوم میں غیر معمولی منہمک و مشغول ہے۔ اسی لیے دنیوی علوم کی طرف توجہ نہیں ہو پا رہی ہے، بلکہ جب سے دنیوی علوم میں پیچھے جا رہے تبھی سے دینی علوم میں بھی بتدریج زوال آ رہا ہے۔یہ ملت کے لیے ضروری ہے کہ وہ اگر زمانے کی رفتار سے اگے سے نہیں تو کم از کم ساتھ ساتھ تو چلنے کی صلاحیت اپنے اندر پیدا کرے اور اس کے لیے عالمی حالات سے واقفیت بھی ضروری ہے اور بنیادی دینی علوم میں مہارت کے ساتھ دنیوی علوم میں بھی عبورحاصل کرنا اشد ضرورت ہے۔
علم نامعلوم شئے کی دریافت کا ذریعہ اور تاریکیوں میں روشنی کی کرن ثابت ہوتا ہے علم وہ زبردست قوت ہے جس کی بدولت انسان اپنی زندگی کو آگے بڑھاتا ہے اور اپنے وجود کو وسعت سے ہمکنار کرتا ہے پھر اپنی ذات کے خول میں بند نہیں رہ جاتا ہے نہ اپنے اردگرد کے ماحول اپنی نسل حتیٰ کہ اس زمین کے دائرے میں محدود ہو کر رہتا ہے۔بلکہ ان دائروں سے آگے بڑھ کر ماضی میں بھی جھانکتا ہے۔حاضر کی روشنی میں مستقبل کو بھی سمجھنے کی کوشش کرتا ہے اور کائنات کی ساری وسعتوں کے بارے میں غور وفکر کرتا ہے اور پھر اس طرح محو سفر ہو جاتا ہے . جیساکہ ابن عبد البر نے حضرت معاذ بن جبل کی روایت میں نقل کیا ہے۔" علم وحشت مونس و غمخوار،اجنبی ساتھی، تنہائی کا رفیق، خوشحالی اور تنگ دستی میں رہنمائی اور دشمنوں کے خلاف ہتھیار ہے۔اسی سے حلال و حرام کی تمیز پیدا ہوتی ہے وہی عمل کا رہنما ہوتا ہے اور عمل اس کے تابع فرمان".
علم انسان کے لئے اللہ کا عجیب وغریب عطیہ ہے اور یہ تخلیق کے معجزات میں سے ایک معجزہ ہے جس سے اللہ نے انسان کو عزت بخشی ہے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے علم کے حصول پر ابھارنے کے لیے جو تعبیر اختیار فرمائی وہ نرالی ہے اور اس طرح کی رہنمائی کوئی رسول ہی دے سکتا ہے جس کا رابط اللہ سے قائم ہو۔ " علم حاصل کرنا فرض ہے" یہ مختصر سا جملہ ہی روشنی کی موجیں بکھیر دیتا ہے اور زندگی کی وسعتوں کو کھول دیتا ہے۔ فرض کا ایک پہلو تو یہ ہوتا ہے کہ انسان کو اسے ادا کرنا ضروری ہے اس کی راہ میں کسی طرح کی مشغولیت اور روکاوٹ حائل نہیں ہونی چاہیے۔دوسرا پہلو یہ ہوتا ہے کہ یہ ایسی ذمہ داری ہے جو انسان اپنے رب کے لئے پوری کرتا ہے۔تیسرا پہلو یہ ہوتا ہے کہ اس کے ذریعہ بندہ اپنے رب سے تقرب حاصل کرتا ہے۔
اسلامی تاریخ میں ایساکبھی نہیں ہوا کہ طب یا فلکیات فزکس یا کمسڑی کے میدان میں کوئی عالم تحقیقات کر رہا ہو اور وہ عقیدے سے کٹ گیا ہو، یا یہ کہ عقیدہ اس کی تحقیقات کی راہ میں روکاوٹ بن رہا ہو یا اس کے دل میں علم اور عقیدہ یا علم اور دین کے درمیان جنگ کی صورت پیدا ہوئی ہو۔ علم ،عقیدے کے زریعے سایہ پروان چڑھاتا رہا اور بردجستہ علمی انکشافات تک پہنچتا رہا، جس کا اعتراف یورپ کے متعصب علماء تک نے کیا۔ اور یہ اس لئے کہ علم اللہ کا فرض تھا اور نماز، روزہ، زکوٰۃ کی طرح ہی ادا کیا جا رہا تھا۔
بلاشبہ علوم میں اولین مقام علم دین کا ہے۔ جس کے ذریعے انسان خود اپنے آپ کو پہنچاتا ہے اور اپنے پروردگار کی معرفت بھی حاصل کرتا ہے۔ اسی طرح علم دین کے ذریعے اپنا راستہ پاتا ہے،اپنی منزل مقصود تک پہنچتا ہے اور ان چیزوں کو سمجھتا ہے جو اس کے لیے مفیدہ یا اس کے لیے نقصان دہ ہے۔ پھر اس کے بعد درجہ بدرجہ ہر اس علم کا مقام ہے جس کے ذریعے کسی ایسی حقیقت کی پہنچان حاصل ہو، جو لوگوں کو حق تک پہنچائے ، یا بھلائی کا ذریعہ بنے یا جسے انہیں کوئی فائدہ حاصل ہو یا جس کے ذریعے وہ کسی نقصان سے بچ سکے۔
صحابہ کرام اور تابعین عظام وغیرہ اسی لئے علم کی فضیلت اور علماء کی قدر و منزلت پر بہت زور دیا کرتے تھے تاکہ لوگوں کو زیادہ سے زیادہ علم حاصل کرنے پر ابھارنے کیلئے اور جہالت اور دنیا و آخرت میں اس کے برے نتائج سے لوگوں کو آگاہ کرے۔ حضرت معاذ بن جبل رض فرماتے ہیں کہ علم اس لئے حاصل کرو کہ اس کا حاصل کرنا خوف الہٰی ہے۔ اس کی طلب عبادت ہے اس کا درس دینا تسبیح ہے اور علمی گفتگو کرنا جہاد ہے جو شخص نہ جانتا ہو تو اسے پڑھانا خیرات ہے،جو علم کا اہل ہو اسے علم کی دولت سے نوازنا تقرب الٰہی کا ذریعہ ہے،یہی علم تنہائیوں کا ساتھی ،سفر کا رفیق،دین کا رہنما،تنگدستی و خوشحالی میں چراغ راہ ، دوستوں کا مشیر ،اجنبی لوگوں میں قربت پیدا کرنے والا، دشمنوں کے حق میں تیغ براں، راہ جنت کا روشن مینار ہے۔اسی علم کی بدولت اللہ تعالیٰ کچھ لوگوں کو عظمت عطا کرتا ہے انہیں قائد،رہنمااور سردار بناتا ہے۔ لوگ ان کی اتباع کرتے ہیں ان کے نقشِ قدم پر چلتے ہیں ان کے عمل کو دلیل بناتے ہیں۔فرشتے ان کی دوستی اور رفاقت کی خواہش کرتے ہیں اپنے بازؤں ان کے جسموں سے مس کرتے ہیں بحر وبر کی تمام مخلوق یہاں تک کہ سمندر کی مچھلیاں اور کیڑے، خشکی کے درندے اور چوپائے، آسمان کے چاند ، سورج اور ستارے سب انکے لئے مغفرت کی دعا کرتے ہیں۔ اس لئے علم دل کی زندگی ہے ، علم نور ہے اسے تاریکیاں دور ہو جاتی ہے، علم سے بدن کو قوت ملتی ہے، ضعف دور ہوتا ہے، علم کی بدولت، انسان نیک لوگوں کے بلند درجات حاصل کرنے میں کامیاب ہوجاتا ہے۔علمی امور میں غور وفکر کرنا روزہ رکھنے کے برابر ہے علم کی تدریس میں مشغول رہنا شب بیداری کے برابر ہے۔ علم ہی سے اللہ کی اطاعت،عبادت اور تسبیح و تمہید کا حق ادا ہوتا ہے۔ اسی سے تقوی حاصل ہوتا ہے، صلح رحمی کی توفیق ہوتی ہے،حلال و حرام میں تمیز کا شعور پیدا ہوتا ہے۔ علم امام ہے عمل اس کی تابع ہے۔خوش قسمت لوگوں کے دل ہی علم کی آماجگاہ بن سکتے ہیں، بدقسمت لوگ اسے محروم رہتے ہیں ۔
حضرت ابن مبارک سے کسی نے پوچھا کون لوگ صحیح معنی میں انسان ہے؟ انھوں نے جواب دیا، علماء۔ اس گفتگو میں قابل غور بات یہ ہے عبداللہ ابن مبارک نے صرف علماء کو انسان قرار کیوں دیا ، کیونکہ جو چیز انسانوں کو جانوروں سے ممتاز کرتی ہے وہ علم ہے انسان کا امتیاز نہ تو جسمانی طاقت کی وجہ سے ہے، اس لئے کہ اونٹ اسے زیادہ طاقتور ہے نہ یہ امتیاز جسامت کے لحاظ سے ہے ۔اسی لئے کہ ہاتھی انسان کے مقابلے میں زیادہ جسیم ہے۔ شجاعت اور بہادری بھی وجہ امتیاز نہیں بن سکتی، اس لیے درندے اسے زیادہ بہادر اور شجاع ہوتے ہیں۔ خوش خوراکی بھی انسان کے لئے شرف کی علامت نہیں ،اس لئے کہ بیل اسے زیادہ کھاتے ہیں۔بلکہ اس کا شرف صرف اور صرف علم ہے اور اسی علم کے لیے وہ پیدا ہوا ہے بعض دانشوروں کا قول ہے ہمیں کوئی یہ بتلا دے کہ جس کو علم نہ ملا اسے کیا ملا اور جسے علم مل گیا اسے کیا نہیں ملا۔فتح موصلیؒ نے ایک مرتبہ اپنے مصاحبین سے دریافت کیا! اگر مریض کو تین دن کھانا پانی اور دوائیاں نہ دی جائے تو وہ مر نہ جائے گا ؟ لوگوں نے کہا یقیناً مر جائے گا۔فرمایا یہی حال دل کا ہے فتح موصلی ؒ نے بالکل صحیح کہا ہے۔اس لیے دل کی غذا علم و حکمت ہے جس طرح بدن کی زندگی غذا سے ہے اسی طرح دل کی زندگی علم و حکمت سے ہے جس شخص کو علم میسر نہیں اس کا دل بیمار ہے اور موت اس کا مقدر بن چکی ہے۔قران پاک کا ارشاد ہے :’’ایے ہمارے پروردگار ہم کو دنیا میں بھی بہتری عنایت کیجیے اور آخرت میں بہتری دیجیے‘‘۔اس آیت کے متعلق حضرت حسن بصری ؒ فرماتے ہیں کہ دنیا کے " حسنہ" سے مراد علم اور عبادت ہے اور آخرت کے " حسنہ" سے مراد جنت ہے۔ جو شخص علم و حکمت میں مصروف ہوتا ہے لوگ اسے عزت واحترام کی نظر سے دیکھتے ہیں۔حضرت لقمان نے بیٹے کو علماء کی ہم نشینی اور قربت کی نصیحت اس لیے کی تھی کہ اللہ تعالیٰ نوروحکمت سے دلوں کو اس طرح زندہ کرتا ہے جس طرح زمین کو بارش سے سرسبز وشاداب بنا دیتا ہے۔
اگر ہم علم سے مراد آج کے دور میں رائج اس مادی علم ہی کو لے جو تجربے اور مشاہدے کی بنیاد پر قائم ہے تب بھی ہم اس کی قدر و قیمت کا انکار نہیں کرسکتے. لوگوں کو اس کی ضرورت ہے اور بلا شبہ علم مادی بھی مطلوب ہے، اگر چہ اس کی حیثیت خود مقصد کی نہیں بلکہ وسیلہ و ذریعہ کی ہے کیونکہ مادی علم انسان کی زندگی میں مددگار ہے، اس کے راستے آسان کرتاہے زمان و مکان کے فاصلے کم کرتا ہے،دور کو نزدیک اور سخت کو آسان بناتا ہے لیکن تنہا یہی علم خوش بخت نہیں بنا سکتا نہ تنہا انسانی قافلہ کے سفر کو منضبط کرسکتا ہے اور اس کی عنا پرستی اور نفسانی میلانات کی روک تھام کرسکتا ہے۔ اس لئے انسان کو دینی علم کی انتہائی ضرورت ہے جو ایمان کو پروان چڑھاتا ہے، ضمیر کو زندہ کرتا ہے، اس میں بلند عادتیں اور کردار پیدا کرتا ہے ، نفس کے بخل و تحفظات سے بچاتا ہے۔ عقل پر حیوانی جزبات کو اور ضمیر کی اواز پر خواہش نفس کو غالب انے سے روکتا ہے۔اور پھر یہی دینی علم مادی علم کو بھی انحراف، جارحیت ،سرکشی اور تباہی وبربادی کے لیے استعمال ہونے سے بچاتا ہے۔
قرآن کریم نے اس سلسلے میں حضرت سلیمان علیہ السلام کی مثال دی ہے جنہیں ایسی بادشاہت دی گئی تھی جو پھر کسی اور کو نہیں دی گئی۔کیونکہ ان کے پاس بلا شبہ حقیقی علم ایمان کی طرف رہنما ئی کرتا ہے اور حقیقی ایمان علم کا میدان وسعی کرتا ہے۔ اس طرح علم اور ایمان ایک دوسرے کے شریک اور باہم تعاون کرنے والے بھائی ہے۔ اسلام یہی علم مراد لیتا ہے چاہیے اس کا موضوع اور میدان کچھ بھی ہو یعنی ایمان کے زیر سایہ اور اس کے اعلیٰ نمونہ کی خدمت میں سرگرم علم۔اس لئے قرآن اپنی پہلی آیت نازل کرتے ہوئے فرماتا ہے:" پڑھو ایے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے رب کے نام کے ساتھ جس نے پیدا کیا‘‘۔پڑھنا، علم کا عنوان اور اس کی کنجی ہے ۔جب قرآن میں نازل کردہ پہلا ہی حکم الٰہی پڑھنے سے متعلق ہے تو اسلام میں علم کے مقام ومرتبہ کی اسے واضح تر دلیل اور کیا ہو سکتی ہے ؟