آفتاب علی۔ممبئی
تعلیم کا مقصد یہ ہے کہ انسانی معاشرے کو ایک ایسا ضابطہ حیات ملے جو کامل ایمان و اعتقاد سے ہم آہنگ ہو۔ اگر اسلامی تاریخ کی ورق گردانی کی جائے اور اس قلیل اور بے سرو سامان جماعت کے کردار پر نظر ڈالی جائے، تو معلوم ہوتا ہے کہ ان کی کامیابی کا راز اللہ پر کامل یقین اور اس کے رسولؐ کی رہنمائی پر مضبوطی سے قائم رہنے میں پنہاں ہے، اس لئے اگر کوئی بہتر نظام تعلیم ہے تو وہ وہی ہے جس کو اسلام نے دنیا کے سامنے پیش کیا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ نظام تعلیم انسانی معاشرے کو عدل و انصاف، حق شناسی اور پاکیزگی کے اعتبار سے بلند و بالا بنانے کا خواہش مند ہے۔اسلام کا نظام تعلیم ضابطہ اخلاق کو استوار کرتا اور لا علم عناصر کے مقابلے میں اچھی عادتوں اور عمدہ سیرت و کردار پر زور دیتا ہے،کیونکہ دین سے دوری یا مادہ پرستی کسی بھی قوم کو ذہنی، قلبی اور روحانی سکون فراہم نہیں کرتی، جبکہ اسلام میں تعلیم کا رشتہ، دین و اخلاق اور تہذیب و شائستگی سے جڑا ہوا ہے۔اس لئے مسلمانوں کو خیر الامم کہا گیا ہے۔ آل عمران میں ارشاد باری تعالیٰ ہے: ۔’’اے مسلمانوں جتنی قومیں دُنیا میں پیدا ہوئیں، تم ان سے بہتر ہو کہ نیک کام کرنے کو کہتے ہو اوربُرے کاموں سے روکتے ہو اور اللہ پر ایمان رکھتے ہو۔‘‘ اسلامی تعلیم یہی ہے کہ وہ نوجوانوں میں ذہنی، علمی اور دماغی صلاحیتوں کو اعلیٰ انسانی اقدار پر استوار کرتا ہے۔ تعلیم ایک بلند نصب العین رکھتا ہے اور وہ بلند نصب العین یہ ہے کہ وہ معاشرے میں نیکی کے روّیے کو رائج کرنا چاہتا ہے۔اس کا کہنا یہ ہے کہ سوسائٹی میں عدل و انصاف کا دور دورہ ہو، کسی کی حق تلفی نہ کی جائے،ایک دوسرے کا احترام کیا جائے، کسی کی دِل آزاری نہ کی جائے، خالق کی رضا اور نجات آخرت کو پیش نظر رکھا جائے، انفرادی اور اجتماعی ذمہ داریوں کو ایمانداری و محنت سے ادا کیا جائے، دراصل تعلیم ایک معاشرتی عمل ہے۔
لفظ تعلیم کے معنی ہیں سکھانا یا رہنمائی کرنا، چونکہ تعلیم کے ذریعے بچے کی مخفی اور فطری صلاحیتوں کو ابھار کر ان سے کام لیا جاتا ہے، گویا تعلیم میں بچے کی تربیت کا پہلو بھی شامل ہے، چنانچہ حدیث شریف میں ہے، رسولؐ نے فرمایا’’اللہ تعالیٰ نے میری تہذیب و تربیت بہتر ترقی پر کی ہے۔‘‘ ہر قوم، ہر معاشرہ اپنی ضروریات، مقصد حیات، نظریات و عقائد کے مطابق اپنے بچوں یا افراد کو تعلیم دیتا ہے، ہم بحیثیت مسلمان تعلیم کے لئے قرآن مجیدا ور احادیث نبویؐ کے مفہوم کو بہتر تصور کرتے ہیں، جس کے مطابق معرفت الٰہی حاصل کرنا، اپنے آپ کو پہچاننا، کائنات کی حقیقت معلوم کرنے کے لئے جستجو کرنا، یعنی سائنس، اصل علم ہے۔اس طرح اسلامی نظام تعلیم دین و دنیا، فرد اور اجتماع دونوں کی فلاح و بہبود کو مد نظر رکھتا ہے۔ سقراط نے صرف حقیقت کی تلاش کو تعلیم کہا۔ افلاطون نے معاشرے کی متوازن تنظیم کو تعلیم سے تعبیر کیا۔ارسطو نے تعلیم کو جسمانی اور عقلی
تربیت کا وسیلہ بتایا، لیکن اسلام جسم اور روح دونوں کی تربیت کو مقصد تعلیم قرار دیتا ہے تاکہ ذات اور معاشرے کو پاکیزہ سے پاکیزہ بنایا جا سکے۔ اسلام میں تعلیم ایک با مقصد عمل ہے،اس سے فرد اور معاشرے کی اصلاح کا کام لیا جا سکتا ہے۔ تعلیم کا مقصد صرف انسان کے فطری کردار کی تربیت کرنا ہی نہیں،بلکہ معرفت ِ کردار کا حصول بھی ہے۔ غرض اسلام میں تعلیم کا مفہوم و عمل یہ ہے کہ دین کے ساتھ رشتہ قائم رکھتے ہوئے اس کی طبعی قوتوں کی نشوونما کے فرائض انجام دے۔
دراصل تعلیم ایک ایسا عمل ہے، جس کی ضروریات اور مسائل بدلتے رہتے ہیں۔ معاشرے اور افراد کی نشوونما کے بدلتے ہوئے تقاضوں اور تمناؤں سے باہم مربوط ہونے کا نام ہی تعلیم ہے۔ اسلامی نظام تعلیم فرد اور اجتماع کے ذہنی، جسمانی، جذباتی، سماجی تقاضوں کو پورا کرنے کی بھرپور صلاحیت رکھتا ہے۔ ہر ملک و قوم کا نظام تعلیم اس کے مخصوص نظریۂ حیات سے مطابقت رکھتا ہے، چنانچہ موجودہ دور میں مخصوص نظریئے کی تعلیم دی جاتی ہے۔ ایک اندازے کے مطابق تدریسی طریقوں کی تربیت کے پانچ سالہ نصاب کی تکمیل کے دوران طلبہ کو تقریباً پانچ سو گھنٹے اشتراکی تصورات کی تعلیم پر صرف کرنا پڑتے ہیں۔اس حقیقت کی روشنی میں اگر قرآن و سنت و حدیث یا اسلامی تعلیمات سے مسلمان بچوں کو آگاہ کیا جائے تویہ کوئی بری بات نہیں۔اس سلسلے میں اہم بات یہ ہے کہ کسی بھی نظام تعلیم کے مقاصد کا واضح تعین ضروری ہوتا ہے۔
بحیثیت مسلمان ہمارے گھروں میں تعلیم کا مقصد اسلامی نظریات یا اسلامی اقدار کا احیاء ہونا چاہئے،جبکہ مقصد کا تعین نہ ہونے کی صورت میں بے یقینی جیسی حالت رہتی ہے، پھر منتشر راستے جس طرف لے جائیں، طلبہ، اساتذہ اور والدین اسی جانب چلتے رہتے ہیں،اس سے وقت، دولت اور عمر کا ضیاع ہوتا ہے۔ مقصد کے تعین کے بغیر تدریسی عمل بے معنی ہے۔ اساتذہ اور طلبہ دونوں کے لئے تدریس غیر موثر ہوتی ہے۔دوسری بات یہ ہے کہ مقصد کے تعین کے بغیر مخصوص طریقہ کار اختیار نہیں کیا جا سکتا۔ مقصد کے تعین سے اساتذہ کے لئے بھی سہولت ہوتی ہے اور منزل تک پہنچنے میں کوئی رکاوٹ بھی حائل نہیں ہوئی۔ اس میں کامیابی کے لئے ضروری ہے کہ پہلے منزل اور اس کی راہ کا تعین کیا جائے،اگر راہ کا تعین درست نہ ہو تو بچوں کی رسمی تعلیم و تربیت سے کوئی فائدہ نہیں۔
امیر لوگوں نے انگلش کو ذریعہ تعلیم بنایا ہوا ہے اور وہ بڑے بڑے سکولوں، کالجوں میں اپنے بچوں کو تعلیم دلواتے ہیں۔ ان بچوں نے پہلے دن سے ہی نمبر 1 درجہ شہری ہونے کا سوچ لیا ہوتا ہے۔ سرکاری سکولوں اور کالجوں میں تعلیم تو اچھی دی جاتی ہے،لیکن مسئلہ یہ پیدا ہوتا جاتا ہے کہ بچوں کوپر پوری توجہ نہیں دی جاتی ہے، جو لوگ بہت غریب اور کمزور ہوتے ہیں، وہ اپنے بچوں کو مدرسوں میں داخل کروا دیتے ہیں۔مگر بعد میں ان مدرسوں اور دوسرے سکولوں، کالجوں کے پڑھے ہوئے بچوں میں ہم آہنگی پیدا نہیں ہو سکتی۔ زندگی گزارنے کی راہیں بالکل مختلف ہوتی ہیں، جن سے معاشرے میں مسائل اور مشکلات پیدا ہوتی ہیں۔