یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ تعلیم سے قوموں کی تقدیر سنور جاتی ہے اور تعلیم ہی وہ ہتھیار ہے جس سے دنیا میں انقلاب آسکتا ہے اور اب تک کئی انقلابات آبھی چکے ہیں لیکن گزشتہ دو برسوں سے کورونا کی وباء میں اگر کوئی شعبہ سب سے زیادہ متاثر ہوا تو وہ تعلیم کا ہی شعبہ تھا ۔اب یہ امراطمینان بخش ہے کہ تعلیمی اداروںکی ویرانی ختم ہورہی ہے اور کمرہ جماعت بچوں کی چہچہاہٹ سے پھر سے لوٹ آئی ہے ۔دوسال کے وقفہ کے بعد بالآخر جموںوکشمیر مرکزی زیر انتظام علاقہ کے سرمائی زون میں تعلیمی ادارے کھل گئے۔2 سال بعد سکول کھولنے کا عمل اپنے آپ میں مستحسن قدم ہے اور اس کا خیر مقدم کیاجانا چاہئے تاہم کچھ باتیں ہیں جو حکام کے گوش گزار کرنا ضروری ہیں۔سکولی تعلیم محکمہ کے سربراہ نے کہا کہ سکولوں کا وائٹ واش کرنے کے علاوہ انہیں جراثیم کش ادویات کا چھڑکائو کیا جائے گااور ا سکے بعد یہ تعلیمی اداروں میں درس و تدریس کا عمل شروع کیاجائے گا۔انہوںنے جس طرح تدریسی عمل میں تعطل پر تشویش کا اظہار کیا تھا،وہ اس بات کی جانب اشارہ تھا کہ حکومت کو واقعی بچوں کی تعلیم کو لیکر کافی فکرہے اور ہونی بھی چاہئے ۔کوئی باپ نہیں چاہے گا کہ اُس کا بچہ سکول سے دور رہے ۔تمام والدین کی کوشش رہتی ہے کہ ان کے بچوں کا تعلیمی کیرئر متاثر نہ ہو اور اس کیلئے وہ کوئی بھی قربانی دینے سے دریغ نہیں کرتے ہیںتاہم موجودہ حالات میں گوکہ یہ خوش کن اطلا ع ہے کہ سکول کھلنے والے ہیں لیکن کچھ جائز خدشات ہیں جن کا ازالہ لازمی ہے ۔
جیسا کہ سب جانتے ہیں کہ کورونا کے معاملات ابھی بتدریج کم ہورہے ہیں تاہم یہ بھی سچ ہے کہ کووڈ انیس ابھی یہیں ہے اور ہمارے بیچ ہی موجود ہے۔ا سمیںکوئی دورائے نہیں کہ تعلیمی نقصان ہورہا ہے اور تدریسی عمل بحال ہونا چاہئے تاہم یہ سب طلباء کی زندگیوںکی قیمت پر نہیں ہوناچاہئے ۔ایک سکول میں بیسیوں علاقوںکے بچے مشترکہ طور پڑھتے ہیں اور کم ازکم ایک جماعت میں 30بچے ہوتے ہیں ۔کون جانتا ہے کہ سبھی بچے وائرس سے پاک ہیں ۔جب بھیڑ بھاڑ ہوگی تو کچھ بھی ہوسکتا ہے ۔ا ب جبکہ تعلیمی ادارے کھل گئے ہیںتو حکومت کو چاہئے کہ وہ سبھی بچوں کے ٹیسٹ کروائے تاکہ سکول جانے سے قبل یہ یقینی بنایا جاسکے کہ وہ انفیکشن میں مبتلا نہیں ہیں۔بچے بیماریوںکے تئیں انتہائی حساس ہوتے ہیں اور معمولی سا انفیکشن بھی ان کے لئے جان لیوا ثابت ہوسکتا ہے ۔کورونا کا جہاںتک تعلق ہے تو یہ انتہائی سنگین متعدی مرض ہے اور بچوںکو اس مرض کیلئے ایکسپوژ کرنا دانشمندی نہیں ہے ۔
اس بات سے بھی انکار نہیں کہ آن لائن تعلیم کا تجربہ کامیاب نہ رہا ۔بھلے ہی حکومت لاکھ دعوے کرے لیکن زمینی حقائق یہ ہیں کہ کشمیر میں آن لائن تدریسی عمل بری طرح ناکام ہوچکاہے اور بچوں کیلئے یہ عمل یقینی طور پر لکھے من اور پڑھے خدا والاہی تھا۔اس عمل کے دوران بچوں کے کچھ پلے نہیں پڑا بلکہ وہ کنفیوژن کے ہی شکار ہوجاتے اگر ان کے والدین خود انکی تعلیم پر اس دوران دھیان نہ دیتے ۔سکولوں کا تعلیمی ماحول کہیں نہیں ملے گااور بچے جو سکول میں سیکھتے ہیں ،شاید ہی کہیں سیکھ پائیں گے لیکن ہمیں اس بات کو یقینی بنانا ہوگا کہ ہمارے سکول پھر کورونا کے نئے ہاٹ سپاٹ نہ بن جائیں۔
جموںوکشمیر میں سرکاری سکولوں کی حالت کیسی ہے ،سب کو معلوم ہے ۔وائٹ واش کرنے سے ان کی حالت نہیں بدلے گی اور نہ ہی جراثیم کش ادویات سے کورونا بھاگ سکتا ہے ۔جراثیم کش ادویات کا چھڑکائومحض یہ جعلی احساس دلاتا ہے کہ آدمی انفیشکن سے محفوظ رہے گا لیکن حقیقت حال یہ ہے کہ یہ سپرے کورونا وائرس پر بے اثر ہی رہتے ہیں ۔سمجھنے کی بات یہ ہے کہ اگر سپر ے کیا بھی جائے لیکن بچہ ہی اپنے ساتھ انفیکشن لائے تو سپرے کیا کرے گا۔
اگرسبھی بچوں کی ترجیحی بنیادوںپر کووڈ ٹیکہ کاری کروائی جائے تو وہ سونے پہ سہاگا ہوگا۔ایسا کرکے والدین میں یہ احساس پیدا ہوجائے گا کہ ان کے بچے سکولوں میں محفوظ ہیں۔ اگر حکومت واقعی چاہتی ہے کہ یہ عمل محض علامت بن کر نہ رہے تووالدین کو اعتماد میںلینا ہی پڑے گا۔سکولوں میں بھیڑ بھاڑ ختم کرنے کی ضرورت ہے ۔سماجی دوریوں پر سکولوںمیں بھی عمل پیرا رہنا پڑے گا۔سکولی بسوں میں جس طرح بچوںکو ٹھونس ٹھونس کر بھرا جاتا ہے ،اُس سے گریز کرنا ہوگا تاکہ والدین کو لگے کہ انکے بچے محفوظ ہاتھوںمیں ہیں اور اگر وہ تعلیم کے نور سے منور ہونے جائیں گے ،تو وہ سکولوںسے اپنے ساتھ وائرس نہیں لائیںگے جو نہ صرف ان بچوں بلکہ انکے پورے گھر کیلئے بھی پھر سنگین مسئلہ بن سکتا ہے ۔امید کی جاسکتی ہے کہ حکام ان مشوروںپر غور کریں گے او ر انہیں روبہ عمل بھی لائیں گے تاکہ تعلیمی اداروںکی بحالی کا عمل اب کی پائیدار ثابت ہوسکے اور ہمارے بچے بلاخلل علم کے نور سے منور ہوتے رہیں کیونکہ گزشتہ دو سال انہوںنے تعلیمی اعتبار سے بہت زیادہ نقصان اٹھایاہے اور وہ مزید نقصان کے متحمل نہیں ہوسکتے ہیں۔