محمد شبیر کھٹانہ
سب سے پہلے ہمیں یہ سمجھنا ضروری ہے کہ تعلیم اور علم کس مقصد کے لیے ایک پڑھے لکھے شخص کو اﷲ تبارک تعالیٰ کی طرف سے نصیب ہوا ہے۔
یہ تعلیم اور علم ایک امانت ہے جو ﷲ تعالیٰ کی طرف سے ہر پڑھے لکھے (مطلب استاد) کے لیے عطا کی گئی ہے، لیکن اس امانت کو محنت، خلوص، دیانت اور پوری صلاحیتوں کے ساتھ کلاس رومز میںا ﷲ کی بہترین مخلوق میں تقسیم کرنا ہے۔ امانت کو جائز طور پر خلوص اور دیانتداری سے استعمال کیا جائے گا ،اگر اساتذہ سکولوں کے بچوں کو معیاری تعلیم نہ دیں توامانت میں بڑی خیانت ہو گی اور انہیںا ﷲ کے حضور جوابدہ ہونا پڑے گا۔ظاہر ہے کہ وہ بچوں کو مفت میں تعلیم نہیں دیتے بلکہ انہیںاس کام کے لئے سرکاری خزانے، جو کہ عوامی سرمایہ ہوتا ہے،سےاچھی تنخواہیں مل جاتی ہیں۔اس لئے اُن کے لئے لازم ہے کہ وہ طلبا کے ساتھ انصاف کرنے کے لئے اپنے آپ میں اتنی ہی قابلیت پیدا کریں ،جتنی کسی ضلع میں کام کرنے والے ذہین، تجربہ کار، مخلص اور سرشار استاد میں ہونی چاہئےاور اپنی کارکردگی کو فروغ دینے کے مقصد کے لیے تمام اساتذہ کو مسلسل پڑھنے کی عادت ڈالنی چاہیے۔ بہترین تکنیکوںکے ساتھ زیر تعلیم بچوںکو درس دینےکا طریقہ کار کا علم ہونا چاہیے تاکہ تمام طلبا کو جو کچھ سکھایا جائے،وہ بہتر طریقے پر سمجھ سکیں۔اب نیشل ایجوکیشن پالیسی 2020 کے مطابق صرف کلاس میں پڑھانا ہی کافی نہیںبلکہ تمام اساتذہ کی منصبی ذمہ داری ہوگی کہ وہ اپنی اپنی کلاس کے تمام طلباء کی مثبت طرزِ عمل کے تحت درس و تدریس کا سلسلہ یکسان طریقے پر دیں سکیں۔گویا تمام اساتذہ کو دروس ِ تعلیم اور بچوں کی نفسیات کا مکمل علم ہونا ضروری ہے تاکہ نفسیاتی ڈاکٹروں کی طرح اساتذہ اپنے فرائض سرانجام دے سکتے، اوراپنی علمی استعداد اور تجربے سے سست طریقے پر سیکھنے والے طلاب کی وجوہات یا مسائل کی نشاندہی کر سکیں۔ جس کی وجہ سے وہ اپنے دوسرے کلاس فیلوز کے ساتھ پڑھائی میں تیزی لانے سے قاصر ہیں۔ اساتذہ کو تدریس کے میکسیمز(maxims) کا مکمل علم ہونا چاہیے تاکہ کلاس میں پڑھاتے وقت اس طرح کے میکسیمز (maxims) کا صحیح استعمال کرسکیں تا کہ ان میکسیمز کی مدد سے طلبا کو سوچ سمجھ آگے بڑھ سکے۔
طلباء کو غیر معمولی موثر اور ذہین بنانے کے لیے اساتذہ کو اس بات کو یقینی بنانا چاہیے کہ تمام طلباء کو ٹینس( Tenses) اور متعلقہ گرامر کا علم اور دسترس حاصل کرسکیں۔ اساتذہ کو چاہیے کہ وہ ہر طالب علم کے ذخیرہ الفاظ کو اس انداز میں بڑھانے کی کوشش کریں کہ بارہویں پاس کرنے کے بعد ہر طالب علم کے پاس بیس ہزار سے زیادہ الفاظ کا ذخیرہ ہو۔ اساتذہ کو اس بات کو یقینی بنانا چاہیے کہ وہ طلباء کو جو کچھ بھی پڑھاتے،اُسے سمجھنے کی صلاحیت بھی پیدا کریں۔ استاد کو مختلف تکنیکوں اور پڑھنے کے طریقوں کو استعمال کرکے طلباء کی یادداشت کو بڑھانا چاہیے۔ اساتذہ کو چاہیے کہ وہ طلبا میں پڑھنے کے مقاصد کے لیے مناسب ڈھنگ سے بیٹھنے کی عادت ڈالیں۔ اساتذہ کو چاہیے کہ وہ ہر طالب علم کے لیے سمارٹ مقاصد طے کریں اور مناسب رہنمائی اور مشاورت کا اہتمام کرکے ترجیحی ترتیب سے ایسے مقاصد حاصل کرسکیں۔ اساتذہ کو چاہیے کہ وہ طلبا میں اظہار خیال کی صلاحیت پیدا کریں تاکہ وہ کسی بھی موضوع یا ذیلی عنوان پر درست طریقے سے لکھ سکیں۔ جب اساتذہ کی مخلصانہ کوششوں سے تمام طلباء میں ایسی صلاحیتیں پیدا ہو جائیں گی تو وہ قومی سطح پر مقابلہ کر سکیں گے۔
اگر ہم اساتذہ کی بھرتی کے لیے اہلیت پر غور کریں گے تو نیشنل ایجوکیشن پالیسی 2020 کے مطابق صرف ایسے امیدوار ہی بطور اُستاد اپنے انتخاب کے اہل ہوں گے جنہوں نے اساتذہ کی اہلیت کے امتحان (TETs) کو کوالیفائی کیا ہو گا ۔ اگر تمام اساتذہ ایسے امیدوار کی کارکردگی کی سطح کا تجزیہ کریں گے جو اس طرح کے اساتذہ کی اہلیت کے امتحان (TETs) کوالیفائی کرنے کے لیے درکار ہو گی تو ہم اس نتیجے پر پہنچیں گے کہ ایک اُمیدوار جس نے گریجویشن میں پچاسی فیصد سے زیادہ نمبر حاصل کئے ہوں گے۔ یہ حقیقت تمام موجودہ اساتذہ کی کارکردگی کی سطح کو ظاہر کرتی ہے۔ اس لیے تمام موجودہ اساتذہ پر بھی لازم ہے کہ وہ اپنی جائز ذمہ داریوں کو بہترین اور کامیاب طریقے سے نبھانے کے لیے اپنی استعداد اور اہلیت کی سطح میں اضافہ کریں ۔ یہ اُسی وقت ممکن ہو گا جب تمام اساتذہ کو مسلسل پڑھنے کی عادت ہو گی۔ اساتذہ کو ایک دوسرے سے سیکھنا چاہیے۔ ہر استاد کو سب سے زیادہ تجربہ کار اور قابل اساتذہ کی شناخت کرنی چاہیے تاکہ وہ اُن سے اپنی استعداد اور قابلیت میں اضافہ کر سکیں ۔ جب اس عمل کو تمام اساتذہ اپنا لیں گے تو یقیناً یہ سب طلبا کو پڑھانے کے لیے یکساں طور پر قابل اور اہل ہو جائیں گے۔ جس کے لئے ہر استاد کو اپنے I.Q کی سطح کا اندازہ لگانا چاہیے تاکہ وہ اپنی استعداد اور قابلیت کو بڑھانے کے لیے مطلوبہ کوششیں یا محنت کرسکیں۔
اس کے علاوہ 6 سے 14 سال کی عمر کے بچوں کے لیے تعلیم کو لازمی قرار دیا گیا ہے اور تمام اساتذہ کی یہ جائز ذمہ داری ہے کہ وہ تمام بچوں کو اس طرح معیاری تعلیم فراہم کریں تاکہ ان سب میں یکساں صلاحیت اور استعداد پیدا ہو، جو کہ تمام بچوں کا قانونی یا آئینی حق ہے۔ تمام بچوں کو یکساں تعلیم تب ہی دی جا سکتی ہے جب تمام اساتذہ میں یکساں تدریسی مہارت، اختراعی آئیڈیا اورمساوی صلاحیت اور ذمہ داری، دلچسپی کے ساتھ بچوں کو پڑھانے کی خواہش ہو گی ۔ان تمام وجوہات کو مدنظر رکھتے ہوئے تمام اساتذہ کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنی تدریسی صلاحیتوں میں اس حد تک اضافہ کریں کہ تمام اساتذہ تدریسی مہارتوں، اختراعی خیالات اور مضامین کے علم میں یکساں طور پر مستعد اور اہل ہوں۔اعلیٰ معیار کی تعلیم دینے کے لیے درکار تدریسی مہارتوں اور اختراعی آئیڈیاز کی سطح بڑھانا : تمام اساتذہ اکرام کو اس مضمون یا موضوعات پر مکمل کنٹرول حاصل ہونا چاہیے جو انھیں کلاس میں پڑھانے کے لیے تفویض کئے گئے ہیں۔ اپنے طالب علم کو تمام بنیادی تصورات کو مکمل طور پر واضح کرنے یا سمجھانے کے لیے ان کے پاس استعداد، صلاحیت اور علم ہونا چاہیے۔ ان کے پاس مضمون پڑھانے پر مکمل عبور اور مہارت ہونی ضروری ہے تاکہ تمام طلباء کو تمام عنوانات کے ذیلی عنوانات کی تعریف وغیرہ کی مکمل سمجھایا جا سکے ۔جب تمام اساتذہ اپنے آپ کو تیار کریں گے جیسا کہ اس مضمون میں یہاں بحث اور وضاحت کی گئی ہے تو وہ سب تعلیم اور علم کا صحیح احترام کر سکیں گے جو ان سب کو نصیب ہوا ہے اور اس طرح تمام اساتذہ بھی وہ عظیم کردار ادا کرنے کے قابل ہو جو ایک استاد کو معاشرے کے سب سے قابل احترام ممبر ثابت کرنے کے لیے ادا کرنا ہوتا ہے۔
تعلیم اور علم کا مناسب احترام کرنے کا ایک اور پہلو یہ ہے کہ متعلقہ کی اعلیٰ قابلیت کا اس کی کارکردگی، کام کرنے کی مہارت، طلبا، ساتھیوں، بزرگوں، طلبا کے والدین، معاشرے کے ساتھ اس کے برتاؤ کا مکمل اثر ہونا چاہیے۔ اسے اپنی اندرونی طاقت اور صلاحیت کے بارے میں مکمل علم ہونا چاہیے اور موثر، ذہین اور قابل قوم بنانے والے بننے کے لیے درکار ان عوامل کو بڑھانے کے لیے تکنیک کا مساوی علم ہونا چاہیے۔
تمام اساتذہ کو تحریری مہارتوں پر عبور حاصل ہونا چاہیے۔ تا کہ وہ مشکل سے مشکل مسلے کا حل تحریر کی مدد سے کروا سکیں ان کے پاس ایک مضبوط باڈی لینگویج اور مضبوط رویہ پیدا کرنے کے لیے علم ہونا چاہیے جس کے استعمال سے وہ دوسروں کو ان کے مکمل تعاون یا مدد کے لیے راضی کرنے اور ان کی حوصلہ افزائی کرنے کے قابل ہونے چاہیے۔ تعلیم کے مکمل احترام کا مطلب ہے تعلیم کا صحیح استعمال اپنے لیے اور معاشرے اور قوم کے لیے۔ تعلیم ہم سب کے لیے سب سے قیمتی دولت ہے اور ہم سب کو ہر وقت اس کا مکمل احترام کرنا چاہیے۔یہ سب تبھی ممکن ہو گا جب ہم طلبا کو پڑھانے کے لئے اپنی تمام صلاحیتوں کو بروئے کار لاکر پوری محنت لگن اور ایمانداری سے کام کریں گے۔
رابطہ۔ 9906241250
[email protected]>